مشال خان کا اپنے والد کو خط


اسلام و علیکم! میرے پیارے بابا جان

میرے بہادر بابا جان مجھے یقین ہے کہ میرے اس خط کو پڑھتے ہوے آپ کے نیم سیاہ ہونٹوں پر مردہ مسکراہٹ ضرور آے گی۔ بابا جان انسانوں کی بستی سے خبر آئی ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ مکمل ہو گئی ہے جس میں واضح ہوا کہ بابا آپ کا بیٹا بے قصور اور نا حق قتل ہوا ہے۔ بابا آپ انسانوں کے سامنے سرخرو ہو گئے ہیں۔ نہیں بابا صرف اقبال خان یا مشال خان سرخرو نہیں ہوئے بلکہ وہ تمام انسان پرور سرخرو ہوے جہنوں نے بنا تحقیق و ثبوت کے میرے نا حق مارے جانے اور الزام تراشی پرمذمت کی تھی۔

بابا جان میں جب بھی ویکنڈ پر گھر آتا آپ کی منتظر آنکھیں میرا خیر مقدم کرتیں تھی۔ جھک کر آپ کے پاؤں چھوتا تو اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوے لبوں پر میری کامیابیوں کی دعائیں لاتے تھے۔ شام کے کھانے پر اپنی طرف بیٹھا کر مجھ سے میری جاری پڑھائی کا پوچھتے تھے۔ اس دوران میں کچھ مسائل کا ذکر کرتا تو مجھے یاد ہے ماں کے منہ میں روٹی کا جاتا نوالہ روک جاتا تھا۔ ماں ممتا بھری نظروں سے دیکھتے ہوے بولتی مشال بیٹا آپ ان مسائل سے دور رہو یہ نا ہو کہ کوئی میرے بیٹے کو نقصان پہنچائے۔ ماں کا دل تھا جو اپنے بیٹے کی تکلیف کا گمان بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی۔

مگر بابا آپ ہنستے ہوے میرا کندھا تھپکتے اور ہمیشہ جبر و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی نصحیت کرتے تھے۔ نیز سچ بولنے سچ پر قائم رہنے کی تلقین کرتے تھے۔

بابا آپ کو یاد ہوگا میں نے یونیورسٹی میں ہونے والی غلط بیانیے، نا اہل تعیناتی، کرپشن اور دیگر مسائل کے خلاف اٹھا رکھی تھی جس پر آپ نے شاباش دیتے ہوے کہا کہ بیٹا تعلیم کا اصل مقصد غلط اور صحیح کے درمیاں فرق کرنا ہے، غیر قانونی ناجائز اقدامات کے خلاف لب کشائی کرنا چاہے کسی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑ جائے، ہمیشہ حق بات پر ڈٹ جانا۔

مگر بابا انسانوں کی بستی میں ظلم و باطل کے خلاف لب کشائی کرنے کا انجام یہ ہوا جس ماتھے پر بوسہ دے کر آپ بابا مجھے رحمت العالمین (ص) کے حفظ و امان میں رخصت کرتے تھے اس پاک ہستی (ص) کے نام پر جھوٹا الزام لگا کر وہی اینٹیں اور پتھر مارے گئے۔ بابا میں نے کلمہ محمّد (ص) پڑھ کر اپنے بے قصور ہونے کا کہے رہا تھا مگر میرا اعتبار نہیں کیا گیا۔ بابا مجھے برہنہ کر کے ڈنڈے برسائے گئے۔

بابا مجھے میرے نا حق قتل کا افسوس نہیں کیونکہ میری زبان پر خدا کی وحدانیت اور محمد (ص) کی نبوت کا اقرار تھا۔

بابا آپ میں ایک صفت معاف کرنے کی بھی ہے چونکہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے بابا میری التجا ہے اس مفتی کو معاف کر دینا جس نے میرا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تھا۔ ان عزیز و اقارب کو بھی معاف کر دینا جو آپ کے بیٹے کی لاش کو دفنانے سے گریز کیا تھا۔ کیونکہ وہ مشال کے بابا کی طرح بہادر اور انسان گو نہیں تھے۔

بابا آپ انصاف پسند ہیں آئین و قوانین پر یقین رکھتے ہیں انسانوں کی بستی سے عدلیہ کی سرحد تک آج بھی بنا کسی مذہب، فرقہ کو ترجیع دیے بغیر انسانیت پرست لوگ موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ آپ کو میرے نا حق قتل ہونے کا انصاف آپ کو ضرور دلائیں گے۔

آخر میں بابا رات کے پچھلے پہر اٹھ کر میرے کمرے میں مت جایا کریں میری شرٹس اور گھڑی کا بوسہ نہ لیا کرو، الماری میں رکھے میڈلز اور شیلڈز کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار کر لیتے ہیں۔ بابا میرے احساس کو روتی آنکھوں سے نہ اپنایا کریں آپ کی یہ حالت میرے لیے نا قابل برداشت ہوتی ہے۔

مگر جب بابا آپ میری لحد پراطمنانیت کے ساتھ کھڑے ہو کر مجھے سلام کرتے ہو بابا آپ کو سینے سے لگانے کو دل کرتا اور فخر کرتا ہوں کہ میں اپنے بہادر بابا اقبال خان کا بیٹا مشال خان ہوں۔
ماں کو حوصلہ بہنوں کو پیار۔

آپ کا بیٹا مشال خان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).