ندا فاضلی: اردو ادب کا ایک درخشاں باب
مقتدا حسسن ندا فاضلی کی ولادت ایک کشمیری گھرانے میں 12اکتوبر 1938کو دہلی میں ہوئی، غالب و میر کی عظیم دھرتی پر جو دنیا بھر میں ہندوستان کے نام سے جانی جاتی ہے، یہی وہ سرزمین ہے جہاں اردو تہذیب نے جنم لیا اور اردو ادب میں کیا کیا یگانہ روزگار ہستیاں پیدا کیں، ہر ستارہ اپنے ساتھ ایک کہکشاں لیے ہوئے ہے۔ ندا فاضلی مرحوم ان چند ایک شعرا میں سے ایک تھے جن کی شاعری کی یوں تو بہت سی جہتیں ہیں لیکن جس طرح انہوں نے اپنی لازوال شاعری سے ہندی اور اردو کومربوط کیا یہ ان کی شاعری کا طرّہ امتیاز ہے۔ ندا فاضلی کی شاعری میں عھد حاضر کے تقاضوں کیساتھ ساتھ ایک عجیب سا صوفیانہ پن اور احساس مسیحائی پایا جاتا ہے کہ بے اختیار انسان اس کے سحر میں ڈوب جاتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ زخموں پر جیسے کوئی پیار سے مرہم رکھ رہا ہو۔
یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو
وہ بچپن کا ساون، وہ کاغذ کی کشتی
وہ بارش کا پانی
ہوش والوں کو خبر کیا
بے خودی کیا چیز ہے؟
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔
کہیں زمیں تو کہیں آسمان نہیں ملتا
جب تقسیم ہندوستان ہوئی، ندا اس وقت 9 سال کے تھے۔ ان کے والدین پاکستان آ گئے لیکن ندا ہندوستان میں ہی رہ گئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم اور بچپن گوالیار میں گزرا، بچپن میں والدین سے جدائی اور ملک ٹوٹنے کا دکھ ان کو ساری زندگی دامن گیر رہا۔ ان کی شاعری میں اس کی گہری چھاپ موجود ہے۔
ندا فاضلی کی شاعری میں دوہے کی تخلیقی روایت بہت نمایاں طور پر موجود ہے۔ اس حوالے سے آپ کو حضرت بابا فرید اور حضرت امیر خسرو کا وارث بھی کہا جاسکتا ہے، چند دوہے نذر قارئین ہیں۔
سیدھا سادہ ڈاکیہ جادو کرے مہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
ساتوں دن الله کے کیا منگل کیا پیر
جس دن سویا دیر تک بھوکا رہے فقیر
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
ندا فاضلی کو اگر عالم انسانیت کا شاعر کہا جاے تو غلط نہ ہوگا آپکی شاعری انسانوں سے محبّت کا درس دیتی ہے آپ کے نزدیک رنگ و نسل یا مذہب کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔
کوئی ہندو، کوئی مسلم، کوئی عیسائی ہے،
سب نے انسان نہ بننے کی قسم کھائی ہے
گرجا میں مندروں میں اذانوں میں بٹ گیا
ہوتے ہی صبح آدمی خانوں میں بٹ گیا
ندا فاضلی کے 6 مجموعہ ہاے کلام شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں لفظوں کے پھول ، مور ناچ ، آنکھوں اور خواب کے درمیان ، سفر میں دھوپ تو ہوگی ، کھویا ہوا سا کچھ ، دنیا ایک کھلونا ہے، اردو ادب کی اعلیٰ تخلیقی روایت کو آسمان سخن کی بلندیوں پر پہنچانے میں آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں آپ کو یوں تو بہت سارے عزازات سے نوازا گیا لیکن ان میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ 1998 اور پدم شری ایوارڈ 2013 قابل ذکر ہیں۔ اردو ادب کا یہ گوہر تابدار 8 فروری 2016 کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے ہم سے جدا ہو گیا۔ لیکن ندا فاضلی اپنے لازوال کلام سے ہمیشہ کے لیے ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
- خارجہ پالیسی کا شدید بحران - 16/10/2016
- ہم سب والوں کے نام غیرتجریدی خط - 09/08/2016
- خوفزدہ لوگ اور جشن آزادی ! - 08/08/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).