عرفان مسیح کی غلاظت اور پاک مسیحائی


 یہ عجیب سنگم تھا اور روح پرور انتخاب کا مرحلہ بھی کہ

اک طرف خدا تھا

دوسری جانب خلقِ خدا۔۔

ایک طرف خوابِ بہشت تھا، جس میں اس مادی دنیا کی تمام محرومیوں کا مداوا تھا

زندگی کی تمام ذلتوں کا بدل، جنسی محرومی کا مداوا تھا کہ ستر حوروں ان چھوئی نازک دوشیزائوں کا وعدہ ، تمام عمر کی تھکا دینے والی مشقت کا بدل یہ تھا کہ بعد از موت حیات میں باغِ بھشت میں تا ابد یہ بندہِ خدا کام کاج سے فارغ کیا گیا تھا۔ خدا کے نزدیک یہ برگزیدہ بندہ جنسی لذت اٹھاتا، شراب طہورا کے لطف میں رہتا۔۔دودہ اور شھد کی ندیاں بس اس کے پاس سے گذرتیں، اسکی آنکھ ، شکم اور خواہشوں کی تکمیل کا وعدہ اٹل تھا، تا ابد تھا۔ اس کے بیچ جو بھی آنا تھا وہ شیطان تھا۔۔وہ دنیا تھی، گنہگاروں سے، ان کی رذالتوں سے پر۔۔۔ اس دنیا کو ترک کرنے اور جنت کا رستہ کھولنے کے لئے شیطان سے دوری اور خدا کی قربت کی شرط تھی

روح پرور انتخاب کا مرحلہ تھا کہ

دوسری جانب دنیا کی غلاظتوں سے لتھڑی زندگی تھی، پیٹ کا جہنم تھا جس کو پر کرنے کے لیئے غلاظت کے سمندر میں اترنا بھی روز کا حساب تھا۔ گند و غلاظت کے اس دوزخ میں اترتے نہ زندگی کا کوئی خیال ستاتا نہ دنیا کی رنگینی کا کوئی تصور آتا۔ خاکروبی تھی جو اس کے پچھلے کئی جنموں کے گناہوں کا بدل تھی اس لیئے دوسروں کی غلاظت اٹھانے سے روزی روٹی جڑی تھی۔۔یہ حرام کی زندگی حرام کا جینا اور حرام کی روزی روٹی تھی اس لیئے بھی اس کو چھونا باعث حقارت تھا، پاک کپڑوں پہ داغ لگنے کا اندیشہ غیر فطری نہ تھا۔۔ غلاظت کو چھونا معیوب تھا۔

اندر میں ایک کانپتا لرزتا خوف تھا، غلاظت کو چھونے کا، ناپاکی کا، روزہ ٹوٹنے کا، ہاتھ سے نکلتی بہشت کا۔۔۔۔۔

اور ڈر غالب آ گیا تو علی الصبح تمہاری، میری غلاظت اٹھانے والا عرفان مسیح اسٹریچر پر پڑے پڑے دست مسیحا کو ترستا مر گیا۔

ویسے عرفان مسیح کی موت کے کئی اسباب تھے جن کو کوئی بھی تجزیہ نگار ریاستی ذمہ داری سے لے کر شعبہ جاتی کرپشن اور ذاتی و ادارتی اخلاقیات کے دائرے میں رکھ کر ان کا الگ الگ حساب لے سکتا ہے کہ

1)گٹر کا پائپ ٹھیک کرنے کے لیئے جب وہ چاروں خاکروب مین ہول میں اترے تو ان کے پاس سیفٹی کٹ نہ تھی

2) بیہوشی کی حالت میں ان کو ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر روزہ ٹوٹ جانے اور ناپاکی کے ڈر سے اس بے ہوش مریض کے قریب تک نہ آئے۔

3) ہسپتال کے اندر آکسیجن کے سیلنڈر میں گیس نہیں تھی۔

لہٰذا، باقی تین مریض تو حیدرآباد سول ہسپتال منتقل کردیئے گئے مگر خاکروب عرفان مسیح زندگی ہار گیا

الحمدللہ۔۔۔ ڈاکٹر کا روزہ بچ گیا

اک طرف مسیح تھا جو مر گیا

اور دوسری طرف مسیحا تھا۔۔جس نے اپنے سفید کپڑوں کا بھرم تو رکھ لیا مگر پیشے کے دامن پہ سیاہی مل لی تھی۔ ممکن ہے اپنا روزہ تو بچا لیا ہو مگر دین کے ساتھہ کھلواڑ کر کے اسے رسوا کیا۔

تڑپتی عورتوں اور وارثوں نے لاش گھر لے جانے سے انکار کیا ۔

اس مسیحی خاکروب کی لاش صبح نو بجے سے لیکر سورج ڈوبنے تک وہیں پڑی رہی

کوئی داد نہ فریاد ۔۔۔

نہ ایف آی آر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری زندگی دوسروں کی غلاظت صاف کرنے والے عرفان مسیح کو بالآخر گھر لایا گیا۔۔۔نہلایا گیا، پاک کیا گیا کہ اب اسے بھی اپنے کدا کے حضور حاضری پہ جانا تھا

زمانے کی طرح ہمارے خدائوں کو بھی صفائی سے خاصا شغف ہے۔۔

وہاں جنازے کے ہجوم مین آوازیں سنائی دے رہی تھیں

’ہم ان سب کے لئے کتے ہیں

ہم کتے کی موت مرتے ہیں

کیا ہم کتے ہیں؟

کوئی پوچھنے نہیں آیا

ڈاکٹر کہتا تھا

’’نہلا کر لائو

میں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔۔۔خراب ہو جائیں گے۔ روزہ ٹوٹ جائے گا‘‘

ہم چیختے رہے، بھائی کے منہ میں منہ ڈال کر سانس پھونکتے رہے مگر عرفان مر گیا۔

ڈاکٹر کے کپڑے خراب نہیں ہوئے۔۔۔ کپڑے دوسرے آ سکتے ہیں روزہ قضا رکھا جا سکتا ہے مگر اب میرا بھائی واپس نہیں آئے گا۔ وہ مر گیا۔۔۔‘‘

عرفان کا بھائی پرویز سسکیوں میں فون پہ روداد بتاتے کچھہ سننے کے ہوش میں نہیں تھا ۔۔۔مسلسل بےربط بولتا جاتاـ

’’ یہ ہمارے ساتھہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔۔۔ ہم مرتے رہتے ہیں ان کو پرواہ نہیں ہوتی۔

بہن 2014 میں نیاز مسیح اور دھنو کرشن مارواڑی بھی اسی طرح مر گئے۔۔۔ نیاز مسیح کی بیوی معذور تھی اس وقت کہا کہ ہم آپ کو نوکری دیں گے کفالت کریں گے

حکومت نے کچھہ نہیں دیا اور نیاز مسیح کی بیوی بچے سڑکوں پہ بھیک مانگتے ہیں۔۔۔۔

بہن ہم کتے ہیں اورصرف ان کا گند صاف کرنے کے لئے جیتے ہیں ۔۔ـ‘‘

ہم سب پیپلز پارٹی کے ہیں مگر وہ بھی ہمیں کچھہ نہیں سمجھتی

“کپڑے تو دوسرے بھی آ سکتے تھے۔۔۔۔ میرا بھائی تو اب کبھی واپس نہیں آ سکتا۔۔

خوابِ بہشت، دنیا کو اور کتنی غلاظت سے بھر سکنے کی قوت رکھتا ہے

 پارسائی زندگی کو کتنا کراہت آمیز بنا سکتی ہے،

عقیدے میں پاکی کا خبط کتنی دور تک جا سکتا ہے،

غلاظت میں لتھڑی عرفان مسیح کی زندگی کب جان پاتی؟ اگر جان باقی رہتی بھی تو شاید نہ سمجھ سکتی۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).