اللہ جل جلالہ، صانعِ حکیم لم یزل


وہ ہستی جسے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ جسے کوئی گمان نہ چھوسکا۔ تعریف کرنے والے اس کی تعریف سے عاجز رہے۔ نہ حادثات اسے بدل سکے۔ اسے زمانے کی بے ثباتی کا کوئی خوف نہیں۔ پہاڑوں کے وزن اور سمندر کی پیمائش کا علم اس کے پاس ہے۔ بارش کے قطروں اور درختوں کے پتوں کے عدد سے باخبر ہے۔ کس پر رات کی ظلمت اور دن کی روشنی ہے۔ سب جانتاہے۔ اس پر آسمان کی بلندی، زمین کی پستی، سمندر کی گہرائی اور پہاڑ کی چوٹی پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ ہرچیز کو اس کی تمام تفاصیل کے ساتھ جانتاہے۔

آپ آہستہ سے بولیں یا زور سے۔ وہ آ پ کے اندر چھپے تمام بھیدوں سے باخبر ہے۔ وہ تمہارے سانس کو نکلتے اور اترتے ہوئے دیکھتاہے۔ رگوں میں چلنے والے خون کی آواز سنتاہے۔ پتے کے ٹوٹنے اور زمین پر اس کے گرتے وقت آواز کو سنتاہے۔ زمین کے اندر اس کے نیچے چلنے والے کیڑوں کی آواز سنتاہے۔ سمندر کی تہہ میں چلنے والی مچھلی کی آواز سنتاہے۔ بحر وبر میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے۔ وہ اس کائنات کا بادشاہ ہے۔ ربّ ہے۔ پالنے والا ہے۔ اس کی آنکھ کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ سوتاہے۔

آئیے ہم چشم تصور سے ایک تصویر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کالی رات ہے۔ ایک کالا پہاڑ ہے۔ اس میں کالا پتھر ہے۔ دنیا کی ایک چھوٹی اور کمزور ترین مخلوق چیونٹی جس کی رنگت بھی کالی۔
اس کالی رات میں، کالے پہاڑ کے کالے پتھر پر یہ کالے رنگت کی چیونٹی چل رہی ہے۔ چیونٹی کے چلنے سے پتھر پر جو نشان پڑتے ہیں اسے عربی میں ”دبیب“ کہتے ہیں۔ وہ نشانات ہمارے حاشیہ خیال اور تصور میں بھی نہ آتے ہوں گے۔ اس لکیر کو اس کے تمام تفاصیل کے ساتھ عرش پر بیٹھ کر دیکھنے والے ہستی کا نام ”اللہ جل جلالہ“ ہے۔

آپ کبھی چیونٹی کو اٹھاکر اس کے پاؤں تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کو اس کے پیر ہی نظر نہیں آئیں گے۔ چہ جائیکہ ان پاؤں کے نشانات۔ دن کی روشنی میں اگر وہ نرم مٹی پر چلے تب بھی اس کے پاؤں کے نشانات نظر آنا محال۔ چہ جائیکہ رات کی ظلمتوں میں کالے پہاڑ کے سخت کالے چٹانوں پر اس کے پاؤں کے نشانات نظر آئیں۔ جبکہ وہ عظیم وبرتر ہستی عرش پر بیٹھ کر اس چھوٹی مخلوق کی ظلمات کے اندر پاؤں کے نشانات کو دیکھتاہے۔

ہم جس جگہ آباد ہیں اسے دنیا کہتے ہیں۔ یہ روز ہمارے مشاہدے سے گزرتاہے۔ یہاں ہمیں سب نظر آرہا ہوتاہے۔ یہاں ہم نے اپنے مشاہدات سے فوائد اور نقصانات کے پیمانے بنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ دنیا اس بحرِ ذخار کا صرف ایک قطرہ ہے جس کی وسعتوں نے چاروں سمت سے اسے گھیرا ہوا ہے۔ ہماری انا سے خارج ایک وسیع وعریض ایک کائنات آباد ہے۔ جس کا ایک خالق ہے، ایک مدبر ہے، اس کی عظمت وجلال کی نشانی یہ عظیم کائنات ہے۔ اس کائنات کے وجود کے تسلیم کرنے سے اس کے وجود کو تسلیم کرنا ایک عام فہم، سلیم الفطرت انسان کے لئے لازم ہوجاتاہے۔ اور کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ خدا کے وجود کا مسئلہ کوئی سائنسی یا فلسفی بحث ہے یہ محض ایک دینی مسئلہ ہے، کائنات کے بارے میں غور وخوض کے بعد ایک سلیم الفطرت انسان اس قاعدہ کو ماننے پر مجبور ہوجاتاہے کہ اتنی بڑی کائنات بغیر کسی خالق وموجود اور مدبر کے نہ بن سکتی تھی۔ نہ چل سکتی ہے۔ حادثات سے اتنے منظم نظام نہیں بناکرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کائنات ایک حد درجہ منظم واقعہ ہے یہ ہرگز کوئی بے ترتیب انبار نہیں ہے۔ یہ یقین واذغان کی اس سطح کا مسئلہ ہے جہاں تشکیک والحاد کی لہریں پہنچ ہی نہیں پاتی ہیں۔ جس ذہن میں سوچ اور سمجھ کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ کائناتی واقعات کے پیچھے کوئی برتر ذہن کام کررہاہے۔

سائنس جس پر یہ الزام لاداجاتاہے کہ اس نے انسان کو خدا کے متعلق تشکیک والحاد میں ڈالا، آئیے اس کے برتر ذہنوں کی نظریات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
البرٹ آئن سٹائن جسے بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتاہے۔ یہ جرمنی کے خوشحال یہودی النسل خاندان میں شمار ہوتاتھا۔ وہ ایک خالص سائنسی مزاج رکھنے والا شخص تھا۔ مگر اسے یہ اعتراف تھا کہ جو شخص کھلے ذہن سے کائنات کو دیکھے گا تو اسے اس کے اندر اس کا خدا نظرآئے گا۔ چنانچہ وہ کہتاہے کہ : ”کائنات خدا کی نشانی ہے۔ وہ مخلوق کی روپ میں خالق کی تصویر دکھاتی ہے۔ جو شخص کھلے ذہن کے ساتھ کائنات کو دیکھے گا و ہ اس کے اندر اس کے خدا کو پالے گا۔ البتہ جن کے ذہن میں ٹیڑھ پن ہو وہ عین روشنی میں بھی اندھیرے میں رہیں گے۔ خدا کے قریب کھڑے ہوکر بھی خدا کو نہ مانیں گے“۔

خدا کے وجود کا تو عموماً ہر سلیم الفطرت ذہن قائل ہوتاہے اور بحیثیت مسلمان یہ ہمارے ایمان کا جزو لا ینفک ہے جس میں ذرا بھی تردد کفر کی گہری کھائی میں پھینک دیتاہے۔
مگر آئیے ہم خود سے یہ سوال کریں کہ آیا ہمارا ایمان خدا کے وجود پر ایسا ہے جس کی وجہ سے اس کی خشیت سے ہمارے وجود میں ہلچل پیدا ہو یا ہماری روح سہم جاتی ہو، جب ہم اس کی نافرمانی کا تصور کرتے ہوں؟

عموماً ہم لوگ صانعِ حکیم لم یزل پر دو طرح سے ایمان لاتے ہیں :ایک خدا پر ہمارا مروجہ عام عقیدہ۔ یعنی ہم ایک خیال کی حد تک معاشرے میں سنتے سناتے اس کی وجود کے عقیدے کو لے کر اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس عقیدے سے آپ کی رگوں میں بجلی نہیں دوڑتی نہ یہ عقیدہ آپ کی روح کو تڑپاتاہے۔ یہ آپ کے اندر کوئی ہلچل پیدا نہیں کرتا۔ اس میں آپ خدا کو صرف مانتے ہیں، اس سے کما حقہ ڈرتے نہیں ہیں۔ اسے آپ بے جان عقیدے سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

اور ایک دوسرا عقیدہ ہے جو اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس عقیدے سے جو شخص خدا کومانتاہے وہ دوسروں سے مختلف ہوتاہے۔ اس عقیدے سے سارے وجو د میں ایک بھونچال سا آجاتاہے۔ خدا تعالی کے خوف اور اس کی خشیت سے روح سہم جاتی ہے۔ اس عقیدے کو خشیت اللہ لازم ہے۔ یقین جانئے کہ جس مقام پر خدا کا خوف دل سے ذرا لمحے کے لئے بھی الگ ہو وہ حقیقی عقیدہ نہیں ہوسکتا۔
جب کسی کو خدا تعالی کی ذات کا حقیقی ادراک ہو تو وہ حسی طور پر نہ سہی مگر تصوراتی طورپر جیسے خدا کو دیکھ رہا ہوتاہے۔ مسند احمد میں 5414 حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں اس واقعے کا بیان ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالی کی عظمت کو بیان فرمارہے تھے۔ اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ کا جسم ہل رہا تھا۔ اور دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ آپ زمین پر گر پڑیں گے۔
اسے خدا کی معرفت اور خشیت کہتے ہیں۔ یہ معرفت انسان کے اندر ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ یہ کیفیت خدا کو دیکھے بغیر دیکھ لیناہے۔

انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں : ایک فطری اور طبیعی جن سے انحراف کا نتیجہ فوراً نظر آتاہے اور آنکھ اس کا نظارہ کررہی ہوتی ہے۔ آگ میں جلانے کی صلاحیت ہے تو انسان کبھی خود کو اس آگ میں ڈالنے کی غلطی نہیں کرتا۔ اسے نظر آرہا ہوتاہے کہ اس کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ انسان فطرتی امور میں باقی مخلوقات کی طرح خدا کا مکمل مطیع ہے اور کبھی ان سے جھگڑنے کی کوشش نہیں کرتا، کیونکہ اسے ظاہری آنکھ سے اس کے تمام نتائج نظر آرہے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرا پہلو اخلاقی ہوتاہے۔ جس میں اس کی جرأت اور بہادری دیدنی ہوتی ہے۔ وہ خدا سے بغاوت کرتاہے۔ اس کے احکامات کو چھوڑ کر اپنی راہ پر چلتاہے۔ اور اپنی محدود آزادی اور محدود طاقت کے بل بوتے پر خدا اور اس کے بنائے ہوئے نظام کے خلاف کھڑا ہوجاتاہے۔ اور جس وقت وہ بغاوت اور طغیانی پر ہوتاہے اسے یہ علم رہتاہے اور مشاہدہ عام ہے کہ کسی بھی وقت اس کی یہ محدود مدت اور طاقت سلب ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے طویل عرصہ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک لمحہ ہوتاہے۔ جہاں صرف پردہ ہٹنے کی دیر ہوتی ہے۔ پردہ کے پیچھے سب کچھ نظر آرہا ہوتاہے۔

اس لئے اس کی مہلت سے فائدہ اٹھائیے۔ پردہ اٹھنے کا انتظا ر نہ کیجئے۔ اس بھیانک نتائج کے آپ متحمل نہیں ہوسکتے۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھئے۔ آپ سے بڑے بڑے طاقتور اس پردہ ہٹنے کے بعد بچوں کی طرح بلبلا کر روتے رہے مگر اس وقت خون کے آنسو بھی کام نہیں آتے۔ آج جھوٹا موٹا رولیجیے۔ وہ خوشی خوشی قبول کرلے گا۔

انسان سے آزادنہ خدا پرستی مطلوب ہے نہ کہ مجبوراً۔ یہی وصف اسے فرشتوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی اطاعت میں جھکتاہے اور اسے جھکنا چاہیے۔ اور اس کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ وہ اس کے راحت کے لمحات ہیں۔ اور عبادت اس کی وہی قبول ہے جو اس نے اپنی راحت کے وقت میں کیے۔ لیکن اگر خدانخواستہ راحت کے اوقات میں اسے بھلائے رکھا اور جب مصیبت سامنے نظر آگئی یا پردہ اٹھ گیا تو پھر کوئی توبہ کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس وقت کی دوڑ کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، نہ کسی گڑگڑاہٹ کا۔ اس وقت یہی کہہ کر مردود کیا جائے گا کہ ”الآن“ اب تمہیں یاد آیا؟

اس لئے اللہ تعالی کی طرف سے عطاکردہ آزادی سے فائدہ اٹھائیے۔ قادرِ مطلق نے انسان کو حریت اختیار دے کر اس کے سامنے راستے اور ان کے منازل واضح طورپر متعین کردی ہیں۔ یہ راستہ جنت کو جاتاہے اور یہ جہنم کو۔ آپ کو مکمل آزادی ہے جو چاہے اختیار کرو۔ جو چاہے بولو، پھر انسان کا یہ حال ہے کہ اگر ذرا سا مال ہاتھ لگا تو اسے اپنا مستقبل محفوظ نظر آتاہے۔ اقتدار ملا تو اسے ایسے استعمال کرنے لگتاہے جیسے یہ ابد تک اسی کے پاس رہنے والی چیز ہے اور گویا اس کی تخلیق ہی اسی غرض کے لئے ہوئی ہے۔ مگر وہ لمحہ بہت جلد آجاتاہے جب اس کی غلط فہمیوں کی عمارت اس کے سرپر دھڑام کرکے گرجاتی ہے۔ اس وقت اسے پتہ چلتاہے کہ یہ سب تو میرے تصورات اور خیالات کے برعکس نکلا۔ پھر اسے یہ احساس ہونے لگتاہے کہ حقیقت میں یہ سب کچھ دھوکہ اور فریب ہے۔ وہ خود کو صاحب ثروت، طاقت اور عزت سمجھتا رہا اسے یقین آجاتاہے کہ وہ ان تمام اوصاف سے تہی دامن ہے۔ جس طاقت پر اسے ناز تھا وہ تو خدا کی اس دنیا میں مکھی اور مچھر سے بھی کم طاقت کا مالک تھا۔

یہ ساری کائنات اس کے بتائے ہوئے نقشے کی انتہائی پابندی سے حرکت کرتی ہے۔ انسان کے علاوہ ہر مخلوق ازل سے اپنے لئے وضع کردہ احکامات پر زندگی گذارتاہے۔ صرف انسان کو یہ اختیار ایک محدود مدت کے لئے حاصل ہے کہ وہ جو راستے چاہے منتخب کرے۔ چاہے تو رازق کی بتائے ہوئے طریقے پر رزق حاصل کرے جو اس کے لئے مقرر کی گئی ہے اور چاہے تو اس مقسومہ رزق کو حرام طریقے سے کمائے۔ چاہے خدا کی کائنات کا یہ بہت ہی چھوٹا حصہ اس کے احکامات کے مطابق زندگی گذارے اور چاہے اس سے بغاوت کرے اور اس کی زمین کا نظام خراب کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اسے یاد رہے کہ یہ تمام اختیارات محدود مدت کے لئے ہیں۔ اس کے بعد خداکی مرضی اس پر اسی طرح پوری ہوگی جس طرح وہ بقیہ مخلوقات پر پوری ہورہی ہے، جہاں کوئی پتہ اس کی اجازت اور علم کے بغیر نہیں گرسکتا۔

مؤمن اور غیر مؤمن کا فرق یہ ہے کہ غیر مؤمن کی نظر مخلوقات میں اٹک کر رہجاتی ہے اور مؤمن مخلوقات سے گزرکر خالق تک پہنچتاہے۔ غیر مؤمن مخلوقات کے حسن کو انہی کا سمجھ کر اسی میں محو رہتاہے۔ جبکہ مؤمن مخلوقات کے حسن میں خالق کا حسن دیکھتاہے۔ غیر
مؤمن کا سجدہ چیزوں کے لئے اور مؤمن کا سجدہ چیزوں کے خالق کے لئے ہوتاہے۔

اگر ایمان یہ ہو کہ اللہ تمام طاقتوں سے بڑا طاقتور ہے۔ تمام فیصلوں کا سرا اس کے ہاتھ میں ہے۔ اس ایمان کے ساتھ جو اللہ کو مانتاہے تو وہ ہمیشہ خدا سے ڈرا رہتاہے۔ اس کی زندگی اندیشوں میں گزرتی ہے۔ ہمیشہ خود کو بچانے کے جذبے سے مصروف عمل رہتاہے۔ لوگوں سے معاملہ میں ظلم سے ڈرتاہے۔ ایسا شخص ہمیشہ خود احتسابی کے مراحل میں خود کو رکھتاہے۔ پھر وہ چاہے جتنا عظیم ہو، چاہے اسے جنت کی یقینی بشارت بھی مل چکی ہو مگر وہ خود احتسابی اور خشیت اللہ کے اس مقام پر ہوتاہے کہ اس کا باطن اللہ کی خشیت سے دہل جاتاہے۔ ہمیشہ خود کو اندیشوں میں پاتاہے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتاہے اور لوگوں کی ضروریات کا خیال کرتاہے۔ 22 لاکھ مربع میل پر حکمران حضرت عمر کو فرات کے کنارے جانوروں کی موت کا خیال بھی ستاتاتھا۔ فرماتے کہ ”اگر ایک کتا بھی مجھ سے بہت دور فرات کے کنارے مرگیا اور ا س کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ “

یہ ایمان کی حلاوت اور اس کا اثر ہوتاہے جو حاضر میں آپ کو غائب دکھاتاہے۔ جو کچھ سامنے ہے اس میں چھپی ہوئی کو دیکھنا ایمان ہے۔ جسے یہ کیفیت حاصل ہو وہ اپنی چاروں طرف خدا کی بڑائی کو محسو س کرتاہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنالیتاہے۔ وہ اس بڑائی میں اس طرح گم ہوجاتاہے کہ پھر اسے اپنی بڑائی نظر نہیں آتی ہے نہ کسی اور کی۔

اللہ کے احکام ماننے کے جذبے کے ساتھ زندھ رہیں۔ ہماری نماز، قربانی، جینا، مرنا، جان ومال اور زندگی۔ سب کچھ اس کے لئے ہو۔ اس ہستی کے لئے ہو جو ہمیشہ ہم پر رحیم وکریم ہے۔ ہمارے گناہوں کے بدلے میں اس کا رحم بڑھتاہے۔ ہماری سرکشی کے مقابلے میں اس کی چشم پوشی بڑھتی ہے۔ ہم بے حیا بن جاتے ہیں اور وہ ہمارا پردہ کیے رہتاہے۔

رزاق اپنی ساری مخلوقات کو رزق دیتاہے۔ اس میں وہ تھکتا نہیں ہے۔ ہر انسان کو کھلاتاہے چاہے وہ اس کا دوست ہو یا دشمن۔ بل میں سوئے ہوئے سانپ کو کھلاتاہے۔ جھپٹتے ہوئے عقاب کو نہیں بھولتا۔ شیر کو کھلایا۔ چیتے کو نہیں بھولا۔ پروانوں کو کھلاتاہے۔ مچھر کو کھلاتاہے۔ پتنگے کو کھلاتاہے۔ سمندر کی مچھلیوں کو کھلاتاہے۔ کائنات کے ہر ذرے کو وہ پالتاہے۔
اس لئے انسان کو ہمیشہ یہ چیز اپنے مطمح نظر رکھنی چاہیے کہ کائنات میں اس کی خلقت کی وجہ کیا ہے؟ اور اسے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

یاد رکھیں کہ اللہ کی اس عظیم کائنات جس کا ہم ایک بہت ہی چھوٹا قطرہ ہیں، اس نے ہمیں ایک ہی مقصد کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور وہ ہے عبادت، عبادت اور صرف عبادت۔ اس کے علاوہ کوئی مقصدِ حیات نہیں، بے شک وسائل وذرائع ہوں۔

اللہ کے خزانوں میں کسی کمی کو پورا کرنے کے لئے انسان کو پیدا نہیں کیا گیا اور نہ اس ہستی نے اپنی وحشت کم کرنے کے لئے اپنی دل لگی کے لئے اسے پیدا کیا ہے۔ نہ اس ذو الجلال کا کوئی کام اٹک گیا تھا جس کی وجہ سے انسان کی خلقت ضروری تھی۔ انسانی خلقت کا واحد مقصد صرف عبادت ہے۔ انسان سے اس خدائے سبو ح وقدوس کی صرف عبادت مطلوب ہے۔

اس لئے صبح وشام اسے یاد کرو۔ یہی انسانیت کی معراج اور امتیاز ہے۔ اور جو اللہ کا ہوجاتاہے تو ساری دنیا اس کی غلام ہوجاتی ہے۔ اللہ اس کا دوست بن جاتاہے۔ پھر اس انسان کے دشمن اللہ کے دشمن بن جاتے ہیں۔ اس کے دوست اللہ کے دوست ہوجاتے ہیں۔ جس نے اللہ کے دوست کو تکلیف پہنچائی، وہ قادرِ مطلق اس سے اعلان جنگ کرلیتاہے۔

اللہ کا ہوکر تو دیکھئے۔ اللہ کی ذات کو مقصد بناکر زندگی گذارکر تو دیکھئے۔ اللہ کے لئے مرنا، اس پر مر مٹنا سیکھیں۔ اس کے لئے جینا سیکھیں۔ خوشی بھی وہی ہو جو اسے پسند ہو۔ غم میں بھی اس کا لحاظ۔ اظہار بھی وہ جو اسے پسند ہے اور اخفا بھی وہ جو اسے پسند ہو۔ ہردم اور ہر لمحہ اس کی رضا مطلوب ومقصود ہو۔

جب ہم کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کا مقصد بندگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ کی صحیح معرفت حاصل کی جائے۔ اس کے احکام کے عین مطابق زندگی گذاری جائے۔ آخرت کے لئے کوشش ہو۔ اللہ تعالی کو راضی کیاجائے۔ اس کے رسول کے طریقے پر چل کر اللہ کی رضا حاصل کی جائے۔ یہ اصل مقصد اور انسانی خلقت کا واحد مقصد ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام چیزیں وسائل اور ذرائع ہیں۔

اس لئے اس ربّ العالمین اور مالک وخالق کو جانئے۔ اس صانعِ حکیم لم یزل کا تذکرہ کیجئے۔ کوئی ہم سے ہمارے بچے کا تذکرہ چھیڑدے تو ہم گھنٹوں اس پر بولتے رہیں گے۔ کسی خاندانی بزرگ کا تذکرہ شروع ہو تو ہم ذہن کرید کرید کر معلومات نکال لاتے ہیں۔ کسی قومی ہیرو کا تذکرہ ہو تو ہم میں سے ہر ایک بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنے لگتاہے۔ مگر انہیں لوگوں سے خدا کا تذکرہ کیجئے تو زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں۔ دو لفظ اگر زبان سے نکل بھی جائیں تو جذبات واحساسات ساتھ نہیں ہوتے۔ اس کے تذکرہ سے دل میں کوئی جوش پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس خدا کے بارے میں محدود رسمی معلومات سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ آئیں خود سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعتاً خدا کی عظمت کو دل سے تسلیم کرتے ہیں؟ کیا کائنات میں ہر موجود ہمیں خدا کے وجود کا علم نہیں دیتا؟ ہر چیز خدا کی حسنِ تدبیر کا چیخ چیخ کر اعلان نہیں کررہاہوتاہے؟ ہم کوتاہ نظر کائنات سے کچھ نہیں سمجھتے تو کیا ہمارا اپنا وجود ہمیں اس کے ہونے کی خبر نہیں دیتا؟

جب انسان اللہ کو اس کی عظمتوں اور قدرتوں کے ساتھ پاتاہے تو اس کے اندر روحانی اضطراب پیدا ہوتاہے۔ اس کے بعد اسے ہر وقت اللہ کی یاد آتی رہتی ہے۔ یہ یاد کبھی دل میں تڑپ کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی زبان میں حمد وشکر اور خشیت کے الفاظ کی صورت میں بے ساختہ نکل پڑتی ہیں۔ اس کیفیت کو ذکر اللہ اور اللہ کی یاد کہتے ہیں۔ انسان کو اس کے اردگرد اللہ کی تمام مخلوقات اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ اس کے اندر اللہ کی یاد کو جگائے رکھتی ہیں۔

دل کی دنیا کو اللہ کی یاد سے آباد کریں۔ جس دل میں اللہ ہوتاہے، کائنات کی ہر چیز اس کے سامنے چھوٹی ہوجاتی ہے۔ اللہ کے نام سے اس کائنات کا حسن ہے۔ دل اس کے نام سے منور ہوتے ہیں۔ یقین مانئے کہ دل کی شمع کو اللہ کے سوا کوئی جلوہ، نظارہ، کائنات کی کوئی دولت روشن نہیں کرسکتی۔ اور وہ ایسی ذات ہے جو ہمیشہ آپ کے بلانے کے لئے تیار بیٹھاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).