گڈولی آنٹی یاد آتی ہیں


شاید میں چار برس کا تھا یا پھر پانچ کا۔ کوئٹہ کے نیچاری محلے میں رہنے والی ایک ہزارہ عورت نے مجھے دو بڑے سمندری سیپ دیے تھے۔ یقیناً میں اسے ’کیوٹ‘ لگا ہوں گا۔ مجھے اس کا نام یاد نہیں لیکن اسکے سرخ و سفید گول مٹول چہرے نے خود ہی اپنا نام گڈولی آنٹی رکھوا لیا ہو گا۔ آج تینتیس چونتیس برس بعد بس اتنا یاد ہے کہ گڈولی آنٹی ہر وقت مسکراتی رہتی تھیں۔

اسی محلے میں ایک منگول شکل کا نان بائی بھی تھا۔ کڑاکے کی سردی میں علی الصبح جب میں اس کے تندور پر گرما گرم نان لینے کپکپاتا ہوا پہنچتا تو وہ سب سے پہلے مجھے نان اتار کر دیتا۔ محلے میں رہنے والے کچھ ہزارہ بچوں کا خیال تھا کہ میں انکی طرح گول مٹول تو ہوں مگر رنگ کا سانولا ہوں جیسے ان کا پسندیدہ ہیرو ’بروس لی‘ چنانچہ میری شناخت کے لیے انہوں نے میرا نام بھی بچہ بروس لی رکھ دیا۔

آج کی طرح اس وقت بھی گول مٹول ہزارے باکسنگ، فٹ بال، کراٹے اور تن سازی کے دیوانے تھے۔ میری والدہ کی زیادہ تر سہیلیاں ہزارہ تھیں۔ اس بات کا کوئی مطلب ہی نہ تھا کہ ہزارہ شیعہ ہیں اور باقی لوگ سنی۔ بلکہ عاشورے کے جلوس میں پیاسے سوگواروں کو شربت پلانے میں سارا محلہ جٹ جاتا تھا۔ میرے والد بھی اس کام میں آگے آگے ہوتے۔ نام تو ان کا انوار الحق ہے مگر ہزارہ انہیں محبت سے انور علی پکارتے تھے۔

آج کی طرح اس زمانے میں بھی یہ جاننا مشکل نہیں تھا کہ کس علاقےمیں کتنے ہزارہ آباد ہیں۔ جن علاقوں کی گلیوں اور محلوں میں شام کو پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہو، صاف ستھری دوکانوں میں اشیاء سلیقے و ترتیب سے رکھی ہوں، شور و غل بہت کم ہو، ہریالی زیادہ ہو، چادر پوش خواتین اور بچے صبح کی چہل قدمی پر نکلے ہوئے ہوں تو سمجھ لیں کہ وہاں ہزارہ آبادی کی اکثریت ہے۔ یہ لوگ صحت و صفائی کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ دھوئیں سے بچنے کے لیے کسی گھر میں چوبی چولہے پر روٹی نہیں پکتی۔ صرف سالن تیار ہوتا ہے اور روٹی تندور سے خریدی جاتی ہے۔

جس طرح کراچی کے پارسیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر کسی کو سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنی ہے تو پارسی کے ہاتھ کی گاڑی سے بہتر کوئی سودا ممکن نہیں اسی طرح کوئٹہ میں آج بھی یہ راز سب جانتے ہیں کہ بیس برس پرانی موٹر سائیکل بھی ہزارے سے خریدنی چاہیے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ ہزارے کے رکشے میں سفر کرنا سب سے محفوظ اور بہتر ہے۔ نہ تو وہ اضافی کرایہ مانگتے ہیں اور نہ ہی آپ کا سامان گم ہوگا۔ اول تو وہ آپ کی بھولی ہوئی شے خود ہی ڈھونڈھ کر پہنچا دیں گے اور ایسا نہ ہوا تو اپنی ایسوسی ایشن کے دفتر میں جمع کرا دے گیں تاکہ آپ نشانی بتا کر لے جائیں۔

تعلیم اور تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت بھی۔ان دو ہتھیاروں کے بل پر پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہزارہ کمیونٹی آپ کو کاروبار سے لے کر ملازمت میں نمایاں دکھائی دے گی۔ آپ ناموں سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثلاً جنرل محمد موسیٰ جو ایک معمولی سپاہی سے ترقی کرتے کرتے پاکستان آرمی کے سربراہ بنے اور پینسٹھ کی جنگ میں فوجی قیادت کی۔

پاکستانی فضائیہ کی پہلی خاتون پائلٹ سائرہ بتول ہزارہ ہیں۔ آغا عباس وہ شخص ہے جس نے تازہ پھلوں کے جوس کو پاکستان میں پہلے پہل تجارتی بنیاد پر ’آغا جوس‘ کے نام سے کراچی میں متعارف کرایا۔ ابرار حسین باکسر ( ستارہِ امتیاز ) نے لاس اینجلس، سیول اور بارسلونا اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور بیجنگ کے ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا۔ مگر شائد ابرار حسین کے قاتل کو ابرار کی کامیابیوں کے بجائے صرف اس کا عقیدہ معلوم تھا۔ بھلا محسن چنگیزی کی شاعری اور خادم علی کی مصوری سے کون واقف نہیں؟

دو برس قبل جب میں کوئٹہ گیا اور بچپن کے ایک ہزارہ دوست سے ملا تو اس کی دو سالہ چینی گڑیا اپنے کھلونوں میں مست تھی۔ میں نے پوچھا کیا نام ہے میری گڑیا کا تو اس نے اٹک اٹک کر بتایا ب۔۔ب ۔۔بتول۔

اس سے پہلے کہ وہ میرا نام پوچھتی، میرے دوست نے کان میں سرگوشی کی اسے اپنا پورا نام مت بتانا ۔۔۔ڈر جاتی ہے۔

مجھے اس بحث میں فی الحال نہیں پڑنا کہ ہزارہ کمیونٹی ان دنوں کیوں اور کن جان لیوا حالات سے گزر رہی ہے لیکن مجھے جب بھی ان کے بارے میں کوئی ایسی ویسی خبر ملتی ہے تو لگتا ہے جیسے کسی نفسیاتی مریض نے کسی لڑکی کے چہرے کو تیزاب سے اس لیے جھلسا دیا ہو کہ وہ اتنی حسین کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).