ظفراللہ کا مرغی خانہ


بہت بچپن میں تو نہیں لیکن اس کے آس پاس، ایک بار مرغی خانہ بنانے کا جنون سوار ہوا سر پر۔ ابا مرحوم سے اس موضوع پر کتابوں کی فرمائش کی۔ جو اس وقت میسر تھیں، وہ لا دی گئیں۔ ان میں سے ایک میں اچھا مرغی خانہ چلانے کے اصولوں میں لکھا تھا کہ اگر کوئی چوزہ ڈھیلا نظر آئے تو اسے جا کر پکڑنے یا اس کا علاج کرنے کی بجائے۔ ائرگن سے اسے نشانہ بنائیں، بعد کو خاکروب اسے اٹھا لیں گے، وغیرہ۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان میں کچھ ایسا ہی مرغی خانے جیسا کاروبار چل رہا ہے۔ بس یہاں ڈھیلے سے مراد غالبا ماحول سے اتنا مختلف ہونا تھا کہ دور سے نظر آ جائے۔

خیر، مرغی خانہ تو رانی کھیت کے ایک ہی ہلے میں ہی تہ و بالا ہوگیا بس یادیں رہ گئیں۔ ان میں سےچند ایک ہیں جو پاکستان کا احوال دیکھتے ہوئے اکثر تنگ کرتی ہیں۔ وہ آپ کی نذر ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم نے اپنے مرغی خانے کو شروع کرنے کیلئے بنیادی مواد یعنی مرغیاں کچھ تو قریبی بلوچوں کی بستی سے خریدیں اور کچھ ابا مرحوم کے ساتھ جا کر ایمپریس مارکیٹ سے۔ انہی میں ایک وھائیٹ لیگ ہارن بھی تھی میلے میلے سے سفید پر، یہ بڑی سی کلغی جو کہ مرغی ہونے کی نسبت سے ذرا باریک اور ڈھیلی سی تھی۔ پنجے سے ذرا اوپر یہ بڑا سا نوکیلا کانٹا۔ غرضیکہ خیال تھا کہ جیسا کہ ہمیں بتایا گیا تھاکہ جب انڈوں پر آئے گی، اور ٹھیک سے پر نکل آئیں گے، تو بہت خوب لگے گی۔ اور ایک، ہمیں تو دیسی ہی لگتی تھی، پرسفید پرون مین ہلکی سی زردی بتاتی تھی کہ اعلی نسل کی ہی ہوگی۔
پر وہ کیا کہتے ہیں جی کہ تدبیر کرے بندہ، تقدیر کرے خندہ۔ کہیں سے ان دیسی مرغیوں کو خبر ہوگئی جن کے ملے جلے رنگوں کے پر ہمیشہ ایک سے رہتے تھےاور کڑک ہونے پر بھی میلے نہیں ہوتے تھے۔ اور جو ہماری نظر میں محض اس لئے نا پسندیدہ تھیں کہ انڈے کم دیتی تھیں اور کڑک زیادہ ہوتی تھیں۔ انہون نے جو ولایتی مرغی کو دیکھ کر پینترے بدلے (یعنی ایک پر نیچا کر کے اور دوسرا سکیڑ کر) تو ہم سمجھے کہ یہ شاید استقبال کا کوئی طریقہ ہے۔ جواب میں ان لیگ ہارن صاحبہ نے بھی غرانے کی سی آواز نکالی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ اب دوستی پکی ہوئی کہ ہوئی۔ لہذا نچنت ہو کے دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ جب ہم اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے شور مچانے پر ڈربے کے پاس پہنچے تو لگا کہ گھمسان کا رن پڑا تھا۔ میلے میلے سفید پرون کی بہتات سے اندازہ لگایا کہ یکطرفہ ہی ہوگا۔ توجہ دلانے پر جو اس بڑے سے ڈربے کے ایک کونے میں دیکھا توان وھائیٹ لیگ ہارن صاحبہ کو رکوع اور سجدے کے کہیں درمیان کی حالت میں یوں پایا کہ ان کی کلغی لہولہان تھی اور گردن کے پاس سے خون بہے جا رہا تھا۔ شام کو ابا گھر آئے تو اس کی حالت دیکھ کہنے لگے کہ اب یہ بچنے کی نہیں، بہتر ہے ذبح کرلیں۔ ہمیں بہت دکھ ہوا کہ نہ مرہم نہ پٹی نہ دوا نہ دارو۔ بس ذبح کر دو۔

مرغیوں اور دوسرے جانوروں کے معاملے میں ہمارا اصول یہ ہے چاہے جتنا پیارا رہا ہو جب ذبح ہو گیا تو اسکی بوٹیاں مزے لے کر کھاو۔ پر سچی بات یہ ہے کہ اس مرغی کا گوشت بھی بدمزہ تھا۔ گویا اس مرغی پر اونچی دوکان پھیکا پکوان کا محاورہ اسی طرح صادق آتا تھا جس طرح روٹی کپٖڑا اور مکان کےنعرے پر اور نعرےوالے پر بعد کو صادق آیا۔ اور ہمارا یقین اس بات پر پختہ ہوگیا کہ خیریت اسی میں ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے مختلف نہ دکھائی دو۔
اب ذرا دوسری سفید مرغی کا ذکر ہو جائے۔ یہ ماحول سے، کوئی ایسی مختلف بھی نہیں تھیں، پر لگتا ہے اس کا اہنسا ہر پرمو دھرما پر کچھ ایسا یقین تھا کہ انکو کبھی کسی چوزے پربھی غراتے( یعنی غیظ و غضب کی آوازنکالتے) نہ دیکھا۔ اور نہ ہی کبھی دایاں پر گر۱کے بایاں سکیڑ کے کسی دوسر ی مرغی کو دھمکانے کی کوشش کرتے دیکھا۔ کچھ دن ہمارے مرغی خانے کے سب سے کڑیل ایلفا مرغے کے ساتھ رہی پھر یوں لگتا ہے مرغا دیگر مرغیوں کی طرف متوجہ ہوکر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مصروف ہو گیا۔ یہ ڈانواں ڈول پھرتی رہی کبھی کہیں دانے پر منہ مار دیا۔ کہیں کسی مرغے کی ںظر میں آگ ئی اور اس نے نواز دیا تو آہستہ سے پر جھاڑ دئے اور بس۔
پھر یوں لگتا ہے کہ اس مرغی کا دل اس دنیا سے اچاٹ ہو گیا، اور اکثر مراقبے میں نظر آنے لگی۔ ہم دنیا داروں کو فکر ہوئی کہ یہ مرغی شاید بیمار ہے۔ اباکی لائی ہوئی کتابوں میں جو نسخے تھے ان سے ہماری جان جاتی تھی کہ انگریزی میں تھے۔ ابا سے پڑھوانے کا مطلب تھا اپنی ہنسی اڑوانا، اور اماں کے پاس مرغیوں کی بیماری کے چند ایک گنے چنےہی علاج تھے جن میں لہسن کا جوا مرغی کے حلق میں ٹھونسنا، یا ثابت لال مرچ کو اچار کے یا کم از کم سرسوں کے تیل میں ڈبو کر مرغی کے حلق میں ٹھونسنا۔ مرغی کا کانٹا کاٹنا۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا اورکانٹا بھی کاٹا۔
پر اسکی حالت نہ سدھرنا تھی نہ سدھری۔ رات کے وقت ہم اسکو الگ سے ایک ڈربے میں بند کرتے تھے کہ اس میں اتنا دم نہیں تھا کہ دوسری بڑی مرغیوں کی طرح ڈربے کی چھت پر یا باہر اونچی دیوار پر بیٹھ کر رات گزارے۔ صبح ڈربے سے نکال کر ہم لوگ اسے تقریبا صحن کے درمیان میں چھوڑتے تھے۔ پر دوسری مرغیوں کی چونچوں اورمرغوں کی مہربانیون کے طفیل وہ دوپہر تک صحن کی دوسری طرف دیوار کے ساتھ لگی ہوتی تھی۔ بس یہ سمجھ لیں کہ اگر وہ کہیں کسی اسٹول یا کسی چارپائی کے پاس پہنچ جاتی تھی تو چھوٹے چھوٹے ایسے بانگڑو چوزوں کی بھی بن آتی تھی جن کو بڑی مرغیاں اپنے پاس بھی نہین پھٹکنے دیتی تھین، کہ ابھی ان میں مرغی کے سر پر چونچ رکھ کے سواری گانٹھنے کی سکت نہیں تھی۔ یہ اونچی جگہ سے چھلانگ لگاکر اپنا کام نکالنے کی کوشش کرتے تھے اور بعض اوقات کامیاب بھی ہوجاتے تھے۔ ایک آدھ بار یہ تجویز پیش ہوئی کہ اس کو ذبح کر لیا جائے۔ پر پھر یہ سوال اٹھتا کہ بیمار مرغی کون کھائے گا، اور کس کو کھلائیں گے؟ اور معاملہ وہیں ٹھپ ہوجاتا۔ اسی حیص بیص میں ایک روز وہ مرغی اکڑی ہوئی پائی گئی۔
لگتا ہے کہ اسی زمانے میں ہمارا مرغی خانہ مختلف آفتوں کا شکار ہوگیا اور آخر کار ہمیں مرغیوں سے ایک کے دس بنانے کے خواب چھوڑ کر چاکیواڑہ ہائی اسکول کا رخ کرنا پڑ گیا۔

آجکل کہ ہم بڑھاپے کے سبب مختلف انواع کی بیماریوں کا شکار ہوکر بسترکا بوجھ بنے رہتے ہیں۔ یادوں کی جگالی کرنا ایک مستقل مشغلہ بن گیا ہے۔ پتا نہیں کیوں ہم جب بھی کسی لبرل کی کسی اقلیت کی یا جمہوریت کی حمایت میں یکطرفہ تحریر دیکھتےہیں یا کسی مولوی صاحب کے تکفیری خطبے کا سنتے ہیں تو ہمیں اس  زرد سے پروں والی سفید سی مرغی پر ان مرغوں اور بانگڑووں کی مہربانیاں یاد آ جاتی ہینْ

آخر میں خیال آیا ہے کہ مرغی کے کانٹے کی وضاحت ہو ہی جانا چاہئے۔ یہ پرندوں کی دم کے پاس ایک ابھار سا ہوتا ہے جو، بعد کی اطلاعات کے مطابق، اڑنے والے پرندون کو توازن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے، گویا ایک رڈار ہوتا ہے یہ ۔ ہماری مرغیوں کو چونکہ اڑنے کی کوئی ایسی حاجت نہیں تھی اس لئے اس کانٹے کو کٹوا کر بھی خوش ہی نظر آتی تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).