گھر بیٹھے دولت کمانے سے ملک میں غربت پھیلتی ہے


دھابیجی کے نزدیک 1996 میں 12 ایکڑ زرعی زمین فروخت ہو رہی تھی ۔ جس شخص کی یہ زمین تھی وہ بہت مقروض ہو چکا تھا ۔ اور جب دس ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے میں نے اس کو ادائیگی کی تو اس کے سارے قرض خواہ وہیں موجود تھے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام رقم قرض خواہوں میں تقسیم کرنے کے بعد بھی ایک قرض خواہ رہ گیا اور جھگڑا کرنے لگا۔ اس کی واجب الادا رقم اپنے پاس سے ادا کرکے میں نے یہ جھگڑا ختم کرایا۔ زمین فروخت کرنے والا خالی ہاتھ واپس چلا گیا۔ میں نے مچھلیوں کے دو فارم اس زمین پر بنائے جو میری عدم توجہ کے باعث ختم ہو گئے۔ اس کے بعد سے وہ زمین خالی پڑی ہے۔

چار سال قبل مجھے اس زمین کی آفر تین لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے ہوئی تھی۔ میں انتظار کر رہا ہوں کہ coastal Highway  جو میری زمین کے اوپر سے ہو کر گزر رہی ہے مکمل ہوجائے تو اس زمین کی قیمت آٹھ دس لاکھ روپے فی ایکڑ ہو جائے گی۔

یہی ماجرا ڈیفینس کے فیز 4 میں میری بیوی کے فلیٹ کا ہے۔ کچھ اپنی رقم اور باقی بینک کے قرض سے 1996 میں ساڑھے چھ لاکھ میں خریدے گئے اس دو بیڈ روم کے فلیٹ کی آفر اسی لاکھ کی ہے۔ میں نے اس فلیٹ میں کو ئی اضافہ نہیں کرایا بلکہ بغیر کوئی کرایہ ادا کئے ہوئے میں اب بھی وہاں رہ رہا ہوں۔ میرے فلیٹ کے قریب ہی ایک زمانے میں بشیر بھائی کی لانڈری تھی۔ بشیر بھائی نیو کراچی سے اپنی 50 CC کی موٹر سائیکل پر صبح سویرے آتے تھے اور رات دیر گئے واپس جاتے تھے۔ ان کی خوش اخلاقی دیانت اور محنت کے باعث علاقے کے لوگوں ایک بڑی تعداد ان ہی کی لانڈری سے کپڑے دھلواتی تھی۔ ایک دن بشیر بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ لانڈری بند کر رہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتا یا کہ دکان کے مالک نے کرایہ پچیس ہزار سے بڑھا کر چالیس ہزار کردیا تھا۔ تین چار ماہ انہوں نے کرایہ ادا کیا اب وہ اتنا کرا یہ ادا نہیں کر سکتے۔

ایک اوردوست اسٹاک ایکسچنج میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ان کے گھر گیا تو بتانے لگے کہ اس دن انہوں نے سوا دو کروڑ کما لئے تھے۔وہ اس دن گھر کے باہر سڑک تک تو گئے نہیں تھے، بس ان کے حصص کی قیمت میں اضافہ ہوگیا اور سوا دو کروڑ کی مزید رقم ہاتھ میں آگئی۔

شاید ہماری معیشت کا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کاشتکار ہوں، لانڈری والے ہوں یا کوئی اور ہو ں جو محنت سے کام کر رہے ہیں وہ مقروض ہیں اور کام چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ وہ جو کچھ نہیں کر رہے لیکن جن کے پاس سرمایہ ہے وہ گھر بیٹھے غیر پیداواری اثاثوں میں سرمایہ کاری کرکے کثیر منافع کما رہے ہیں۔ مارکٹ اکانومی کی مالا جپنے والے مارکٹ کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ پرانی منطق یہ دی جاتی تھی کہ مارکٹ میں مقابلہ ہوتا ہے۔ اور اس مقابلے کی وجہ سے اشیا کی کوالٹی بہتر سے بہتر اور قیمت کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ لیکن ایسا شاید اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں اشیا کی پیداوار کی جا رہی ہو اور ان اشیا کو بازار میں لایا جا رہا ہو۔ اگر پیداواری عمل رکا ہوا ہوگا۔ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ہوگی اور سرمایہ غیر پیداواری اثاثو ں میں لگا یا جارہا ہوگا تو مقابلہ صرف اس بات کا رہ جائے گا کہ کہاں پیسہ لگانے سے کتنی اونچی شرح سے اور کتنی جلد منافع کمایا جاسکتا ہے۔ اور پیسے والوں کے درمیان یہ مقابلہ صرف اور صرف ان غیر پیداواری اثاثوں کی قیمتیں تیزی سے بڑھائے گا۔

اگر ایک شخص کے پاس دس کروڑ روپے ہیں تو وہ آخر ان میں سے کتنی رقم اپنے اور اپنے گھر والوں کے اوپر خرچ کرسکتا ہے۔ یہی دس کروڑ اگر دس ہزار افراد میں تقسیم ہوتے ہیں تو ان دس ہزار میں سے ہر ایک شخص اپنے حصے کی رقم سے اپنی ضرورت کی اشیا خریدے گا۔ اشیا کی طلب بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ان اشیا کی پیداواربڑھے گی، اور اس اضافی پیداوار کی تیاری کے پیداواری عمل میں ہزاروں مواقع روزگار پیدا ہوں گے اور ملکی پیداوار اور مواقع روزگار میں اضافے کا سلسلہ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ سیدھی سادی منطق ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن بغیر کام کئے زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کرنے کی بیماری نے ہماری سوچ اور ہمارے اذہان کو ماؤف کر رکھا ہے۔ ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور غریب کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

کون صنعتوں میں پیسہ لگائے؟ کون زمین پر ٹریکٹر چلائے؟ کون پروڈکشن کے جھمیلوں میں پڑے، مزدوروں کی یونینوں سے سر کھپائے۔ بارہ بارہ گھنٹے کام کرے۔ آرام سے پلاٹ، دکانیں اور فلیٹ خریدو۔ شئیر مارکٹ میں پیسے لگاؤ اور گھر بیٹھے کہیں زیادہ منافع کماتے رہو۔ صنعتیں وغیرہ لگانے کی بیوقوفیاں چالیس پچاس سال پہلے ہوتی تھیں۔ اب صنعتیں بند ہیں۔ ہم بھی آرام سے ہیں اور بینک جن کا پیسہ صنعت لگانے میں لگا تھا وہ بھی آرام سے ہیں کیونکہ صنعت لگانے کے لئے کوڑیوں کے مول لی گئی زمین کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آبادی بے تحاشہ بڑھ رہی ہے۔ ایک دن اس زمین کے اوپر بھی رہائشی پلاٹ بنا کر کروڑوں کما لئے جائیں گے۔

