علی ابن طالب رضی اللہ تعالی عنہ پر سلام: فکر روشن اور عمل روشن تر


ابن ابی الحدید لکھتا ہے۔ کیا کہوں اس فرد کے بارے میں جو ہر فضیلت اور انسان کی ہر امتیازی عظمت کا سرمنشأ اور سرچشمہ ہے اور ہر فرقہ اور ہر گروپ اس سے منسوب ہوکر فخر کرتا ہے۔ 13 رجب کو کعبہ میں پیدا اور 21رمضان مسجد کوفہ میں ضرب کھائی اورمیں کامیاب ہو گیا، کے نعرہ کے ساتھ رخصت ہوئے۔ اسلامی تاریخ کے ساتھ انسانی تاریخ بھی علی ابن ابی طالب کو فکری وسماجی دنیامیں قابل قدر پاتی ہے۔

سماجی زندگی میں قدم رکھتے ہی سادگی کو شعار بنایا۔ اپنی خلافت و حکومت کے دنوں میں فقیروں اور پسماندہ ترین افراد جیسی زندگی بسر کرتے، خوراک، لباس اور مکان کے لحاظ سے معاشرہ کے غریب ترین افراد میں اورآپ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ مشاغل زندگی بے حد مشقت امیز لیکن خود دارانہ تھے۔ ذریعہ معاش کھیتی باڑی قرار پایا۔ درخت لگانا، پھل دار باغیچے سجانے کے شغف کے ساتھ۔ چھوٹی نہریں کھودنا۔ مکانات کی تعمیرات میں کردار ادا کرنا، کھجوراور پھل فروشی کو پیشہ بھی بنایا۔

 انسانی خدمت عین عبادت سمجھتے۔ یتیموں کا وارث کہلواتے غریبوں مسکینوں فقیروں کا یاور و مددگار۔ راتوں کو مستحقین کو خوراک پہنچانا۔ نابینا فقیروں کے کپڑے دھونا، جھاڑو لگانا، کھانا کھلانا۔ بیواوں کا خیال رکھنا۔ غلاموں کو آزاد کرانااور اس سلسلے کو جلد ختم کرنے کےاقدامات اٹھانا۔ بزرگوں کو مجلس دینا اور مشاورت لینا۔ جوانوں کو اعتماد کی خو سے متعارف کرانا۔ یہاں تک کہ انسان دوستی سے بڑھ کر جانوروں، پرندوں کو خوراک مہیا کرنا نہیں تو آزاد کرنے کو اہمیت دیتے۔ اور آپ کہتے تھے۔ ایک معاشرے کے حاکم کواس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ ضرورت مندوں اور پریشان حال افراد کے لئے تسلی کاسبب بنے نہ ان کے لئے حسرت اور حوصلہ شکنی کا باعث ہو۔

بوٹلرایک ہیومنسٹ لکھتی ہیں۔ بے شک علی دیگر مسلمان مجاہدین کے ہمراہ دشمن کے خلاف شدید ترین انداز میں نبردآزما ہوا کرتے تھے مگر ان کے جذبات و احساسات کبھی بھی “انسانی حقوق” کے سلسلے میں ان کے احساس ذمہ داری پر غلبہ نہ پاسکے۔ وہ دشمن کے انسانی حقوق کا بھی پاس رکھا کرتے تھے۔ لاش کا مثلہ و بےحرمتی کرنے سے منع کرتے۔ میدان میں اصول و اخلاق کی پابندی لازم سمجھتے۔ انتقام کو ناپسند کرتے۔ دفاعی حد کے قائل تھے۔ پیچھا نہ کرتے۔ صلح جوئی شیوہ تھا۔ مخالف کی خواتین کو آزاد ی اور احترام کا حق مہیا کرتے۔ غیر مسلم بچوں، بیواوں کو مسلم جیسے انسانی بنیادی حقوق ادا کرنے کو فرض جانتے تھے۔

سیاسی بصیرت اچھی تھی۔ مناصب پر فائز حکمرانوں کو مختلف حکومتی معمات۔ اماراتی معاملات و مشکلات میں مشاورت دیتے۔ دور اندیشی اور پس منظر نامہ گری پر معاصر حکمران، علما، دوست و یاران اس نابغہ پر حیران ہوتے۔ طرز حکمرانی کے آفاقی اصول وضع کر رکھے تھے۔ ریاست، عوام، خطہ، اور حکومت پرایک تفصیلی خط جو آپ نے مالک اشتر کو لکھا کئی بڑی زبانوں میں تراجم ہو کرعالمی شہرت کا حامل ہے۔

