چوہدری نثار کی سیکولرائزیشن


(ترجمہ:مہ ناز رحمن)۔

ویسے تو چوہدری نثار کو بہت سی چیزوں میں سبق لینے کی ضرورت ہے لیکن تاریخ اور سیاسی فلسفے میں تو انہیں ہنگامی بنیادوں پر ٹیوشن لینے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کی اپنی پارٹی انہیں انٹرنیٹ پر مذہب کے بارے میں کسی۔ ’ مشکوک‘ چیز پر ریسرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اس لئے سیکولر کیا ہوتا ہے کے بارے میں ایک ڈمی گائیڈ پیش خدمت ہے۔

دنیا بھر میں ایسی کوئی ایک چیز، جگہ یا لوگ ایسے نہیں ہیں جنہیں سیکولر، مذہبی، مغربی، اچھا یا برا کہا جا سکے۔ ان تجریدی الفاظ کے کئی اور متضاد مفاہیم ہو سکتے ہیں۔ صرف سیاسی جوڑتوڑ کرنے والے لوگ ہی عدم اعتماد پیدا کرنے کے لئے انہیں مقررہ، واحد یا مخالفانہ قرار دے سکتے ہیں۔ سیکولرازم کے بارے میں ہونے والے مباحثوں کا نتیجہ اکثر مذہبی جنگوں یا تنازعات کی شکل میں نکلتا ہے۔ پاکستان کو بھی دیگر بہت سے ممالک کی طرح اس مسئلے کا سامنا ہے۔

سیکولرازم ایک فلسفہ ہے جس کی جڑیں سولہویں صدی تک جاتی ہیں، جب یورپی پروٹسٹنٹس نے استحصالی کیتھولک چرچ کی بالا دستی کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ کیتھولک چرچ کے مخالفین کا کوئی مذہب نہیں تھایا وہ لا دین تھے، وہ تو محض کیتھولک چرچ کے ظلم و ستم سے آزادی چاہتے تھے، سماجی، سیاسی اور اقتصادی آزادی۔ اس کے نتیجے میں شروع ہونے والے سیاسی اور سماجی عمل کو سیکولرائزیشن کہتے ہیں۔ ابھرتی ہوئی سرمایہ داری اور سائنسی دریافتیں بھی اس پر اثر انداز ہوئیں۔ سیکولرائزیشن کے ہنگامے ایک صدی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ 1648ء میں ویسٹ فیلیا کا معاہدہ ہوا لیکن نیچے سے اوپر جانے والی اس تاریخ کا مطلب یہ نہیں کہ اب سارے مغربی معاشرے نا قابل مواخذہ طور پر یا مکمل طور پر سیکولر ہو چکے ہیں۔ کسی بھی یورپی ملک میں پوپ کا دورہ اس سیکولر پیرا ڈوکس کی تصدیق کرے گا۔

سیکولرائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ عوامی تعلیم، اداروں، اور خدمات پر مذہب کا اثر نہیں ہو گا یا محض معمولی سا ہو گا۔ اس کا مطلب مذہب کو سرکاری امور سے الگ کرنا اور اخلاقی معاملات کو نجی اور ذاتی دائرے تک محدود کرنا ہے۔ سیکولرائزیشن کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جو ملحد بننے کی حوصلہ افزائی کرتا ہو یا مذہب کو مسترد کرتا ہولیکن یہ ایسا عمل ضرور ہے جو مذہب کو سیاسی آلے یا سیاسی فوائد کے حصول کے لئے غیر فعال بنا دیتا ہے۔ ریاست کو مذہب یا معاشرے سے الگ کرنے کا مطلب لا دینیت، مذہب کی عدم موجودگی یا مذہب کی مخالفت نہیں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ آپ قوانین اور پالیسیوں کی اس طرح ترتیب نو کریں کہ وہ غیر جانب دار ہوں اور بلا امتیاز اور بلا تعصب سارے شہریوں کو خدمات فراہم کریں۔ سیکولرائزیشن کا مطلب لوگوں کو چرچ یا مسجد جانے سے نہیں روکتا لیکن یہ عبادت گاہوں کو سیاست کرنے کے لئے استعمال کرنے سے ضرور روکتا ہے۔

ایک بد ترین مفروضہ جو LUMS کے اسکالرز نے چوہدری نثار کو سکھایا ہے وہ یہ کہ سیکولرازم ہمیشہ ’ مغربی‘ اور ’لبرل‘ ہوتا ہے( یہ لبرل سیکولر اصطلاح احمقانہ لسانی زیادتی ہے)۔ صرف غیر سیکولر حکومتیں نہیں بلکہ بہت سی سیکولر حکومتیں بھی فاشسٹ، غیر جمہوری اور قدامت پسند رہی ہیں اور ان میں کیوبا اور کوریا جیسے غیر مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔

مسلم ممالک کو بیسویں صدی سے پہلے سیکولرزم کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بہت سی وجوہات کی بنا پر یہ کوئی خوشگوار آمنا سامنا نہیں تھالیکن ضروری نہیں کہ اس کی وجہ فلسفیانہ عدم مطابقت رہی ہو۔ تاریخی طور پر عرب کی کچھ سیکولر حکومتوں نے اپنے خلاف جدو جہد کرنے والے اسلامی مخالفین گروہوں کو سزائیں دینے کے لئے اپنے عرب سیکولزم کی برانڈ کے طور پر ریاستی اسلامی قدامت پرست راسخ الاعتقادی تخلیق کی۔ انہوں نے سیکولر طرز حکمرانی کے پردے میں مذہب کو مذہب کے خلاف استعمال کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیکولرزم کا اصول ناقص ہے مگر کوئی بھی غاصب شخص یا حکومت اس کے مقاصد کو خراب کر سکتے ہیں۔ اپنے ماخذ سے قطع نظر جدیدیت، ٹیکنالوجی اور فیشن کی طرح سیکولرزم کے بھی کئی ماڈلز اور شکلیں ہیں۔ فرانس میں اس کا مطلب جمہوریہ اور عوامی جگہوں کو مذہب سے الگ رکھنا ہے۔ امریکہ میں اس کا مطلب اسکولوں، دفتروں اور ا سرکاری اداروں میں مذہب کے استعمال یا استحصال کو روکنا ہے۔ کثرتیت یا تکثیریت ہندوستانی سیکولرزم کی وضاحت کرتی ہے۔ جہاں سارے مذاہب کو سرکاری طور پر یکساں تسلیم کیا جاتا ہے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو عوامی جگہوں پر اپنے مذہب کے اظہار اور عبادت کی آزادی ہونی چاہئیے۔

کامیابی اور ناکامی کے معیارات سے قطع نظر سیکولریٹی کے ان مختلف پہلووٗ ں کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مسلمان فلسفیانہ یا سماجی طور پر نان سیکولر ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی مذہبی سرگرمی یا ادارے سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ ریاست اور حکومت کی مذہب سے علیحدگی پر یقین رکھنے اور مذہبی پارٹیوں یا پالیسیوں کو ووٹ نہ دینے کی وجہ سے سیاسی طور پر سیکولر ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چوہدری نثار کے بہت سے ووٹرز سیاسی طور پر سیکولر ہوں گے لیکن لادین نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس بہت سے اسلام پسندوں نے عبدالستار ایدھی پر کیچڑ اچھالا حالانکہ وہ ایک نیک اور با عمل مسلمان تھے لیکن ان کی سماجی خدمات سیاسی غیر جانبداری پر مبنی تھیں، وہ انسانوں میں تفریق نہیں کرتے تھے، دوسرے لفظوں میں وہ سیکولر تھے۔

گو کہ پاکستانی این جی اوز نیو لبرل اقتصادی حکومتوں کا حصہ ہیں۔ این جی اوز کے اکثر کارکنان اپنی شناخت سیکولر ہونے کی حیثیت سے نہیں کرتے۔ بہر حال پاکستان کے اقتصادی حلیفوں اور ڈونر تنظیموں (بشمول CPEC) کی اعانت کرنے والوں کی اکثریت سیکولر یا الحاد کی جانب جھکاؤ رکھنے والی ہے، کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ چوہدری نثار ان کے عزائم پر شبہ کریں گے اور ان کی سیکولر اسناد کی بنا پر انہیں مسترد کر دیں گے؟

ہر ’مغربی‘ یا ’سیکولر چیز کسی جفرافیائی مقام تک محدود نہیں اور ضروری نہیں کہ وہ بیگانی یا غیر اسلامی بھی ہو۔ بہرحال اگر چوہدری نثار اور ان کا ٹولہ اس تقسیم کو وسیع کرتا رہا اور سیاسی فوائد کے بارے میں عدم اعتماد پیدا کرتا رہا تو مزید لوگ مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کرنے کی کاوشوں کو مسترد کر دیں گے۔ اس کا نتیجہ پاکستان کی سیاسی سیکو لرائزیشن میں چوہدری نثار کاسب سے زیادہ ہاتھ ہونیکی صورت میں نکلے گا

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).