معاشیات کی اصطلاح میں گھر بیٹھے بغیر محنت کئے پیسے کمائے جانے کے عمل کو RENT INCOME کہا جاتا ہے۔ آج ملکی اشرافیہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کی آمدنی کا غالب حصہ Rent Income پر مشتمل نہ ہو۔ اور یہ ایسی آمدنی ہے جس کا اکاؤنٹ رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں نہ اس پر انکم ٹیکس لگتا ہے اور نہ ویلتھ ٹیکس لگتا ہے۔ لہذا یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ہمارے ملک میں اشرافیہ کا جو کچھ بھی سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے سے بچ جاتا ہے اس کا بہت بڑا حصہ ان غیر پیداواری اثاثوں کی خریداری کی جانب منتقل ہوجاتا ہے اور گھر بیٹھے منافع کمانے کی بڑھتی ہوئی اس دوڑ کی وجہ سے ان غیر پیداواری اثاثوں کی’مارکٹ ویلیو‘ میں شب و روز اضافہ ہوتا جا تا ہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے شاید 1990 ہوگا یا ایک دوسال آگے پیچھے PIDC کے ملازمین کا ایک وفد مجھ سے ملنے آیا تھا۔ ان کو خطرہ تھا کہ ان کو ملازمتوں سے الگ کردیا جائے گا کیونکہ ان کی ضرورت اب نہیں رہی تھی۔ اپنی ملازمتیں بچانے کے لئے ان کی دلیل یہ تھی کہ کراچی میں PIDC HOUSE سے اتنا کرایہ وصول ہوجاتا ہے جس میں آرام سے ان سب کی تنخواہیں نکل سکتی تھیں۔ PIDC نے ایک زمانے میں پورے ملک میں نئی صنعتوں کا جال بچھایا تھا۔ مجھ سے ملا قات کرنے والے اس وفد میں بھی انجنئیر، اکاؤنٹنٹ، مینیجر اور اپنے اپنے شعبوں میں اعلی صلاحیتیں رکھنے والے لوگ موجودتھے جنہوں نے ان صنعتوں کوقائم کرنے اور ان کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ مجھے ان کی یہ دلیل کہ PIDC HOUSE کے کرائے سے ان کی تنخواہیں نکل سکتی تھیں سن کر افسوس ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ میرے نزدیک کسی بھی قابل اور با صلاحیت فرد کے لئے کام کئے بغیر کرائے کی آمدنی سے تنخواہ لینا قابل شرم بات تھی۔ اور کیوں نہ ہم PIDC کی بند صنعتوں کو ایک بار پھر سے چلا نے کی سوچیں۔ وفد نے مجھے بتایا کہ نہ صرف بند صنعتیں چلائی جا سکتی تھیں بلکہ PIDC کے پاس اس وقت 57 کی تعداد میں Feasibility Studies پڑی ہوئی تھیں اور محفوظ سرمایہ بھی موجود تھا اور بڑے آرام سے نئی صنعتیں بھی لگائی جا سکتی تھیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نئے بجلی گھر تعمیر ہوچکے تھے اور بی بی صاحبہ شہید کی ہدایت پر پانچ یا چھ بند صنعتوں کو از سر نو چلا یا بھی گیا تھا۔ لیکن پھر الزامات لگنے لگے کہ بجلی گھر کیوں بنائے گئے۔ ملک میں بجلی کی پیداوار ہماری ضرورتوں سے زیادہ ہے۔ بی بی صاحبہ شہید کی حکومت بھی برطرف کردی گئی۔ جو صنعتیں چلی تھیں وہ بھی بند ہوئیں۔ باصلاحیت افراد گھر بیٹھ گئے۔ نجکاری ہوئی اور نجکاری کی جانے والی دو چار صنعتوں اور بینکوں کے علاوہ تمام کی تمام پیداواری یونٹیں بند ہو گئیں اس لئے کہ سرکاری شعبہ میں پیداواری یونٹوں کا چلانا مارکٹ اکانومی کی شریعت میں حرام ہے۔ بغیر کوئی کام کئے منافع پر منافع کمائے جانا مارکٹ اکانومی کی شریعت میں حلال ہے۔ بلکہ اس نئی شریعت میں ہر وہ کام حلال ہے جس میں منافع ہوتا ہو اور ہر وہ کام حرام ہے جس میں نقصان کا اندیشہ ہو۔ اس وقت PIDC نہ صنعتیں لگا رہی ہے، نہ کسی پرانی صنعت کو چلا رہی ہے۔ وہ صرف صنعتی علاقے بنا رہی ہے اس امید میں کہ کسی دن نجی شعبے کا کوئی سرمایہ کار وہاں آن کر کوئی صنعت لگا لے گا۔

یہ بات نہیں ہے کہ ان کے بنائے ہوئے صنعتی پلاٹ کوئی نہیں خرید رہا۔ سوال یہ ہے کہ ان پلاٹوں پر صنعتیں لگی بھی ہیں یا نہیں لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتی پلاٹ بھی صرف اس مقصد سے خریدے جا رہے ہیں کہ آگے چل کر ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضا فہ ہوجاتا ہے۔ ایسی بھی مثالیں عام ہیں کہ صنعتی پلاٹ کئی کئی بار مختلف لوگوں میں فروخت ہوتا رہا اور صنعت اس پر لگی نہیں۔ اور آخر اگر صنعتی پلاٹ بھی کروڑوں میں خریدا جائے گا تو پھر عمارت اور مشینری لگانے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا ؟ اور ایک ملک جس میں غالب رحجان RENT INCOME سے پیسے کمانے کا ہے وہاں آخر صنعت کاری کیسے ہوگی ؟

ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے اور جلد کرنے ہوں گے کیونکہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ RENT INCOME بھی آخر انکم تو ہے نا۔ اس بات کا کیا جواز ہے کہ اس پر اس شرح سے انکم ٹیکس نہ لیا جائے جتنا محنت سے کمائے ہوئے پیسے پر لیا جاتا ہے؟ جب میں 2 فیصد ویلتھ ٹیکس لگانے کی بات کرتا ہوں تو مجھ سے کہا جاتا ہے کہ ’ تاج بھائی کیا ظلم کر رہے ہو؟ کیا میں اپنے بیس کروڑ کے assets پر ہر سال چالیس لاکھ ویلتھ ٹیکس ادا کروں گا؟ کہنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ ہر سال بغیر کام کئے ہوئے اس کے assets کی ویلیو میں پانچ چھ کروڑ کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے پاس ٹیکس جمع کرنے کا ایک آسان نسخہ ہے۔ اگر کوئی اپنے موبائل فون میں ایک سو روپے کا بیلنس ڈلوا رہا ہے تو پچیس روپے اس کی جیب سے نکال لو۔ موٹر سائیکل میں اگر کوئی دو یا تین لیٹر پٹرول ڈلوا رہا ہے یا بس کی چھت پر بیٹھ کر اگر کو ئی روزی کمانے نکلا ہے تو اس سے بھی ٹیکس لو۔ دہشت گردی میں اگر کوئی شہید ہوتا ہے تو اس کے گھر والوں سے اس کے کفن کے کپڑے پر بھی سیلز ٹیکس وصول کرو۔ میں بالکل یہ تسلیم کرتا ہوں کہRENT INCOME  پر عام شرح سے ٹیکسوں کی وصولی سے RENT INCOME میں تیزی سے اضافے کی شرح کم ہوجائے گی اور ہماری معیشت کے بقراط اس کو سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی سے تعبیر کریں گے۔ RENT INCOME  میں کمی ہوتی ہے تو ہوجائے۔ میں بھی تو یہ چاہتا ہوں کہ سرمایہ غیر پیداواری اثاثوں کی جانب نہ جائے اور پیداواری شعبوں میں لگا یا جائے۔

جبکہ فیصلے اتنے سیدھے سادے، منطقی اور منصفانہ ہوں تو فیصلوں میں تاخیر ہمارے مسائل میں تیزی سے اضافے کا سبب بنے گی۔ محنت کشوں کے لئے مواقع روزگار پیدا کرنا اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنا ریاست کی ذمہ داری جس سے پہلو تہی نہیں کی جا سکتی۔ سندھ حکومت نے نہ صرف سماجی شعبوں میں بلکہ کان کنی اور بجلی کی پیداوار کے شعبوں میں نجی شعبے کے ساتھ مل کر سرمایہ کاری کرنے کی ابتدا کی ہے۔ سندھ بینک سو فیصد سندھ حکومت کی ملکیت ہے۔ نوکر شاہی کی بھرپور مخالفت اور تاخیری حربوں کے باوجود سندھ حکومت کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینے کے ان اقدامات کے مثبت نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ لیکن ہمیں صنعتی اور کان کنی کی پیداوار بڑھانے اور محنت کشوں کے لئے مواقع روزگار پیدا کرنے کے لئے ایک قدم اور آگے جانا ہوگا۔ جنرل ضیا کی آمد سے پہلے ہم سرکاری شعبے میں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ ہم نے بے مثال صنعتی منصوبے ملک میں لگائے تھے جن سے نہ صرف محنت کشوں کو بے شمار مواقع روزگار ملے تھے اور ان کی صلا حیتوں کو فروغ ملا تھا بلکہ کیونکہ سرکاری شعبے کے ادارے واجب الادا ٹیکس کی ایمانداری کے ساتھ ادائیگی کرتے ہیں حکومت کے ریونیو اور ٹیکس اورGDP کے تناسب میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔ بینکاری کی صنعت بینکوں کو قومی ملکیت میں لینے کے بعد ملک کے کونے کونے میں پہنچی۔ درمیانہ طبقہ صرف بینکوں مین اپنی بچت ڈپازٹ کیا کرتا تھا۔ اب درمیانہ طبقے کی رسائی بینک کے قرضوں تک ہوئی۔ ہزاروں لوگوں کہ براہ راست روزگار ملا اور بینکاری جیسے اہم شعبے میں ان کی اعلی تربیت ہوئی۔