عدل اور علی میں چولی دامن کا ساتھ تھا۔ غیر کا مال اس تک پہنچاتے، حق دار کو ہر صورت ادائیگی لازمی ہوتی۔ جو گھر کے لیے وہی باہر کے لیے۔ ذاتی ترجیحات و سفارشات پر دوسروں کومقدم رکھتے۔ جس کا حق جس کے پاس تھا لوٹایا۔ جو اقربا پروری سے نوازے جاتے تھے ان سے روک کے بیت مال میں شامل کیا۔ کرپشن کا ڈنکے کی چوٹ پر صفایا کیا۔ روزانہ بیت المال کو تقسیم کر کے جھاڑو پھیرے گھر لوٹتے۔ اپنے کام پر حکومتی چراغ تک بجھا کر ذاتی چراغ جلا لیا کرتے تھے۔

علی ہمہ جہت شخصیت کے مالک۔ رسمی عبادات کو شعور بندگی کی پرکھ ساکھ سے مقصدیت دیکھتے۔ سماجی، معاشرتی، فکری سیاسی و مذہبی علوم میں منطق و فلسفہ، تفسیر، فقہ و قانون، ادب اور فصاحت و بلاغت اور کلام، طریقت پرماہرانہ رائے رکھتے تھے۔ ابن ابی الحدید کہتا ہےتمام علوم کی طرح طریقت، تصوف اور عرفان کا سلسلہ بھی جناب تک پہنچتا ہےعلم الٰہیات، وجود خدا صفات، شناخت پرمفصل اور مدلل بیان بھی اہل اسلام میں جناب سے شروع ہوتا ہے۔ اس فن کے ماہرین معتزلہ اور اشاعرہ بھی ایک دو سلسلوں سے علی کی شاگردی کو پاتے ہیں۔ وجود خدا پر با دلیل علمی و شعوری طرز تفکر۔ خدا شناسی تا انسان شناسی محاکمے و مکالمے کا آغاز علی جیسے بابصیرت و با شعور انسان سے ہونا ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔

روادار اورسلوک شعارطبع کے مالک تھے۔ جو جس طرز پر جیتا جینے دیتے چنداں کہ انفرادیت یا اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچے۔ عربی عجمیت کو برابری کا مرتبہ دیتےجسے عرب شیوخ ناگوار سمجھتے۔ مسلم غیر مسلم عبادات میں سب کو آزادی اورابلاغ و تبلیغ کی سب کو اجازت تھی لیکن جبر و اکراہ اور تجاوز پرسختی سے نوٹس لیتے تھے۔ خوارج(اس وقت کی داعش) اس کی بڑی مثال ہیں۔

ابی مخنف لکھتا ہے جب دوران خطاب خوارج داعش نے لاحکم الا للہ کا نعرہ لگا کر حکومت اور اس کےشہریوں کی مخالفت کی تو علی نےکہا کلمہ حق لیکن اس کا استعمال باطل ہے۔ نظریےکومفاد کی ڈھال بنا کرنتائج لینے کی کوشش کرنا ہے۔ تب کہا لوگو۔ جب تک تم معاشرے کا حصہ ہو، تین باتیں ماننا ہوں گی۔ ایک تم عبادت میں آزاد ہو۔ دوم ہمارا حصہ بنے رہےتو ہم مال غنیمت بھی دیں گے۔ سوئم جب تک تم لوگ جنگ کی ابتدا نہ کرو گے ہم تم سے جنگ نہ کریں گے۔

پر امن ساج کا بہترین دستور۔ نظریہ جو رکھیےلیکن دوسروں کی طرف تجاوز قبول نہیں وگرنہ حکومتی ذمہ داری ہے کہ ایسے فسادیوں سے سماج کو صاف کرے۔ علی ابن ابی طالب انسان دوست طرز حکومت میں مذہبی جبرکو ناپسند کرتے تھے۔ جہاں نظریہ، عقیدہ، مسلک، مذہب سے بالا ترانسانی اخلاقی بنیادوں پر عوام کا خیال رکھا جائے۔ کہا کرتے تھے کہ ریاست کی پہلی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا اور بنیادی شہری حقوق کی ادائیگی ہے۔ ایک روشن فکر ریاست کے لیے جناب کا طرز حکومت نمونہ عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).