پاک چین اقتصادی راہداری میں رازداری اور شبہات


 بیجنگ میں منعقد ہونے والا ون روڈ ون بیلٹ فورم کا دو روزہ اجلاس اختتام پذیر ہوا ہے۔ اگرچہ اس موقع پر کی جانے والی تقریروں اور مباحث کی حیثیت رسمی تھی کیونکہ 2013 سے شروع کئے گئے اس نظریہ پر چین کی طرف سے متعدد ملکوں میں کام کا آغاز کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں معلومات بھی فراہم کی گئی ہیں۔ تاہم چین کی دعوت پر 130 ملکوں اور 70 بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کا بیجنگ میں اجتماع چین اور اس اقتصادی منصوبہ کی شاندار کامیابی کی خبر دیتا ہے۔ چین کے صدر ژی جن پنگ نے اجلاس کے اختتامی خطاب میں اس کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ چین سب ملکوں کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر اور معاشی نمو کےلئے تعاون اور سہولتیں فراہم کرنے کا خواہشمند ہے۔ ہم کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے خواہشمند نہیں ہیں اور نہ ہی ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ کوئی توسیع پسندانہ استحصالی منصوبہ ہے۔ بلکہ اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ دنیا کے ملک مل جل کر معاشی ترقی اور عوام کی غربت دور کرنے کےلئے زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ ون روڈ ون بیلٹ کا منصوبہ اس حوالہ سے امکانات فراہم کرے گا جس میں ہر ملک اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق کردار ادا کر سکتا ہے۔ صدر جن پنگ نے کہا کہ یہ منصوبہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس لئے سب ملکوں کو اس عالمی کاوش کا حصہ بننا چاہئے۔

ون روڈ ون بیلٹ فورم کے دوران 68 ملکوں اور تنظیموں نے تعاون میں فروغ کےلئے معاہدوں پر دستخط کئے۔ صدر ژی جن پنگ نے شرکا کو بتایا کہ 16-2014 کے دوران اس منصوبہ اور تعاون میں شامل ملکوں کے درمیان کا تجارت کا حجم 3 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور چین نے مختلف ملکوں میں 50 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد مختلف معیشتوں کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق اپنی پیداواری صلاحیتیں بڑھانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ دنیا کے بیشتر ماہرین اس چینی منصوبہ سے پیدا ہونے والے معاشی امکانات پر متفق ہیں لیکن بعض ممالک اس کے نتیجے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ، تجارت میں بالا دستی اور رکن ملکوں کی معیشت پر تسلط کے بارے میں متنبہ بھی کر رہے ہیں۔ چینی لیڈروں نے فورم میں اس حوالے سے تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کی اور منصوبہ کو آگے بڑھانے کےلئے مختلف شعبوں میں 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ چین نے مختلف ملکوں میں ترقیاتی کاموں کےلئے وسائل فراہم کرنے کےلئے چینی سلک فنڈ قائم کیا ہے۔ اس حوالے سے بھی یہ اندیشہ موجود ہے کہ بعض ایسے ملکوں میں سرمایہ کاری کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا جو قرضے ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اگرچہ چین کا خیال ہے کہ سرمایہ کی فراہمی اور چینی ماہرانہ اعانت کے ذریعے ان معیشتوں کو ترقی کرنے میں مدد ملے گی اور ان کےلئے قرض ادا کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ لیکن بعض غیر جانبدار تبصرہ نگار اسے ان معیشتوں میں چین کی بالا دستی اور مداخلت کے مماثل قرار دے رہے ہیں۔

