ریل کا پہلا اور آخری سفر


مجھے بچپن سے ریل گاڑی میں سفر کرنے کا بہت شوق تھا۔  کچھ روز قبل مجھے اپنے گھر جانا تھا تو میں نے اس شوق کو پورا کرنے کی خاطر ریل کا سفر کرنے کا ارادہ کر ہی لیا۔  میں بہت خوش اور پرجوش تھی۔  میرے ساتھ میری ایک دوست سعدیہ بھی میرے گھر جا رہی تھی تو اس کا بھی یہی حال تھا۔  پرجوش اور خوش۔  اس خوشی کے لمحات کو ہم سوشل میڈیا پر شیئر کرنا نہیں بھولے۔  ہم لوگ پورے ایڈونچر موڈ میں تھے۔  ہماری ساڑھے چار بجے کی سبک خرام ٹرین تھی۔  ہم دونوں ریلوے سٹیشن لاہور پہنچے۔ داخلی گیٹ پر ایک قلی نے اپنی خدمات کی پیشکش کی جس کو ہم نے منع کر دیا۔  ہمارے پاس کوئی سامان تو تھا نہیں۔  ہاں البتہ قلی کو دیکھ کر میں خوش بہت ہوئی کیونکہ اس سے پہلے میں نے آج تک فلموں میں ہی قلی دیکھے تھے۔  پھر ہم ایک بڑے ہال میں پہنچے جو کہ کھچا کھچ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔  ہم نے ٹکٹ کاونٹر پر پوچھا کہ بھائی سبک خرام کہاں کھڑی ہے۔  اس نے ہمیں بتایا کہ آپ پلیٹ فارم نمبر چار پر جائیں۔

 ہال میں لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔  میں بہت غور سے ان سب لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔  ان میں سے اکثریت کا تعلق مڈل اور لوئر کلاس سے تھا۔  میں نے سعدیہ سے کہا کہ اب ہمیں پلیٹ فارم نمبر چار پر جانا ہے۔  اصل سفر تو یہاں سے شروع ہوا۔  ہم نے تنگ سی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔  دو دفعہ تو میں گرتے گرتے بچی کیونکہ کچھ افراد کو سیڑھیاں اترنے کی کچھ زہادہ ہی جلدی تھی۔  خیر سیڑھیوں کے آگے ایک روش تھی جو کہ اس قدر خستہ حال تھی کہ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ اتنے لوگوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گی اور کبھی بھی گر سکتی ہے۔  اس پر پھیلے ہوئے بسکٹس اور ٹافیوں کے ریپرز، جگہ جگہ پر تھوک کے نشانات اس کے حسن میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔  اور بدبو کے ہوکوں سے فضا کافی معطر تھی۔  میرا تو سر چکرانے لگا۔  خیر ہم نے ہمت کر کے اس کو پار کیا اور پلیٹ فارم نمبر چار پر پہنچ گئے۔  پلیٹ فارم نمبر چار کا تو اپنا الگ ہی نظارہ تھا۔  ٹرین کی پٹڑی کم اور کوڑا دان زیادہ تھی۔  اس کی دیواریں پان کی تھوکوں سے لال تھیں۔  بچوں کے پیمپرز تک پٹڑی پر پڑے تھے۔  اس منظر کی ایک تصویر بھی شئیر کر رہی ہوںس تا کہ قارئین اس منظر کو دیکھنے سے محروم نہ رہ جائیں۔

 مسافروں کا ہجوم پلیٹ فارم نمبر چار کے فرش پر براجمان تھا جس کی وجہ سے آمدورفت کے راستے میں کچھ دقت پیش آ رہی تھی۔  میں نے بیٹھنے کے لیے کوئی بینچ دیکھا لیکن ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دی تو پھر ہم نے کھڑے رہنے میں ہی عافیت جانی۔  اس دن گرمی بھی کافی زیادہ تھی تو ایک پنکھا اتنے سارے لوگوں کے لیے ناکافی لگ رہا تھا۔  ہماری ٹرین کے آنے میں ابھی آدھا گنٹھہ تھا۔  ہم تو شوق کی خاطر کافی جلدی سٹیشن گئے تھے لیکن اب شوق کافی مہنگا پڑ رہا تھا۔  خیر اب ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔  میں نے سعدیہ سے کہا کہ ہیاں اتنی گندگی ہے، ناقص نظام ہے، کوئی سہولت نہیں ہے پھر بھی لوگ ٹرین سے سفر کر رہے ہیں۔  کیوں؟ اس نے کہا کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے اس کا کم کرایہ۔  کیونکہ یہ لوگ افورڈ نہیں کر سکتے مہنگی ٹرانسپورٹ کو۔

 ہمارے ملک میں بالخصوص لاہور میں انفراسٹرکچر پر کافی کام ہو رہا ہے۔  اورنج لائن ٹرین کی بجائے اگر اس ٹرین پر کچھ انویسٹمنٹ کی جاتی تو کتنے لوگ بالخصوص غریب عوام مستفید ہوتے۔  ہے نا؟ ہمارے سب حکمران کا ایک ہی دعوٰی ہے کہ ہم نے عوام کی بہتری کےلیے یہ پروجیکٹ کیا۔  وہ پروجیکٹ کیا۔  بھئی کونسا پروجیکٹ؟ اپنی واہ واہ کے لیے ہو رہے ہیں سارے پروجیکٹس۔  میری درخواست ہے سب حکمرانوں سے کہ ایک ایک چکر لگائیں ریلوے سٹیشن کا تو یقینًا آپ کبھی دوبارہ نہیں جانا چاہیں گے۔  یہ خستہ حال نظام صرف غریب عوام کے نصیب میں لکھا ہے۔

شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی اس نظام کی زبوں حالی پر کافی دکھی دکھائی دے رہے تھے۔  وہ یقینًا سوچ رہے ہوں گے کہ اس ملک کا خواب دیکھا تھا میں نے۔  اس کے لیے لاکھوں، کروڑوں افراد نے اپنی جانیں دیں جہاں لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔  میری درخواست ہے سب حکمرانوں سے کہ ایک نظر کرم اس طرف بھی۔  اور پاکستان کی عوام سے بھی التجا ہے کہ کچھ ہوش کے ناخن لیں۔  کیوں اپنے ملک کو خود بدصورت بنا رہے ہیں۔  کیا آپ لوگ اپنے گھروں میں بھی بچوں کے پیمپرز صحن میں ہا بیڈ رومز میں پھیںک دیتے ہیں؟ یقینًا ایسا نہیں کرتے ہوں گے۔  تو کیا پاکستان آپ کا گھر نہیں؟ اس ملک نے ہم سب کو آزاد فضا میں سانس لینے کی نعمت دی۔  خدارا کچھ قدر کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).