مالِ مفت، قضائے بے رحم


سولہویں سترویں صدی کی ناپید جادوگرنیاں، بغداد کی الف لیلوی شاموں کی یاد آئے یا پھر یہ خیال ستانے لگے کہ بھئی بہت دیر سے پیدا ہوئے، جو دلچسپ تھا وہ سب تو اگلے وقتوں میں ہو لیا، اڑن کھٹولوں پر تک نہ بیٹھ سکے تو یقین کیجیے مایوسی کی کوئی بات نہیں کیونکہ رنگ برنگے سیکنڈلز میں گھری ہماری قومی ائیرلائن آج بھی الہٰ دین کا قالین اڑائے پھر رہی ہے۔ وہ اسے جدید زبان میں اے ٹی آر کہتے ہیں۔

بطور پاکستانی مجھے اگر کوئی چیز جان سے پیاری ہے تو وہ مال مفت ہے۔ جیسے ہی مجھے احساس ہوا کہ میری والدہ مجھے ایک ہوائی سفر کا ٹکٹ دینے کہ لیے بخوشی راضی ہیں تو میں نے فوراً سے بیشتر فیصلہ کر لیا کہ گرچے اے ٹی آر کے ساتھ میرا آخری سفر بے حد تکلیف دہ تھا پر کوئی بات نہیں۔ جان تو آنی جانی چیز ہے اصل مسئلہ مفت ٹکٹ کا ہوتا ہے اور پھر موت تو برحق ہے، اس ٹکٹ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا جا سکتا۔

لاہور ایئرپورٹ والے بسوں میں ہمیں سامان کی طرح لادے ابھی طیارے سے دور ہی تھے کہ بہادری اور جواں مردی کے اس غبارے سے ہوا نکلنے لگی جسے میں نے مفتے کا فولادی شربت پلایا تھا۔ افوہ۔ کیسے کیسے بہانے دل کو ستانے لگے، اخباروں کے سب تراشے جن میں دسمبر 2016 میں پیش آنے والے چترال حادثے کی تفصیل تھیں، بارہا یاد آئے۔ کئی بار سوچا کہ جیسے ہی یہ بس رکے واپس بھاگ لو ایسی بھی کیا کاہلی آخر اسلام آباد لاہور سے دور ہی کتنا ہے اور پھر غالب خستہ کہ بغیر کونسے کام بند ہیں۔ سکون سے جائے۔ یہ سوچنے کی دیر تھی کہ ایک فربہ خاتون کی کہنی میری کمر میں ایسے پیوست ہوئی کہ جب ہوش آیا تو بورڈنگ پاس چیک ہو رہے تھے۔

آے ٹی آر کو دیکھ کر میرے دل پر کیا کیا نہیں گزرتی۔ آنکھوں کا دھوکا معلوم ہوتا ہے جیسے مسافر گلیور ہیں اور یہ بونوں کی دنیا کا کھلونا جہاز۔ پر زیادہ افسانوی باتیں سوچنے کا وقت نہیں ملا۔ چار و نا چار چھے سات سیڑھیوں پر خود کو گھسیٹا۔ سر بچاتے، ہانپتے کانپتے اپنی نشست پر جم گئے۔ جب طیارہ زمین پر رینگ رینگ کر اکتا گیا تو اس نے ایک عجیب بھیانک سے حرکت کی۔ میرا خیال ہے ہم ٹیک آف کر چکے تھے۔ نیچے تو انسان تب دیکھے جب حواس قابو میں ہوں۔ میں نے تو آنکھیں بھینچ رکھی تھیں۔ اور اتنی زور سے نشست کے دستے کو دبوچ رکھا تھا جیسے اگر اس بھری دنیا میں میرا اپنا کوئی سہارا ہے تو وہ یہی دستہ ہے۔ جہاز نما سنبھلا تو نظر گھمائی واہ بھئی کیا تربوز کی قاش پر سفر ہو رہا تھا۔ ڈول تو ایسے رہا تھا جیسے پانی میں کشتی پر پی آئی اے کا اصرار تھا کہ اس چیز کو ہوائی جہاز لکھا اور پکارا جائے۔ سو مان لیا۔ ایک مہربان ہوائی میزبان مجھ سے شاید پوچھ رہی تھی کہ کیا پیجیے گا۔ یعنی کیسا مہمل سوال تھا یہ؟ اس کا جواب میں کیا دیتی۔

جہاز نما تو اچانک کپڑے سکھانے والی تار کی طرح جھولنے لگا۔ اوہ ہو، لو بھئی۔ لمحے بھر میں سالہا سال کے گناہ فلم ریل کی طرح ری پلے ہونے لگے۔ مجھے یقین تھا کہ ہو نہ ہو یہ سب اپنی ملازمہ کو پچھلے ہفتے دو دن کی چھٹی دیتے ہوئے چخ چخ کرنے کا نتیجہ ہے۔ ہائے ہائے اور اگر مہر کو فورا ادھار دے دیتی تو بھی بچت ہو سکتی تھی۔ ایسے ہی تو نہیں کہتے لالچ کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ مفت کے ٹکٹ کا لالچ جان لینے پر اتارو تھا۔ پر اہ! گیتی آرا تم باز نہ آئیں۔ سوچا پر لالچ کیسا۔ یہ تو قومی عادت ہے بھئی۔ مفت مال جو بھی آئے اچھا ہے۔ فلائٹ سیروں خون سکھا کر کچھ دیر میں سنبھل گئی۔ آدھ گھنٹے بعد ڈگمگاتے ہوئے ہم لینڈ بھی کر گئے۔ ننھے منے زینے لگائے گئے۔ اور ہم اسلام آبار کے ہوائی اڈے پر لہراتے ہوئے سالم اتر آئے، پر یہ بات ذہن سے محو نہیں ہوتی کہ میرے گھر والوں اور اساتذہ کی ثابت قدمی اور عظیم قوت برداشت کے تنیجے میں مجھے کچھ تعلیمی اسناد اور سرٹفیکیٹ دیے گئے تھے جن کی بدولت تکنیکی طور پر میرا شمار پاکستان کے با شعور افراد میں ہوتا ہے (قاریئن کا اس سے متفق ہونا لازم نہیں ) پھر بھی اپنی ذاتی ناپسندیدگی کو پس پشت ڈالتے ہوئے مفت آئے ٹکٹ کا مزہ لینے چلی آئی۔

ذہن یونہی بھٹکتا ہوا جانے کیسے جنوبی پنجاب کے اجاڑ بیابانوں کی جانب جا نکلا جہاں گرمی اور غربت کے سائے بہت لمبے ہیں۔ وہاں جھلستی دوپہروں میں آتا جاتا ایک آدھ ٹرک ہی زندگی کے بوجھل پہیے میں ہلکی سی جنبش ہیدا کرتا ہے۔ پہیوں سے اڑنے والی دھول بھی یہاں زمین بوس ہونے میں کئی گھنٹے لگاتی ہے۔ اس بے کیف فضا سے اکتائے احمد پور شرقیہ والے بھی کیا کرتے میری طرح قومی عادت سے مجبور۔ ۔ آخر تو تیل بھی مفت کا ہی تھا نا!

گیتی آراء انیس
Latest posts by گیتی آراء انیس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).