ملک میں پیداوار، ریونیو اور برآمدات کا موجودہ بحران اس غلط معاشی نظریے کا نتیجہ ہے کہ صرف نجی شعبہ ہی ملکی معیشت کو درست کرسکتا ہے۔ ہم سرکاری شعبے کے کامیاب ماڈل کو بھی دیکھ چکے ہیں اور نجی شعبے کی اور نجکاری کی بھیانک ناکامی بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہمیں اپنی کامیابیوں سے سیکھتے ہوئے اور ان میں پائی جانے والی کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر سرکاری شعبے میں صنعتکاری کرنی ہوگی۔

نجی شعبے کی بند صنعتیں ہماری معیشت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ ان میں بینکوں کا اور نجی سرمایہ لگا ہوا ہے۔ ان کی تعمیر صنعتی پلاٹوں پر ہوئی ہے۔ مشینری ضرور ناکا رہ ہوچکی ہوگی لیکن بلڈنگیں اپنی جگہ موجود ہیں۔ بہت بڑی افرادی قوت ہے جو ان صنعتوں میں کام کرتی تھی اور جو اب بیکار بیٹھی ہے۔ ہم ان کی قانونی حیثیت پر بات کرتے رہتے ہیں کہ کیوں ان کی بحالی کے لئے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ قانون عوام کی منتخب اسمبلیاں بنا تی ہیں اور قانون بنانے کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ضرورت ہے کہ باہمی مشورے سے تمام حصہ داروں کے جائز مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایسی قانون سازی کی جائے جس کے ذریعے ریاست خود ایک حصہ دار بن کر ان کو پھر سے چلانے یا انہی کی جگہ پر جدید پلانٹ لگا کر نئی صنعتیں قائم کرسکے۔

ہم صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے بہت سی سہولیات سرمایہ کاروں کو دیتے ہیں جن میں سر فہرست انکم ٹیکس سے چھوٹ کی سہولت ہوتی ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر یہ سہولت ناجائز اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے استعمال کی گئی ہے۔ نجی شعبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے میرے مطابق یہ انتہائی ضروری ہے کہ صنعتوں کو قائم کرنے کے اخراجات میں کمی کی جائے اور صنعتی قرضے حاصل کرنے کے لئے مخصوص بینک جو کہ پہلے PICIC اور IDBP کی شکل میں موجود تھے ایک بار پھر تشکیل دئے جائیں۔

اللہ نے ہمیں اتنی زمین دی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ کسی بھی صنعت کو قائم کرنے کے لئے سرمایہ کار کو مہنگی زمین کیوں خریدنی پڑتی ہے۔ کیا ہم اس قسم کی پالیسی نہیں بنا سکتے کہ اس شرط پر کہ صنعت دئے گئے وقت کے اندر اندر کام کرنا شروع کرے گی، 500 سے زیادہ ملازمتیں دینے والے صنعتی ادارے کو زمین مفت یا 300 ملازمتیں دینے والے صنعتی یونٹ کو زمین آدھی قیمت پر دی جائے۔ اور اگر یہ ابتدائی سہولت اورصنعت کے قیام کے اخراجات کم کرنے کے مقصد سے دوسری سہولتوں کے دینے کے بعد کو ئی بھی یونٹ منافع کماتی ہے جو کہ وہ یقیناًکمائے گی۔ تو اس منافع پر حکومت ٹیکس کیوں نہ لے اور اس منافع میں اس یونٹ کے شئیر ہولڈروں کا حصہ کیوں نہ ہو؟

جی ہاں میں ایک بار پھر کہوں گا کہ سر جوڑ کر باہمی مشورے سے فیصلے ہمیں کرنے ہیں اور جلد کرنے ہیں۔ مشکل شاید یہ ہے کہ پے در پے تجربات کرنے اور ان میں ناکام ہونے اور درست حل کو زبانی طور پر تسلیم کرنے کے باوجود ہم پر جمود طاری ہے اور قلیل مدت کے ذاتی مفادات کی پیروی نے ہم سے عمل کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).