خواتین بل اور ہمارا رویہ


\"siftain_khan\"

پنجاب حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے بل پاس کر دیا۔ اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے مختلف ردعمل سامنے آیا جس نے ہمارے معاشرے کی تقسیم کو اور نمایاں کر دیا۔ پھر یہ بھی واضح ہوا کہ ہمارا دانشور طبقہ بھی معروضی سطح کے تجزیے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ کوئی معقول تحریر دیکھنے کو نہ ملی۔ کسی کو ساری خرابیوں کی جڑ مولوی میں نظر آتی ہے تو کوئی این جی اوز اور لبرلز کو ملک کی تمام تباہیوں کی بنیاد سمجھتا ہے۔

مولوی حضرات کو اس میں فحاشی نظر آگئی جو کسی اور کو نظر نہ آسکی کیوں کہ دوسرے تقوی کی اس خاص عینک سے محروم ہیں جو انھوں نے پہن رکھی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں دینی مدارس کی ذہنی سطح کا کہ ایک بڑے مدرسہ کا مہتمم سر عام اس میں سے نہ صرف فحاشی برآمد کرتا ہے بلکہ ایک عورت کو فاحشہ کا لقب بھی عطا کرتا ہے۔ پھر ذرا توجہ اخلاقی سطح کی طرف مبذول ہو کہ لاکھوں فرزندان مدارس میں سے کسی کو اس کی مذمت کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہی وہ المیہ ہے جس کے بطن سے نیا بیانیہ جنم لیتا ہے۔ پھر کہتے ہیں نیا بیانیہ کیوں دیتے ہو۔

فلسفے سے زیادہ معاشرہ کی حرکیات بیانیے میں اہم ہوتی ہیں۔ شائستگی سے اپنا موقف پیش کرنے کا اہل بھی نہیں یہ طبقہ۔ پھر ہر وہ شخص جو خواتین اور مظلوم طبقات کی بات کرے وہ لازماً ان کے نزدیک بیرونی ایجنڈے پر ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر خود بھی بیرونی ایجنڈے پر ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کا بیرونی آقا عربی بولتا ہے اور ان کا انگریزی۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں بہت سی این جی اوز ایسے ہی معاملات میں دلچسپی رکھتی ہیں اور اس کے پیچھے ذاتی مفادات بھی ہوتے ہیں مگر پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بالفرض ایسا درست بھی ہے تو قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات غیر متعلق ہے۔
دوسری طرف لبرلز کو ایک اور موقع مل گیا اپنی روشن خیالی ثابت کر کے مذہب کو بدنام کرنے کا۔ اس فکر کے حاملین خود تو کبھی مذہب کو سمجھنے کی مخلصانہ کوشش نہیں کرتے مگر اس جنگ میں صف اول میں لڑنے کو موجود رہتے ہیں۔ ان کا مقصد ایسے قوانین کی آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکالنا ہوتا ہے۔ انہوں نے مظلوموں کو بھی مشرق و مغرب میں بانٹ دیا ہے۔ ان کے ہاں صرف وہی مظلوم ہیں جن کو نمایاں کرنے سے مغرب کے انسانی حقوق کے تصور کو ٹھیس نہ لگے۔ ان کے ہاں ظلم بھی صرف وہ ہے جو مشرق کرے۔ مغرب اپنی تمام تباہیوں کے باوجود معصوم ہے۔ ان کو معاشرہ کی اصلاح سے زیادہ مذہب پسندوں کی شکست سے دلچسپی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس سے مغرب خوش ہوتا ہے۔ میڈیا کو بھی مفتی نعیم ہی ملتا ہے مذہبی طبقہ کی نمائندگی کے لیے کیوں کہ اس سے ان کو ریٹنگ اچھی ملتی ہے جب وہ ٹارگٹ کرتے ہیں ایسوں کے بیان کو۔

خالص قانون کو دیکھیں تو بظاہر اس میں کوئی قابل تنقید شق نہیں اور اس قانون کی ضرورت بھی تھی۔ مگر اصل مسئلہ ہمارے ہاں عملدرآمد کا ہے۔ حکومت بہت معصوم ہے یا قوم کو احمق سمجھتی ہے۔ قانون اور معاشرہ کی گتھی اتنی سیدھی نہیں ہوتی ہے۔ معیشت ، قانون ، روایات سمیت بہت سے عوامل خاندان کے ادارے کی ساخت اور سفر میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سب کے مجموعی تعامل کو مد ںطر رکھ کر ہی کوئی موثر لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان سطحی حکمرانوں کو اس کا کیا پتہ۔ جس ملک کی پولیس خود کرپٹ ترین اور جاہل ہو وہاں کوئی احمق ہی ایسے گھریلو معاملات اس کے پاس لے کر جانا پسند کرے گا۔

پھر ایسے معاملات صرف قانون سےحل نہیں ہوتے بلکہ خواتین کو اتنا شعور اور اعتماد بھی دینا ہوتا ہے کہ وہ اس کو استعمال کر سکیں اور معاشرہ کو اتنی تعلیم دینی ہوتی کہ وہ اس کو برداشت کر سکے۔ مگر چونکہ اس کے لیے قوم پر کافی محنت کرنا پڑتی ہے جو کہ چند شقوں پر مبنی قانون سازی سے کافی مشکل کام ہے اور اس سے مغرب میں سافٹ امیج بھی نہیں ابھرتا لہذا کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ جہاں غیرت کا تصور اتنا احمقانہ اور ظالمانہ ہو کہ عورت سے شروع ہو کر عورت پر ختم ہوتا ہو اور اس کے نام پر قتل معمولی بات ہو وہاں کون بے غیرت بننا پسند کرے گی۔ معاشرے کے خوف اور معاشی مجبوریوں کی بدولت جو خاتون ساری عمر ایک ظالم کے ساتھ گزار دے اس کو آپ ایک قانون کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کے ساتھ معاشرے کوبھی درست کریں ورنہ سب لاحاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments