سرتاج عزیز اور پاکستان کو لاحق خطرات


\"Sartaj\"پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ نے دہشت گردی کو ملک کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک اور عسکری توازن ہے۔ واشنگٹن میں سوالوں کا جواب دیتے ہوئے سرتاج عزیز نے امریکی وزیر خارجہ کی یہ تجویز بھی مسترد کردی کہ پاکستان کو اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی کرنی چاہئے۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت کی طرف سے اس قسم کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہی پاکستان کوئی فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ پاکستان جلد ہی دہشت گردی پر قابو پالے گا لیکن بھارت کے ساتھ معاملات پیچیدہ اور مشکل ہیں۔ سرتاج عزیز امریکہ کے ساتھ چھٹے اسٹرٹیجک مذاکرات کے لئے واشنگٹن گئے ہوئے ہیں۔ دونوں ملک ابھی تک ان مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔

حالیہ اسٹرٹیجک مذاکرات کے دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے امریکہ اور روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں میں کمی کی مثال دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اسے بھی جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ محدود کرلینا چاہئے۔پاکستان نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ملک ہے اور اس کی اس حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ ڈیفنس رائیٹرز کے فورم پر گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے دہشت گردی کو ملک کا اندرونی مسئلہ قرار دے کر اس کی اہمیت اور شدت کو کم کرنے کی کوشش کی اور بھارت کے ساتھ تصادم اور مقابلے بازی کی صورت حال کو سب سے بڑا مسئلہ بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو بھارت کی طرف سے پاکستان کو لاحق خطرہ کا ادراک کرنا چاہئے اور ہر معاملہ میں پاکستان پر الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔

مشیر خارجہ امور کا یہ بیان پاکستان کی اس واضح پالیسی کا حصہ ہے کہ عسکری سطح پر بھارت کا مقابلہ کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے۔ اسی لئے وہ ہتھیاروں کی خریداری میں بھی بھارت کا مقابلہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ پاکستان عام طور سے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس وقت اس کے جوہری ہتھیاروں کی کیا تعداد ہے۔ لیکن عالمی ذرائع گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں تیزی سے چھوٹے نیو کلئیر وار ہیڈ بنانے والا ملک قرار دے رہے ہیں۔ ان ذرائع کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت ایک سو سے زیاد ہ جوہری ہتھیار ہیں۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ پاکستان واضح پالیسی اختیار کرے اور اپنے جوہری پروگرام کے حجم اور ضرورت کے بارے میں رائے عامہ کو آگاہ کرے۔ پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربے کے بعد ڈیٹرنٹ Deterrent کے طور پر جوہری ہتھیار بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس حد تک پاکستان کے خوف کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ لیکن پاکستانی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اسے اس مقصد اور بھارت کا خطرہ ٹالنے کے لئے لاتعداد جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہے ، بے بنیاد خوف اور غلط اندازے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ملک کے مالی وسائل کے حجم اور دیگر شعبوں کی ضروریات پوری کرنے اور اقوام عالم میں اعتماد اور احترام حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اسی طرح مشیر خارجہ امور کا یہ بیان بھی گمراہ کن ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ اول تو اب اسے عالمی خطرہ قرار دیا جا رہا ہے اور پوری دنیا دہشت گرد گروہوں سے نبرد آزما ہے۔ دوسرے پاکستان کے دو اہم ہمسایہ ملکوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ تنازعات کی اہم وجہ یہی ہے کہ دہشت گرد پاک سرزمین استعمال کرتے ہوئے ان دونوں ملکوں میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ اسلام آباد کے دعوؤں کے باوجود ابھی تک یہ صورت حال پوری طرح تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ بھارت اور افغانستان بدستور اپنے ملکوں میں پراکسی عناصر کے ذریعے پاکستان کی مداخلت کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔

اب ان معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے کا وقت ہے۔ حکومت پاکستان کسی حد تک اس عزم کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اتنا سنگین مسئلہ بن چکا ہے کہ اب یہ عناصر ملک کے اسکولوں اور تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے لگے ہیں۔ اس صورت میں اسے اندرونی مسئلہ قرار دے کر پاکستان خود اپنے لئے ہی مسائل پیدا کرے گا۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو ان عناصر کے دوسرے ملکوں میں روابط کو ختم کرنا ہو گا۔ اور یہ بیرونی دنیا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ امن کا قیام ہے۔ پاکستان دہشت گردی سے پاک ہوجائے تو بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنا بھی آسان ہوجائے گا اور اس خطرہ سے بھی نجات حاصل ہو سکے گی۔ اس کے برعکس پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی میں پاکستان نہ ہمسایہ ملکوں سے امن قائم کرسکے گا اور نہ ہی عالمی فورمز پر اس کا اعتبار بحال ہو سکے گا۔ بلاشبہ پاکستان کا سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج دہشت گردی ہے۔ اسی لئے پاک فوج اپنی تمام تر صلاحیتیں اس خطرہ سے نمٹنے پر صرف کررہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments