ممتاز قادری اور ہم سب


\"siftain_khan\"ممتاز قادری اور ہم سب ایک شخص کتنوں کے چہروں سے نقاب الٹ گیا۔ کیا لبرلز کیا مذھب پسند ، کیا پڑھے لکھے کیا ان پڑھ ، کیا شہری کیا دیہاتی۔ سب اس حمام میں ننگے ۔ محبت کے نام پر تعصبات کو فروغ دینے والے ، برداشت کا درس دیتے لبرلز اس موت پر خوشیاں مناتے ہوئے ۔ مذھب کے بیوپاری ایک اور سوغات بیچتے ہوئے ۔ تضادات کے مارے ہوئے سطحیت کا شکار ۔ انتہاوں کے علمبردار ۔ لفظوں کی جنگ لڑتے کھوکھلے لوگ ۔ نہ مذھب کا شعور نہ سماج کی حرکیات سے واقفیت ۔ لگتا ہے ایسے انسان اللہ قوم کی اصلیت ظاہر کرنے کے لئے ہی پیدا کرتا ہے ۔ ایک طرف مذھبی عناصرایک ایسے شخص کو ہیرو بنانے پر بضد جس کے ہاتھ سے ماورائے عدالت جان تلف ہوئی ۔ روایات کو پس منظر اور سیاق و سباق سے کاٹ کر جذبات کو مہمیز کرنے والے۔ جنازے کی تعداد سے عظمت کشید کرنے والے ۔ \” شہید \” کو بھی غازی کا لقب عطا کرنے والے ۔ دوسری طرف عوام کی جہالت کا فائدہ اٹھانے والی اشرافیہ ۔ جو قانون کو بھی سیاسی و گروہی مفادات کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ پہلے مذھبی مافیا کو پیدا کرتی ہے اور پھر استعمال کرنے کے بعد پھینک دیتی ہے۔ عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلاتی ہے ۔ پھرمنافقت کی علامت سیاسی مذھبی رہنما جو ایک طرف شریعت کی بلندی کی تحریک چلاتے ہیں اور فقہی معاملات میں اپنے امام سے سرمو انحراف حرام سمجھتے ہیں لیکن اس معاملہ میں عوامی جذبات کے اسیر۔ زبان سے قانون کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دینے والے مگر ایسے معاملات میں عملی طور پر اس کی حوصلہ شکنی کے مرتکب ۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ جب آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں ایسے جذبات کا اظہار کریں گے تو آپ کس بیانیہ کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ سراج الحق صاحب اگر سید مودودی کو خلافت و ملوکیت لکھنے کی پاداش میں کوئی ممتاز قادری قتل کر دیتا تو کیا پھر بھی امیر جماعت صف اول میں ہوتا۔ یاد رکھیں لیڈر کا عمل اس کی زبان سے زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ سماج کو لاقانونیت سے قانون کی طرف ایسے موڑ پر ہی لایا جاتا ہے ۔ اقدار ایسے حالات میں ہی متعین کی جاتی ہیں ۔ قوموں کی سمت بدتہذیبی سے تہذیب کی طرف گامزن کی جاتی ہے ۔ اگر ایسے اہم ترین موقع پر آپ نے درست طرزعمل اختیار نہ کیا تو آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ اس معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو مذھبی جنون کی بدولت خاک کیا جاتا رپے ۔ کہیں سے تو آپ نے اس سفر کا آغاز کرنا ہے ۔ کبھی تو پہلا قدم اٹھانا ہے ۔ تو پھر آج کیوں نہیں ۔ ابھی سے کیوں نا ۔ جو لوگ اس واقعہ کے حوالے سے قانون شکنی کی مذمت کرنے والوں کے وجود کو محبت سے خالی قرار دینے میں مگن ہیں وہ ذہنی طور پر پسماندہ ہیں ۔ اللہ اور اللہ کے رسول سے زیادہ دین کے بارے میں غیرت مند۔ محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس وقت اللہ کے قانون کے ساتھ کھڑا ہوا جائے ۔ اس واقعہ کی اس لحاظ سے علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ مخصوص مذہبی مافیا کو ایک خاص پیغام دیا گیا ہےجو بہت ضروری تھا ۔ مگر یہ بھی ناگزیر تھا کہ سہولت کاروں کو بھی تنبیہ کی جاتی۔ قادری کی حسن نیت کا اجر اسے ضرور ملے گا مگر اس کے عمل سے برات کا اظہار بھی مسلمان کی حیثیت سے ضروری ہے تاکہ دنیا میں اسلام کا صحیح تصوراجاگر کیا جا سکے اور انارکی سے معاشرے کو بچایا جا سکے ۔ خوف کی فضا کو ختم کیا جا سکے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments