عمران خان غیر جمہوری قوتوں کیلئے راہ ہموار نہ کریں


پانامہ کیس اپنے منطقی انجام تک کیسے اور کب پہنچے گا اور اس کے قومی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے، یہ جلد ہی واضح ہوجائے گا لیکن اصل مسئلہ جمہوری اداروں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان کشمکش کا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر جمہوری حکمران سے خوش ہے اور حکمران اس کی ہر خواہش اور ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہے تو ملک میں بدعنوانی اور بری حکم رانی کا کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوتا۔ اگر جمہوری حکومت کسی معاملے میں عوام کی طرف سے حاصل ہونے والے مینڈیٹ کے تحت کوئی آزادانہ فیصلہ کرتی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کے کسی فیصلہ میں رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے تو پھر حکومت مخالف عناصر حرکت میں آجاتے ہیں اور احتساب کے نام پر تحریک پورے زور و شور سے شروع ہوجاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی میں جمہوری حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عسکری حکمران بھی ملوث رہے ہیں لیکن طاقت ور کے خلاف عدالت میں جانا تو دور کی بات ہے، اس کے خلاف کوئی آواز بلند کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ گزشتہ تمام حکومتیں اور بعض فوجی جرنیل مالی بدعنوانیوں اور اقربا پروری میں پوری طرح لتھڑے ہوئے تھے۔ موجودہ حکمران بھی اپنے تمام کل پرزوں کے ساتھ اس بہتی گنگا میں یکساں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ حکومت کی حلیف جماعتیں، خواہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہے یا قوم پرست پارٹیوں سے، سب اپنے اپنے حصے کا مال مختلف شکلوں میں وصول کرتی رہی ہیں لیکن عدالت کے کٹہرے میں شریف خاندان کو گھسیٹا جا رہا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے کیوں کہ ملک و قوم کے وسائل بے دردی سے لوٹنا بہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کے مرتکب ہر شخص کو سزا ملنی چاہئے لیکن محض کسی ایک شخص یا خاندان کے پیچھے اتنی قوت سے پڑنے کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ اس کے پیچھے یقیناً طاقت ور قوتوں کا ہاتھ ہے۔ ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت میں زرداری اور اس کے سیاسی حواریوں کے خلاف بدعنوانی کے کتنے قصے زبان زد خاص و عام تھے۔ اس وقت اگرچہ زرداری کو صدر کی حیثیت سے استثنا حاصل تھا، اس لیے جب وہ برسر اقتدار تھے تو ان کے خلاف کوئی بڑا عدالتی فیصلہ نہیں کیا جاسکا تھا لیکن اب جب کہ انھیں اس طرح کا کوئی استثنا حاصل نہیں ہے، کیا ان کی بدعنوانی کے خلاف بھی کوئی آواز اتنی جارحانہ انداز میں بلند ہوتی سنائی دے رہی ہے؟ اگر عمران خان یا ان کے حواریوں کو ملک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھیڑنا ہے اور کرپٹ سیاست دانوں کو سزا دلوانی ہے، تو انھیں صرف نواز شریف پر کیوں اکتفا کرنا پڑ رہا ہے؟ اس حمام میں تو بہت سے دوسرے لوگ بھی ننگے ہیں۔ کیا وہ سابق عسکری حکمرانوں اور بعض ریٹائرڈ جرنیلوں کی بدعنوانی کے خلاف اتنی ہی موثر آواز بلند کرسکتے ہیں؟ احتساب سب کا بلا امتیاز ہونا چاہئے۔ جس نے بھی قوم کا مال لوٹا ہے، اسے قانون کی آہنی گرفت میں لانا چاہئے۔

لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر جمہوری حکومت میں اس طرح کے مسائل کیوں کھڑے کیے جاتے ہیں؟ جمہوری حکمرانوں کے خلاف پارلیمان سے باہر دھرنے کیوں دئیے جاتے ہیں؟ انھیں آزادانہ طور پر کام کیوں نہیں کرنے دیا جاتا؟ کیا حکمرانوں کی پالیسیوں پر پارلیمان کے اندر بحث نہیں کی جاسکتی؟ اسمبلی کے فلور پر انھیں نہیں رگیدا جاسکتا؟ کیا منتخب وزیرا عظم کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پارلیمان کے ہر اجلاس میں باقاعدگی سے شرکت کریں اور وہ منتخب ایوان کو ہر معاملے میں جواب دہ ہو۔ وہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیں اور جمہوری رویوں کو پنپنے کا موقع دیں۔ جمہوری روایات کے قیام کے لیے اگرپارلیمان کے اندر جدوجہد کی جائے اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کا عمل وہاں سے شروع کیا جائے تو ملک کے بہت سے مسائل حل ہوں گے۔

یقیناً موجودہ حکمرانوں نے بد عنوانی کی ہوگی۔ ان پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے جو الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، ان میں ضرور حقیقت ہوگی لیکن جس انداز سے ان کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے، اس سے یقیناً غیر جمہوری قوتوں کو فائدہ پہنچنے کا امکان زیادہ ہے۔ غیر جمہوری قوتیں چاہتی بھی یہی ہیں کہ وطن عزیز میں کبھی بھی سیاسی استحکام پیدا نہ ہو۔ سیاست دان کبھی نیک نام نہ ہوں۔وہ عوام کی نظروں میں ہمیشہ بدعنوان اور نااہل سمجھے جائیں۔ ان پر ہمیشہ الزامات لگتے رہیں تاکہ اسٹیبلشمنٹ اس کی آڑ میں فوائد سمیٹتی رہے اور جب بھی اسے موقع ملے، جمہوریت پر شب خون مارتی رہے اور اگر ان کے لیے براہِ راست حکمرانی کے مواقع موجود نہ ہوں تو وہ پس پردہ جمہوری حکمرانوں کی کمزریوں کو اپنے بالواسطہ اقتدار کے لیے استعمال کرتی رہے۔ غیرجمہوری قوتیں نہایت پیشہ ورانہ انداز میں بڑی ہنرمندی کے ساتھ جمہوری اداروں کو عدم استحکام کا شکار بنائے رکھتی ہیں۔ وہ اس مقصد کے لیے حکومت سے محروم سیاست دانوں کو بھی استعمال کرتی ہیں اور باالواسطہ اور دانستہ طور پر انھیں بدعنوانیوں کے لیے محفوظ راستے بھی دیتی رہتی ہیں تاکہ سیاست دان ہمیشہ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف کوئی جائز آئینی اقدام بھی نہ اٹھا سکیں۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تیسری جمہوری حکومت اپنا دورانیہ مکمل کر رہی ہے اور اس عمل سے عوام میں سیاسی شعور کی پختگی بتدریج آ رہی ہے۔ انھیں اپنے ووٹ کی طاقت کا بھی اندازہ ہو رہا ہے اور انھیں اچھے اور برے سیاست دان کی پہچان بھی ہو رہی ہے۔ اگر وطن عزیز میں جمہوری اقدار کو فروغ مل رہا ہے اور جمہوری حکومتوں کے تسلسل کی وجہ سے کسی حد تک جمہوری ادارے مضبوطی کی طرف گامزن ہیں تو اس سے یقیناً غیرجمہوری قوتوں کو بے چینی ہو رہی ہے اور انھیں مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ جمہوریت کے اس تسلسل سے ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے تمام تر فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہوں گے۔ جب ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی جمہوری حکمران بنائیں گے۔ جب ملک کے وسیع ترقومی مفاد میں اہم فیصلے غیر جمہوری قوتیں نہیں بلکہ سیاست دان کریں گے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ پراکسی جنگوں کی بجائے امن و آشتی سے رہنے کے معاہدے کیے جائیں گے۔ اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ملک کو پرائی جنگوں میں نہیں دھکیلا جائے گا بلکہ عوام کو امن، ترقی، خوشحالی اور عزت و احترام دیا جائے گا۔ چیک پوسٹوں پر انھیں امن کے نام پر ذلیل نہیں کیا جائے گا۔ ہمیں موجودہ جمہوریت کے تسلسل کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانا چاہئے کہ اسی میں ملک کی بقا اور عوام کی خوشحالی کا راز مضمر ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں معاملات اس حد تک نہیں لے جانے چاہئیں جس سے غیر جمہوری قوتوں کو مداخلت کا موقع ہاتھ آسکے۔

عمران خان کو صوبہ خیبر پختون خوا میں حکومت مل چکی ہے لیکن انھوں نے صوبے کے عوام کے مینڈیٹ کا کوئی احترام نہیں کیا ہے۔ انھوں نے اپنا سارا وقت بلا مقصد دھرنوں، الزام تراشیوں اور کھوکھلے نعروں میں ضائع کیا ہے۔ صوبہ خیبرپختون خوا میں جن تبدیلیوں کے وہ دعوے کرتے ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ جن چند ایک کاموں کا وہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں، ان کی پارٹی کی بجائے صوبے میں اگر کسی دوسری جماعت کی حکومت ہوتی تو شاید وہ اس سے بھی زیادہ کام کرتی۔ عمران خان نے تو عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ صوبہ خیبر پختون خوا کو ملک کے دوسرے صوبوں کے لیے ایک مثالی صوبہ بنائیں گے۔ وہ گڈ گورننس کی ایک مثال قائم کریں گے لیکن وہ تو اپنے دست یاب وسائل بھی عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال نہیں کرسکے ہیں۔ جن نام نہاد ترقیاتی کاموں کا وہ واویلا کرتے ہیں، وہ کسی بھی لحاظ سے غیرمعمولی نہیں ہیں بلکہ ان کی کارکردگی تو ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومتوں سے بھی گری ہوئی ہے۔ ان کے حامی اگر یہ کہتے ہیں کہ عمران خان کرپٹ نہیں ہیں تو ان کے کرپٹ نہ ہونے کا صوبہ خیبرپختون خوا اور اس کے عوام کو کیا فائدہ؟ انھوں نے اگر بدعنوانی نہیں کی ہے تو کوئی غیرمعمولی ترقیاتی کام بھی نہیں کیا ہے۔ شہباز شریف نے کرپشن کی ہوگی لیکن وہ اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں میں ہمہ وقت جتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے صوبے میں کام کر رہے ہیں اور وہ دکھائی بھی دے رہے ہیں۔

عمران خان اگر اپنا وقت بے مقصد دھرنوں اور الزام تراشیوں میں ضائع نہ کرتے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں واقعتا ترقیاتی کام کرتے، گڈ گورننس قائم کرتے، امن و امان پر توجہ دیتے اور صوبے کے ہر ضلع میں بڑے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے تو آج انھیں دھرنوں، احتجاجوں اور بلند بانگ نعروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ ان کی کارکردگی چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا اعلان کرتی۔ ان کے ترقیاتی منصوبے موجودہ حکمرانوں کے خلاف کڑے احتساب کا فریضہ انجام دیتے اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے انھیں پاناما لیکس کا سہارا نہ لینا پڑتا، انھیں اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنا نہ پڑتا۔ انھوں نے عوام کو نئے پاکستان کا خواب دکھایا تھا، ان کی سوئی امیدوں کو جگایا تھا لیکن افسوس انھوں نے ہی ان کے خواب بکھیر کر رکھ دئیے ہیں، ان کی امیدوں کو ایک بار پھر مایوسی میں بدل دیا ہے۔ آئندہ عام انتخابات میں معلوم نہیں وہ اپنے ان حواریوں کے ساتھ جنھوں نے کئی بار چڑھتے سورج کے ساتھ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی ہے، وہ کس نئے نعرے کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلائیں گے کیوں کہ گزشتہ انتخابات کے نعرے کے تحت نئے پاکستان کا خواب پورا کرنے میں تو وہ کامیاب ہرگز نہیں ہوسکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).