چین کے اس معاشی تصور میں پاک چین معاہدہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سی پیک منصوبہ کے تحت مواصلاتی منصوبوں کی تکمیل اور صنعتی یونٹوں کی تعمیر کےلئے چین 50 ارب ڈالر فراہم کرے گا۔ پاکستان میں اس منصوبہ سے بے شمار امیدیں وابستہ کی گئی ہیں کیونکہ پاکستان جیسی سست رو معیشت میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بے حد اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لئے حکومت بھی سی پیک کی تکمیل کے حوالے سے پرجوش ہے اور فوج بھی تہہ دل سے اس منصوبہ کو مکمل کرنے کےلئے تعاون فراہم کر رہی ہے۔ اس دوران روزنامہ ڈان نے سی پیک منصوبہ کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ صرف گوادر سے کاشغر تک شاہراہ اور ریلوے کی تعمیر اور بجلی گھروں اور صنعتوں کے قیام تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے تحت ایک طرف چینی کمپنیاں پاکستان میں وسیع زرعی زمینوں تک دسترس حاصل کرکے زرعی پیداوار کسی روک ٹوک کے بغیر چین برآمد کریں گی۔ اس کے علاوہ ملک میں الیکٹرانک نگرانی اور کنٹرول کا نظام بھی استوار کیا جائے گا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ایک ٹویٹ پیغام میں اسے ڈان لیکس 2 سے تشبیہ دیتے ہوئے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ لیکن وہ یا حکومت کے کسی دوسرے نمائندے نے اس بارے میں اٹھائے جانے والے سوالات یا فراہم کی جانے والی معلومات کے بارے میں پریس کانفرنس یا کسی دوسرے ذریعے سے جواب دینے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اسی رازداری کے رویہ کی وجہ سے شبہات کو تقویت ملتی ہے اور سی پیک جیسے کارآمد منصوبہ کے بارے میں ملک میں اختلاف رائے بڑھنے کا امکان بھی موجود ہے۔

وفاقی حکومت سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے تمام منصوبوں کی مکمل ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے حالانکہ یہ منصوبے ملک کے چاروں صوبوں میں قائم ہوں گے اور اس طرح صوبائی حکومتوں کو ایسے تمام معاہدوں ، سرمایہ کاری کے طریقہ کار ، اس کی شرائط اور دیگر امور کے بارے میں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نواز شریف پہلی بار چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ون روڈ ون بیلٹ فورم کے اجلاس میں شرکت کےلئے اپنے ہمراہ بیجنگ لے کر گئے تھے۔ اس سے پہلے سارے معاملات وفاقی حکومت کے ذریعے طے ہوتے رہے ہیں یا ان میں پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف شریک ہوتے ہیں۔ فورم کا اجلاس بھی رسمی نوعیت کا تھا اور اس کا مقصد دنیا کو چین کی سفارتی اور اقتصادی قوت سے مرعوب کرنا تھا۔ وزیراعظم اور وفاقی حکومت کو صوبائی حکومتوں کے علاوہ ملک کے صنعتکاروں اور دیگر اہم مالیاتی اداروں کو بھی اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اس طرح منصوبہ کے سلسلہ میں آنے والے وسائل اور اس کے تحت مکمل ہونے والے مختلف پروجیکٹس کے بارے میں شبہات پیدا نہیں ہوں گے۔ ورنہ بدعنوانی سے لے کر پنجاب نوازی تک کے الزامات سامنے آنے لگیں گے اور اس طرح اہم اور قابل قدر منصوبہ کے بارے میں دوریاں اور فاصلے پیدا ہوتے رہیں گے۔

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ وفاقی حکومت سی پیک کے تحت طے پانے والے معاہدوں کی ساری تفصیلات کیوں عوام کے سامنے لانے اور اس طرح سرخرو ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔ اس کا ایک مقصد تو آئندہ انتخابی مہم کے دوران اس منصوبہ کی کامیابی کا سارا کریڈٹ خود وصول کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو سمجھنا چاہئے کہ سی پیک ایک بڑا منصوبہ ہے جو صرف ایک خاص دورانیہ اور ایک حکومت کے دور میں مکمل نہیں ہوگا۔ اس کے اثرات بھی ملک کی معیشت اور سیاست پر دور رس ہوں گے۔ انہیں اس منصوبہ کا سہرا اپنے سر باندھنے کے شوق میں ساری سیاسی ذمہ داری خود ہی قبول نہیں کرنی چاہئے۔ یہ حکمت عملی نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے جس کا سب سے زیادہ سیاسی نقصان نواز شریف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali