سیاسی لیڈروں کو عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے


یہ کربلا کے سانحے سے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے قیس سے کسی نے سوال کیا کہ تمہاری رائے میں یزید کو خلیفہ ہونا چاہیے یا حسین کو۔ عشق کے مارے مجنون نے آہ بھر کر جواب دیا کہ میری رائے میں تو خلیفہ لیلہٰ کو ہونا چاہیے۔ ہم بھی دور حاضر کے مجنوں ہیں جنہیں جے آئی ٹی کی جمع خرچ سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہمارا حساب تو دو جمع دو چار روٹیوں پر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر ہماری نظر یں کبھی رنگین سکرینوں کی تماشبینی سے علیحدہ ہوں تو ہم دل پر ہاتھ رکھ کر بڑی سہولت سے بتا سکتے ہیں کہ ہماری گلی کی نکڑ پر کھڑے انور پھل فروش کے لئے کرپشن کسی خلائی مخلوق کی زبان کا لفظ ہے یا محلے کے چوک میں اسلم مکینک کو پانامہ کے فیصلے سے زیادہ اپنی بوڑھی ماں کی صحت کی فکر ہے جس کے علاج کے لئے شاید اسے اپنے اعضاء تک بیچنے پڑ جائیں۔ یا محلے کے کسی کھلے میدان میں اپنے چار بچوں کی کُٹیا میں رہنے والے بابو مجید جو باہر بسنے والی پوش کالونی میں بڑی بڑی کوٹھیاں بناتا ہے اس کے لئے بد عنوانی کا لفظ چڑیا گھر کا کوئی جانور ہے۔ مگر اس کی بیوی محلے کے کئی گھروں کے برتن صاف کرتی ہے اور دونوں مل کر بھی زندگی کی بیل گاڑی کھینچ نہیں پا رہے۔ یا وہ بشیر ہاری احتساب کا کیا اچار ڈالتا ہو گا جس کے دن کسی سائیں کے کھیت میں اور رات کسی چارپائی کی قبر پر گزرتی ہے۔

نہیں صاحب نہیں باتوں سے جی تو بھر جاتا ہے پیٹ نہیں بھرتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر پانامہ کا ڈراپ سین ہو بھی جائے تو کیا عوام کی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا۔ ہماری ایک سیاسی جماعت کرپشن ختم کرنا چاہتی ہے۔ ایک آمریت ختم کرنا چاہتی ہے اور ایک لوڈ شیڈنگ۔ لیکن یہ سب کے سب مل کر عوام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو براہ راسست کیا پتہ کہ کرپشن کیا ہے؟ لوڈ شیڈنگ ختم ہو بھی جائے تو بجلی کا بل بھرنے کے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ زندگی ہمیں اتنی سی مہلت دیتی ہے کہ شام کو ٹی وی پر یہ دیکھیں کہ سیاسی رہنما آپس میں گتھم گتھا ہو کر ایسی گالیاں دیتے ہیں جو آپ کسی بھی چوک پر سن سکتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا سفر طے کرنے والوں کے پاس تو اتنی مہلت نہیں ہے کہ سکھ کا سانس لے سکیں۔ بظاہر یہ تماشا جو دیکھنے میں بڑا بھونڈا اور بد صورت نظر آتا ہے دراصل بیس کروڑ عوام کی توجہ کو ایک بے مقصد اور فضول لڑائی میں الجھانے کی نہایت گھناؤنی سازش ہے جس میں سیاسی پارٹیاں، ریاستی ادارے اور میڈیا کے تقریباً تمام گروپس شامل ہیں۔ اور اس ملک گیر سازش کا واحد مقصد یہ ہے کہ کہیں انور، اسلم، بابو مجید اور بشیر جیسے پاکستانی یہ نہ پہچان جائیں کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ نواز شریف جیسے رہنما کیوں بد عنوانی ختم کریں گے یا عام آدمی کے مسئلوں پر بات کریں گے؟ نہیں کر سکتے کیوں کہ اگر عام آدمی کے مسئلے ختم ہو گئے تو ان کی ملوں میں اسلم، انور اور بابو مجید اور بشیر کی جگہ کون کام کرے گا؟ بنی گالا میں رہنے والے عمران خان کو کیا پڑی کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے آسان راستے چھوڑ کر بیروزگاری، چھت کے حق یا صحت جیسی بنیادی ضروریات پر بات کرے۔ ادا سائیں کی پیپلز پارٹی اگر اسلم مکینک یا انور پھل فروش یا بابو مجید کے مسئلوں پر بات کرنے لگ گئی تو وڈیروں کی زمینوں پر ہاری اور مزارعے کہاں سے آئیں گے؟ اور رہی بات ریاستی اداروں کی تو وہ عوام کو باشعور کیوں ہونے دیں گے؟ کیونکہ ان کا تو سارا کھیل ہی کرپٹ چور اور بد عنوان رہنماؤں کو اقتدار میں لانے سے چلتا ہے تا کہ وہ ان راہنماؤں کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ اور ریاست کے اندر اپنی ایک علیحدہ ریاست چلا سکیں۔ اور جہاں تک میڈیا کی بات تو ان کا تو سارا کا سارا کاروبار ہی عوام کو اس طرح کے تماشوں میں الجھانے سے چلتا ہے۔

کرپشن کرپشن کا نعرہ لگاتے تمام سیاسی جماعتیں پانامہ کے میدان میں کود پڑی ہیں۔ جس میں سر فہرست پی ٹی آئی شامل ہے۔ اس پارٹی کے اجزائے مرکب کچھ یوں ہیں کہ ایک عدد ق لیگ کواین آر او اور نیب کی واشنگ مشین میں ڈالیں اس میں کپتان واشنگ پاؤڈر ڈال کر دو چار دھرنوں میں اچھی طرح ہلائیں اور پھر خاکی وردیوں کے ساتھ تار پر ڈال دیں۔ آنے والے دنوں میں یہ کپڑے آپ کو خوب بچائیں گے۔ ایک صاحب جنہیں کچھ عرصہ پہلے 10 فی صد کے نام سے جانا جاتا تھا بھٹو کی قبر پر لات مار مار کر اسے چوتھی بار زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ رہ گئی بات ن لیگ کے باورچی خانے کی تو اس میں موجود چمچوں، ڈونگوں، لوٹوں اور دیگر برتنوں کے لئے ایک علیحدہ کالم درکار ہے۔ ہمارے وہم و گمان سے دور کا سوال ہے کہ آخر یہ اتنے انمول اور نایاب آئٹم کس فیکٹری میں تیار ہوتے ہیں۔ کس دکان پر سجتے ہیں انہیں بیچتا کون ہے اور بناتا کون ہے۔ صاحب! چھوٹا منہ اور بڑی بات ریاست ماں ہے اور ماں سب جانتی ہے۔ اسے یہ گُر خوب آتا ہے کہ کس بچے کی کونسی کمزوری کو استعمال کر تے ہوئے اس سے کیا کام کروایا جائے اور وقت آنے پر باپ کے بوٹوں کے حوالے کیا جائے۔ اس بہتی گنگا میں چپو چلاتا میڈیا جس طرف چاہے ہماری کشتی کا منہ موڑ دیتا ہے۔ اور کشتی بھنور میں ہے کا اعلان ان کا مشہور نعرہ ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی ان کی نہیں سنتا۔

اگر تو سوال یہ ہے کہ یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا؟ تو جواب ہے کہ یہ ہمیشہ ایسے ہی چلے گا۔ اگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے مل کر کچھ بدل سکتے ہیں تو جواب ہے کہ نہیں بدل سکتے۔ ہاں اگر سوال یہ ہے کہ ان سارے مسائل کا کوئی حل ہے تو ہاں اس کا ایک جواب ہے۔ جواب یہ ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے انور، اسلم، بابو مجید اور بشیر کو آپس میں ملنا پڑے گا۔ آپس میں بیٹھ کر اپنے مسائل پر بات کرنا پڑے گی اور اپنے طریقہ زندگی سے بغاوت کرنی پڑے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).