فیض کا فلسفہ رواداری اور دہشت گردی


\"Dr_Noureen\"فیض کو ہم سے بچھڑے تین دہائیاں ہونے کو آئی ہیں۔ جس طرح کے حالات میں فیض نے وفات پائی وہ ا ٓج کل سے زیادہ مختلف نہیں تھے کہ تب بھی پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کا سامنا تھا اور آج بھی صورتحال تقریباً ویسی کی ویسی ہے۔ تب بھی مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت انتہا کو چھو رہی تھی اور آج بھی یہ اپنے ناپسندیدہ ترین رنگ دکھا رہی ہے۔

گذرے برسوں میں فیض لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مقیم تھے جہاں فلسطینیوں کی سرپرستی میں شائع ہونے والے ا فروایشیائی مجلّے لوٹس کی اِدارت کے فرائض ان کے ذمہ تھے ۔ اس رسالے کا مقصد افریقہ اور ایشیا کے نوآزاد عوام میں استعمار کے خلاف یکجہتی پیدا کرنا تھا ۔ عین ان دنوں ہی وہاں لبنان کی تاریخ کی سب سے طویل خانہ جنگی جاری تھی۔ فیض پاکستان، افغانستان اور فلسطین کے عوام کو درپیش سماجی حالات سے بہت ناخوش تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ان کے ان آدرشوں کی پامالی کے مترادف ہے جن کے لئے انہوں نے عمر بھر جستجو کی، جو ان کی پہچان بنے، جنہیں ان کے قافلے نے مقبول بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور جن کے بارے میں اُن کو معقول طور پر توقع تھی کہ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ نہ صرف انہیں رُو بہ عمل ہوتا ہوا دیکھیں گے بلکہ انہیں غالب ہوتا ہوا بھی پائیں گے۔

فیض آج زندہ ہوتے تو فلسطین اور غزہ کی پٹّی میں انسانی حقوق کی پامالی، دجلہ و فرات میں بہتا خون اور وادی سینا کے حالات دیکھ کر شاید اور بھی دل برداشتہ ہوتے:
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا

اسّی کی دہائی کا وہ دور پاکستان کی تاریخ کا ایسا دور تھا جب بنیادی ڈھانچے میں شامل آئین ، قوانین، عدلیہ حتٰی کہ ثقافت اور رسم و رواج کو بھی ریاست اسلامیا نے میں لگی ہوئی تھی۔ ایسا وہ اس لئے بھی کرنے پر آمادہ ہو رہی تھی کیونکہ امریکہ کی سرپرستی میں جاری افغان جہاد کی پشت پناہی کے لئے اسے نظریاتی رسد بھی فراہم کرنا تھی اور ایران میں برپا اسلامی انقلاب کے متوازی ایک ماڈل بھی پیش کرنا تھا۔

افغان جہاد کے پہلے مرحلے کے خاتمے پر، اسّی کی دہائی کے آخر میں، افغان جہاد سے فارغ عربی جہادی خود کو مصروف رکھنے کے لئے القاعدہ کا قیام عمل میں لائے۔ انہیں افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد افغان ریاست کو ہانکنے اور افغان سرزمین پر اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے خوب کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سرمایہ دار دنیا کی نظر وسطی ایشیا کے توانائی کے ذخائر پر تھی۔ ایسے میں ترکمانستان سے براستہ پاکستان، بھارت تک گیس پائپ لائن جسے تاپی TAPI کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا جس کی بازگشت آج بھی سنی جاتی ہے۔ اربوں ڈالر کے اس منصوبے کو حاصل کرنے کے لئے تیل کمپنیوں کے دو نامور عالمی کنسورشیم میدان میں اترے۔ ان میں ارجنٹائن کی کمپنی بریداس BRIDAS اس منصوبے کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی جب کہ امریکہ کی کمپنی یونیکَیل UNICAL بعد میں شامل ہونے کی بنا پر افغان طالبان اور القاعدہ کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ امریکہ کے دبائو میں ترکمانستان اور پاکستان تو ۔۔ارجنٹائنی کمپنی کے ساتھ معاہدے سے منحرف ہو گئے جب کہ القاعدہ والے ڈٹے رہے اور امریکی کمپنی اور حکومت کے دبائو کا سامنا کرتے رہے۔ اسی کاروباری رنجش نے گرم تنازعے کا ایسا رخ اختیار کیا کہ بات نو گیارہ تک جاپہنچی اور پھر ہمارا خطہ امریکی اور یوروپی یلغار اور اس کی جوابی دہشت گردی کی زد میں ایسا آیا کہ ابھی تک سنبھل نہیں پایا۔القاعدہ اور ان کے حواری طالبان ایک طرف ڈٹے ہوئے ہیں اور امریکہ اور مغرب دوسری طرف تنے ہوئے ہیں ۔۔ ان کے مابین جس تنازعے کو آج نظریاتی رنگ دیا جا رہا ہے اس کا آغاز دراصل تجارتی مفادات کے ٹکرائو کی ایک جنگ سے ہوا تھا۔

نئی صدی کے آغاز پر نام نہاد افغان جہاد نے نئی بلندیوں کو چھوا اور اس کے اثرات پاکستان کے ہر کوہ و دمن اور گلشن و چمن تک پھیل گئے۔ مذہبی تنگ نظری نے بنیادپرستی اور انتہاپسندی کی صورت اختیار کر لی۔ دہشت گردوں کی چیرہ دستیوں نے پاکستانی سماج کے ریشہ و ساخت کو ہلا کے رکھ دیا جس سے سماجی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ رواداری کو شدید نقصان پہنچا۔ پشاور سانحے کے بعد ہر طرف پکار ہے کہ یہ لوگ کون ہیں، ہم سے الگ ہیں یا ہماری صفوں میں شامل ہیں،ان کی سوچ کیا ہے، کیا یہ مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں یا ان کا شمار انسانوں میں بھی نہیں کیا جا سکتا؟

