پاکستان اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارت کاری


اکتوبر 1998ء میں جدید ترکی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر اسرائیلی صدر ایزر وائزمین کی انقرہ میں پاکستانی ہم منصب رفیق تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ پاکستانی صدر نے وہاں کھڑے اسرائیلی صدر سے ہاتھ ملایا اور کچھ دیر گپ شپ کی۔ رفیق تارڑ کا کہنا تھا، ’’مجھے امید ہے کہ ایک دن ہم دوبارہ ضرور ملیں گے۔‘‘

جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایٹمی خدشات کے حوالے سے انہوں نے اسرائیل کو ہر لحاظ سے مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہی دنوں اسرائیل کو بالواسطہ طور پر پیغامات بجھوائے گئے کہ پاکستان اسرائیل اور بھارت کے مابین بڑھتے ہوئے تعاون پر بھی فکرمند ہے۔ اسرائیل نے جواب دیا کہ یہ تعاون کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں ہے اور بھارت کے ساتھ تعاون کی نوعیت بتانے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اس تعاون کی نوعیت جاننا چاہتا ہے تو اسے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر لینے چاہیئیں۔

جون 2003ء میں امریکا کے دورے سے پہلے اور بعد میں پرویز مشرف نے متعدد مرتبہ ان خیالات کا اظہار کیا کہ پاکستان کواسرائیل کے ساتھ روابط کے حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ سابق اسرائیلی سفیر ڈاکٹر موشے کے مطابق ایسے اشاروں سے پرویز مشرف نے امریکا میں فائدہ اٹھایا۔

یکم ستمبر 2005ء کو استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم اور ان کے ہم منصب خورشید قصوری کے مابین ملاقات ہوئی۔ شالوم اور وہاں موجود اسرائیلی صحافیوں نے اس ملاقات کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا۔ اسرائیل اس وقت غزہ سے بستیاں خالی کر رہا تھا اور اسے پاکستان کی طرف سے اسرائیل کے لیے ایک ’’گفٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد 17 ستمبر کو پرویز مشرف نے امریکی دورے کے دوران امریکن جیوش کانگریس کے ڈنر میں شرکت کا فیصلہ کیا، جہاں مشرف نے ’تاریخی‘ تقریر کی۔

اسکے بعد اسرائیل کے دوسرے بڑے اخبار معاريف (Maariv) نے یہ خبریں شائع کیں کہ بے نظیر بھٹو نے جنوری 2008ء کے انتخابات میں شرکت کے لیے پاکستان جانے سے پہلے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد، سی آئی اے اور سکاٹ لینڈ یارڈ سے اپنی حفاظت کے لیے مدد طلب کی ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سن 2007ء میں پیپلز پارٹی کی ہائی پروفائل لیڈر شپ نے نیویارک اور واشنگٹن کے دورے کے بعد تل ابیب کا دورہ کیا تھا لیکن ان خبروں کی آج تک تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ لیکن یہ خبریں مصدقہ ہیں کہ سات مئی 2006ء کو بے نظیر بھٹو کی جانب سے ایک اعلیٰ اسرائیلی شخصیت کی برتھ ڈے پارٹی کا اہتمام واشنگٹن کے ایک مہنگے ہوٹل میں کیا گیا تھا، جس میں واشنگٹن اور تل ابیب کی شخصیات نے شرکت کی تھی اور بے نظیر صاحبہ نے اس کا بل خود ادا کیا تھا۔

یروشلم پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کا کہنا تھا کہ امریکا سے واپسی پر بے نظیر بھٹو نے لندن میں مختصر قیام کیا تھا اور انہوں نے ایک باہمی واقف کار کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا تھا کہ وہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے مابین تعلقات مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈین گیلرمین نے اسرائیلی اخبار وائے نیٹ کو بتایا کہ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی کئی ملاقاتیں اسرائیلی صدر شیمون پریز سے ہوئیں تھیں اور انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل کا دورہ کریں گی۔

ماضی میں اسرائیل اور پاکستانی سیاستدانوں کے مابین سب سے زیادہ روابط نواز حکومت کے دوران ہوئے ہیں اور پاکستان میں اب بھی نواز حکومت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں ہونے والے رابطوں کی تفصیلات چند برسوں بعد منظر عام پر آئیں۔

May 6, 2017


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments