اور تلوار نہ ٹوٹی…


جہاں تک یاد پڑتا ہے فیلڈ مارشل ایوب خاں جب سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے تو اس وقت کے شاہوں نے ان کا استقبال بھی تلوار رقص پیش کرتے ہوئے کیا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب ہم ابھی اتنے اچھے مسلمان نہیں بنے تھے اورتیغوں کے سائے کی بجائے تنکے والی ٹوپیاں اوڑھ کر چٹائیوں پر نماز عشق ادا کیا کرتے تھے۔ یہ ٹوپیاں اکثر کم بھی پڑ جاتی تھیں۔ کچھ منچلے انہیں سر پر رکھے رکھے ہی کھسک جاتے اور مسجد کی چوکھٹ سےکوئی اچھا جوتا بھی پاؤں میں اٹکا لیتے۔

نماز کسی بھی مسجد میں پڑھی جا سکتی تھی۔ ان کے ماتھے فرقوں اور مسلکوں کی سنہری تختیوں سےابھی مزین نہیں ہوئے تھےاور نہ ہی انہیں ڈالروں اور ریالوں کے ملک ریاض والے پہیے لگے تھے۔

اب شاہ اور ان کے مہمان بھی نئے ہیں اور زمانہ بھی۔ بلکہ وقت کے شاہ تو اب شاہ رہے بھی نہیں۔ اپنا شمار خدام میں کرتے ہیں۔ اور یہ ہے بھی درست۔ لیکن کس کے !

سچ پوچھیئے ہمیں تو تلوار سے خوف آتا ہے۔

ہم جیسے کمزور دل اس کی بجائےطاؤس ورباب کی تال پرگھنگرو والا رقص دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وہی تاک دھنا دھن دھن والا۔

کسی مہنگے عربی یا ترکی ریستوران میں جائیں توعثمانی دربارکی رقاصاؤں جیسا بے نام لباس پہنے شکم کو توڑتی مروڑتی، خنجر آبدار لہراتی حسیناؤں کا بیلی ڈانس بھی دیکھ لیتے ہیں۔

اب اسی اسی سال کے عبا پوش بزرگوں کو دف کی تال پر یوں تلواریں لہراتے تھرکتے دیکھ کر سب سے پہلا خیال جو ہمارے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ خدا نہ کرےاگر ان میں سے کسی کا پاؤں رپٹ گیا یا زمین پر گھسٹتے جامے سے الجھ گیا تو کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے۔

بزرگوں سے یہ بھی سن رکھا ہے کہ ’’ شریفوں ‘‘ کے ہاتھ میں استرا نہیں دینا چاہیئے۔ نتائج خطرناک بھی ہو سکتے ہیں ۔ پر جب تماشہ کرنے والے معزز و مقدس مہمانوں میں وہ سروقامت حسینہ بھی شامل ہوجس کا قد قیامت کے فتنے سے یہی کوئی ایک قد آدم کم ہو تو پھر نتائج کی پرواہ کون کرتا ہے۔ وہاں تو ’’ ملامت می کند خلقِ سر بازار می رقصم ‘‘ کی سی کیفیت ہوتی ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ امہ کےاس رقص بسمل پر اس کےتقریباٌ پچپن تالی نواز بھی دف کے ساتھ سنگت میں شامل تھے۔ ان میں اپنے عظیم لیڈر تو ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیئے۔ شاید متوقع تقریر کی لذت کو نکھارنے میں مصروف ہوں۔ پر سنتے ہیں ستم ظریفوں نے بزم یار سے ہنس کر انہیں تہی کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ ہم پہلے سےجانتے ہیں آپ کیا کہیں گے۔ سو اس کی ضرورت نہیں۔ ان حالات میں کیا کرتے بیچارے۔ بس یہ سوچتے ہو ئے چپ ہو گئے کہ:

دل ہی تو ہے سیاست درباں سے ڈر گیا

میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے

چلئے چھوڑیئے اس قصے کو۔ تلواروں کا ذکر ہوا ہے توکچھ باتیں بچپن کی ہو جائیں۔

جب ہم چھوٹے تھے توہمیں ٹیپو سلطان بننے کا بہت شوق تھا۔ نسیم حجازی کو پڑھنے کے بعد یہ جذبہ اور بھی شدت اختیار کر گیا۔ کھجور کی چھڑی کو تلوار بنا کر وقت بے وقت اسے لہراتے، خیالی گھوڑا دوڑاتے، انگریزوں کا پیچھا کرتے رہتے۔ ایسے میں کبھی گھڑا ٹوٹ جاتا تو کبھی بجلی کا بلب۔

اماں سے مار کھاتے تو ٹیپو سلطانی دھری کی دھری رہ جاتی۔ لیکن ایسی کسی شکست کے بعد ہمارا جوش ایمانی اور بڑھ جاتا۔

اب ہم نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن شرط یہ تھی کہ وہ انگریز جنرل ہوگا۔ ہم سولا ہیٹ پر اماں کا دوپٹہ لپیٹ کر اسے پگڑی بنا لیتے۔ بھائی کو انگریز جنرل بنانے کے لئے اس کے ہیٹ پر مرغے کا پر چپکا دیتے۔ گھمسان کا رن پڑتا۔

اس دوران ہماری کوشش ہوتی کہ کسی طرح ہماری تلوار یعنی کجھور کی چھڑی ٹوٹ جائے اور ہم ٹیپو سلطان کی طرح شیر اور گیدڑ کی زندگی والا ڈائیلاگ بول سکیں۔ پر اس کمبخت چھڑی کو ٹوٹنا تھا نہ کبھی ٹوٹی۔ یوں ہمارے دل کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔

اب آج کے سلطانوں کو تلواروں کی چھاؤں میں ڈگڈگی پر ناچتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اچھا ہی ہوا ہماری تلوار نہ ٹوٹی۔

زندگی گیدڑ کی ہی بہتر ہے۔

(بشکریہ: کارواں ناروے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).