سچ تو یہ ہے کہ القاعدہ اور اس سے متاثر طالبان کی تمام ذیلی تنظیموں کا خمیرایک باقاعدہ ایک ایسی فکر کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا جو تاریخی جڑیں رکھتی ہے اور جس سے ان کے عمل کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ ان کی فکری بنیاد وںکو کچھ سلفی، تکفیری، کچھ وہابی، قطبی اور کچھ دیوبندی نظریات کے امتزاج سے تقویت اور جِلا ملی ہے۔ سلفی ہر فکری و ثقافتی جدت کو بدعت سے تعبیر کرتے ہیں اور منطق و دلیل سے پرہیز کرتے ہیں۔ بغداد پر منگولوں کی یلغار کے رد عمل میں مجہول مسلمانوں پر کی گئی تنقید کے نتیجے میں ابن تیمیہ کی تاریخی تکفیری لہر ہر اس ذہن کو متاثر کر رہی ہے جو بات بات پر ایک دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خارج کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور اپنے سے الگ دوسرے کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ وحشیانہ طریقے سے ہاتھ آّئے قیدیوں کے گلے کاٹنے اور معصوم لوگوں کو دھماکے سے اڑانے کو جنت کی کنجی سمجھتے ہیں۔ اقلیتوں کو دبانے اور کچلنے میں یہ سب سے آگے آگے ہیں۔ وہابیوں نے انیسویں صدی میں جزیرہ نما عرب اور قطبیوں نے بیسویں صدی میں مصریوں اور فلسطینیوں کے جذبہ احیائے اسلام کو متاثر کیا اور اس کے اثرات افغان جہاد کے دوران ہمارے خطے میں بھی پہنچے۔ بنیاد پرست دیوبندی مکتب نے ان سب انتہا پسند نظریات کو پنپنے میں اور جارحانہ جہاد کے نام پر دہشت گردی کو پھیلانے میں اہم کردار اادا کیا۔ مار دھاڑ اور تباہی و بربادی کا یہ عمل ہماری تہذیب کے جدید اور ترقی پسند تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف انہیں عسکری محاذ پر شکست ہو بلکہ سماج کی ہر سطح پر پھیلائے ہوئے ان کے مسموم پراپیگنڈا کو بھی زائل کیا جائے۔

اس سے قبل پچاس کی دہائی میں بھی جب ایران میں سماجی و سیاسی ابھار پیدا ہوا جسے بالآخر سی آئی اے کی سازش سے ناکام بنایا گیا تو تب بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملی تھی۔ ایسے میں جب فیض …. پہلے پاکستان ٹائمز اور پھر لیل و نہار کی اِدارت سے وابستہ تھے…. ان کے اِداریے، سماجی عدم برداشت کو انگیخت کرنے والی قوتوں کی منافقت کو آشکار کرنے اور عوام کو ان رجحانات سے بچنے کی تلقین کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتے رہے۔ اِن اِداریوں میں انہوں نے ان سماجی پیچیدگیوں سے متعلق تنبیہہ کی جو عدم برداشت کے رجحانات کو پنپنے دینے سے پیدا ہو سکتی ہیں اور واقعتا ً جن کا آج ہمارے سماج کو سامنا ہے۔ سماجی و فرقہ وارانہ تعصبات مخالف ۔اور۔یگانگت و انسانی حقوق دوستی ۔۔ پر مبنی فیض کے اِنہی آدرشوں نے اُن کے پیغام کو آفاقی صورت بہم پہنچائی۔

برداشت اور رواداری …. کسی بھی معاشرے کی صحت مند نمو کے لئے ضروری اقدار ہیں۔ مکالمہ اور دلیل ۔۔سچائی کو سامنے لانے اور منوانے کے لئے ضروری ہیں۔ عظیم تہذیبوں نے فکرودانش کی رفعتوں کے زور پر اپنا عروج دیکھا اور ان کے ضُعف سے اپنا زوال پایا۔ ایسے ماحول میں سوچنے سمجھنے اور تخلیق کرنے والے بھلا کیسے زندہ رہ سکتے ہیں جس میں نہ صرف کسی کو نظر چرا کے چلنا پڑے بلکہ جسم و جاں بچا کے بھی چلنا پڑے؟ فیض مسلسل انتہائی نامساعد حالات میں بھی دوسروں کو امید کی نوید دلاتے رہتے:
آتے آتے یونہی دم بھر کو رُکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

فیض کے عزائم کے آگے کوئی کوہِ گرِاں حائل نہ ہو سکا۔ انہوں نے قربانیاں دینا منظور کیا ۔۔ پَر اپنے وطن کو برباد ہوتا ہوا نہ دیکھ پائے:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

قوموں کی زندگی میں دلیل و منطق کی اپنی جگہ لیکن تجربہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ دہشت گردی سے نبّرد آزما ہونے کے لئے جو بھی ۔۔ جتنا بھی ۔۔اتفاق رائے آج ہمیں میسر ہے وہ ایک دہائی قبل نہ تھا۔ اسی لئے فیض گویا ہوئے:
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فیض کے قافلے نے بھی ان کی طرح سچ بات کہنے اور رواداری کو فروغ دینے پر کبھی سمجھوتہ نہ کیا :

متاعِ لوح و قلم چھِن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا ۔۔ کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہِ زنجیر میں زباں میں نے

(ڈاکٹر نگہت نورین ایف سی سی یونیورسٹی لاہورکے شعبہ سیاسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments