نصیر احمد ناصر کو پڑھتے ہوئے۔۔۔۔


\"quratulتم سفید بالوں والے
بوڑھے بچے ہو
اور میں جیسےایک ننھی بچی
جسے تمھاری نظمیں
آنے والے زمانوں کی
بھیانک تصویریں دکھاتی ہیں
ڈراتی ہیں
تم، سفید بالوں والے خبطی
مجھے اپنے قدرتی مناظر جیسے لفظوں کے حسن میں
گم ہوتے دیکھ کر
اچانک صفحہ پلٹ دینے پر اکساتے ہو
اور میں دیکھتی ہوں پرت در پرت منظروں کے نیچے
گرم سیال مادے ہیں
صدیوں کا لاوا ہے
سر زمینِ قرطاس پر چلتی ہوں
تو کہتے ہو
پسِ اوراق، زیرِ سطور کی دنیائیں دیکھو
جہاں چٹانیں سوکھتی ہوئی نمی کو چاٹ رہی ہیں
آبی بخارات
جو آسمانوں کی طرف گئے تھے
واپس نہیں آئیں گے
میں ابھی بچی ہوں
لیکن میری نسلیں
ایک بوند پانی پر
عالمی جنگوں میں لڑتے لڑتے مریں گی

تم سفید بالوں والے
دیوتائی بچے ہو
جو اتنی \”کم عمری\” میں
مستقبل کو تاریخ بنتے ہوئے دیکھ سکتا ہے
کتابیں لکھتے ہو
لیکن مجھے ان سے احتیاطاً دور رہنے کا مشورہ دیتے ہو
کہیں میری نظر
کتابوں سے رِستے ہوئے انسانی خون پر نہ پڑ جائے
کہیں مجھے ان میں دفن
سوختہ روحوں کی چیخیں نہ سنائی دینے لگیں
کہیں خوف کے مارے میری آواز نہ بند ہو جائے
کہیں میری آنکھیں دھوئیں سے نہ بھر جائیں
اور میں تمھاری طرح
یادوں کے ملبے سے ملی چیزیں دیکھ کر
اور ہڈیوں کے سوراخوں سے برآمد ہوتی
قدیم زمانوں کی موسیقی سنتے ہوئے
آنکھوں میں پانی آنے کا بہانہ نہ کرنے لگوں
وائلن اور پیانو کی دھنوں پر
آنسو چھپاتے ہوئے کوئی تم کو دیکھے
تو ہنستے ہنستے رونے لگ جائے
دنیا کی چالاکیوں میں
سادگی کی روحانیت تلاش کرتے ہو
دوستوں پر لکھتے ہو
تو انھیں عظیم بناتے بناتے
خود چھوٹے بن جاتے ہو
سچ کہوں! بے فیضوں پر نظمیں ضائع کرتے ہو

کبھی کبھی لگتا ہے
تم سفید بالوں والے بُدھا ہو
جو برگد اوڑھے بیٹھا ہے
تمہاری دانش بھری گمبھیرتا
تمہاری مونچھوں کے جنگل جیسی گھنی ہے
تمہاری دھوپ اور چھاؤں
تمہاری شاعری کی طرح خالص ہے
اور تمہارے سر پر
سفید بادلوں کے ڈھیر ہیں
تمہیں معلوم تو ہو گا
کائنات کب واپس ایک نقطے میں سمٹ جائے گی؟

اگرچہ ہم سب کی طرح
تم بھی اس زمین کے باسی ہو
جو دو قدموں کے فاصلے پر ختم ہو جاتی ہے
لیکن وسعتِ افلاک رکھتے ہو
اور تیسرے قدم کا خمیازہ بھگتنے
حالتِ تنہائی میں نادیدہ ستاروں پر پھرتے رہتے ہو
واک کرتے ہوئے
وقت بھی پھٹے پرانے جاگرز پہنے
ننھے فوزان کی طرح تمھارے ساتھ چلتا ہے
اور راستہ تھک کر کسی ٹوٹے پرانے بینچ پر بیٹھ جاتا ہے
اور کہیں دور سے آتی ہوا
تمھارے کانوں میں محبت کی سرگوشیاں کرتی ہے
اور تمھارا ٹیرس، جہاں تم سرما کی دھوپ میں بیٹھے
خدا سے چیٹنگ کرتے ہو،
ارد گرد کے مکانوں، کھڑکیوں سے دکھائی دیتی،
چھتوں پہ کپڑے ڈالتی
عورتوں کی طرح پھیلا ہوا ہے
اور تمھارے سامنے پڑی کرسیاں
خالی ہوتے ہوئے بھی خالی نہیں ہوتیں
ضرور کوئی خلائی مخلوق جو بظاہر نظر نہیں آتی
یا تمھاری کوئی اَن دیکھی محبوبہ وہاں بیٹھی ہوتی ہے
اور تم اس سے بےنیاز
اپنے ہاتھوں سے تیار کیے ہوئے گملوں، پودو ں،
تازہ کھلے پھولوں، معدوم ہوتے پرندوں، کیڑوں مکوڑوں
اور چیونٹیوں کی قطاروں کو دیکھنے میں مگن رہتے ہو
بارش، دھند، بادل اور درخت تمھارے بیسٹ فرینڈ ہیں
اور ایک ہوا جیسی بیسٹی جسے میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا
جو تم سے، تمھارے لفظوں کی طرح
اداسیوں میں خوش رہنے کا ہنر سیکھنا چاہتی ہے
اور تمھاری خوبصورت نظموں جیسی نظمیں لکھنا چاہتی ہے
پتا نہیں ایسی کتنی بیسٹیاں اور بیسٹے ہوں گے
جو تمھاری ذات کے سمندر سے
اپنے اپنے کنوئیں بھر کر
تمھیں \”کھوہ کھاتے\” ڈال دیتے ہوں گے
تم ہو کہ پھر بھی لبالب ہوتے ہو
اور اپنا خالی پن نظم کے سوا کسی پر عیاں نہیں کرتے
تمھارا دکھ سمجھنے کے لیے
کئی نظموں اور زمانوں کا سفر درکار ہے

موت تمہاری سہیلی ہے
مگر مجھے وہ اچھی نہیں لگتی
میں تتلیوں کے پیچھے بھاگنا،
تمہارے لگائے ہوئے درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنا
اور تمہارے بنائے ہوئے راستوں پر چل کر
دریاؤں، جھیلوں، پہاڑوں
اور دور پار کی بستیوں کو دیکھنا چاہتی ہوں
اور تم کہتے ہو
عرابچی سو گیا ہے
سمندر جوہڑ بن جائیں گے
تتلیاں اور پرندے معدوم ہو جائیں گے
اور درخت کوئلہ بن جائیں گے
پلیز ڈراؤ مت!
مجھے پانی میں گم خواب اچھے لگتے ہیں
لیکن تمھیں پڑھتے ہوئے
میری نیند اُڑ جاتی ہے
اور مجھ میں سوئی ہوئی نظمیں جاگ پڑتی ہیں
میں لکھنے لگتی ہوں!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
16 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments