صدر ایوب اور رابرٹ میکنمارا۔۔۔ معاشی جعل سازی کی شطرنج


امریکی صدر کینیڈی کے وزیر دفاع اور بعد از اں عالمی بینک کے صدر رابرٹ میکنمارا کو میں عرصے سے ایک بات بتانا چاہ رہا تھا لیکن ظاہر ہے کہ ان سے ملاقات کا کوئی موقع نہیں ملا تھا ۔ اتفاق کی بات کہ میں 1985 کے جاڑوں میں پاکستان ٹیلیویژن کی ٹیم کے ساتھ چینی ٹیلیویژن کے اشتراک کے ساتھ بننے والی فلم ”رشتے اور راستے “ کی ابتدائی تیاریوں کے سلسلے میں چین کا دورہ کررہا تھا تو رابرٹ میکنمارا بھی دو امریکی سینیٹرز اور اپنے اسٹاف کے ساتھ چین کا دورہ کر رہے تھے ۔ انہوں نے کوئی امریکی چینی دوستی کی انجمن بنا ئی تھی اور بظاہر یہ دورہ خیر سگالی ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے کیا جا رہا تھا۔

مزید اتفاق یہ کہ مغربی چین کے شہروں ارمچی اور کاشغر جانے کے لئے دونوں وفود کی پروازیں اور قیام کے ہوٹل بھی ایک ہی تھے ۔ کاشغر میں میری ملاقات رابرٹ میکنمارا سے ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ برسوں پہلے میں نے ان کے ساتھ ایک دھوکا کیا تھا۔ ان کے پوچھنے پر میں نے ان کو بتا یا کہ پاکستان کے چیف اکانو مسٹ ڈاکٹر محبوب کے بیٹے میرے دوست تھے۔ ایک دن میں ان سے ملنے گیا تو میرے دوست تو کہیں گئے ہوئے تھے ڈاکٹر محبوب اپنے اسٹاف کے ساتھ کاغذوں پر اعداد و شمار میں الجھے ہوئے تھے ۔ تین چار کاغذ انہوں نے مجھے بھی تھما دئے اور کہا کہ ہر figure میں ساڑھے چار فیصد کا اضافہ کر کے ہر صفحے کا ٹوٹل کرتا جاؤں۔

اس زمانے میں calculators وغیرہ تو ہوتے نہیں تھے خود ہی حساب کرنا ہوتا تھا ۔ پہلا صفحہ مکمل کرنے کے بعد میں ان سے پوچھا کہ آخر یہ سب کچھ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا rate of growth ڈیڑھ فیصد آرہا تھا۔ اس دن صبح میں ایوب خان نے انہیں فون کر کے کہا تھا کہ اگلے ہفتے رابرٹ میکنمارا آرہے ہیں اور وہ چھ فیصد سے کم growth rate کو دیکھیں گے بھی نہیں ۔ تو اب ہم growth rate کو ڈیڑھ فیصد سے چھ فیصد پر لے جارہے ہیں ۔ ملکی معیشت کی growth کی بات تھی ۔ ساڑھے چار فیصد بڑھانے میں دو بار ضرب دینی پڑتی تھی ۔ میں نے باقی اعداد و شمار کو پانچ فیصد بڑھا کر ملکی معیشت کو اور زیادہ شاندار بنا دیا ۔

رابرٹ میکنمارا بہت ہنسے ۔ ان کی سیکریٹری تو بچاری ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں ۔ پھر میکنمارا کہنے لگے کہ انہیں پاکستان کا وہ دورہ اچھی طرح یاد تھا ۔ ایوب خان کے وہ آخری دن تھے ۔ وہ راولپنڈی کے ایوان صدر کے برآمدے میں ایوب خان کے ساتھ بیٹھے تھے اور ایوب خان انہیں وہ اعداد و شمار دے رہے تھے جن کو بنانے میں میرا بھی کچھ حصہ تھا۔ باہر ایک احتجاجی جلوس پر ٹئیر گیس کی شیلنگ ہو رہی تھی۔ (شاید یہ وہی جلوس تھا جس میں پیپلز پارٹی کا ایک طالبعلم شہید ہوا تھا)۔ وہ اور ایوب خان ٹئیر گیس کی وجہ سے برآمدے سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلے گئے۔ ایوب اندر کمر ے میں بھی انہیں وہ اعداد و شمار دیتے رہے اور وہ اس سب کو سنے بغیر یہ سوچتے رہے کہ اب ایوب خان کی حکومت کتنے دن کی رہ گئی تھی۔

”مسٹر حیدر ۔ آپ نے مجھے دھوکا دینے کی کوشش ضرور کی لیکن میں آپ کے دھوکے میں نہیں آیا ۔ “ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

حکومتوں کی بقا معیشت کے ان جعلی اعداد و شمار پر یا ان میٹھی میٹھی باتوں پر نہیں ہے جو ہم روز و شب سنتے رہتے ہیں بلکہ عوام کی اس امید پر اوراس اطمینان پر ہے جو وہ کچھ حکومتوں سے وابستہ کرتے ہیں اور کچھ سے نہیں کرتے ۔ اور ان کا سیدھا سادہ پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہوں کہ سرکاری وسائل اور قومی دولت ان کی فلاح و بہبود پرخرچ ہو رہی ہے اور اشرافیہ کی جیبوں میں نہیں جا رہی۔

میکنمارا چینی امریکی دوستی کے مشن پر چین کا دورہ کر رہے تھے لیکن دوسری ہی نشست میں انہوں نے بلا تکلف مجھ سے کہہ دیا کہ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں لا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ بھارت کی برہمن ازم اور ذات پات کا نظام کبھی بھی اس انسانی مساوات کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو ہم چین میں اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ذات پات کا نظام بھارت میں ختم ہو جائے گا ۔ میں نے طنز کیا کہ ٹھیک ہے اگلے دو ہزار سال ہم اور انتظار کر لیتے ہیں ۔

میرا جی چاہتا ہے کہ آج وہ ہوتے اور میں ان سے کہتا کہ چین اپنی مساوات اور عالمی امن کی پالیسی کی وجہ سے آج کہاں کھڑا ہوا ہے اور امریکہ اور بھارت میں ٹرمپ اور مودی جیسے انتہا پسند اور جنگ باز حکومت کررہے ہیں ۔ ہمارے محبت کرنے والے بھائی بختیار احمد نے جو پاکستان اور چین کے اشتراک سے بننے والی اس فلم کے پروڈیوسر تھے میری اور میکنمارا کی تصویریں بھی بنا کر مجھے دی تھیں ۔ میں تصویریں رکھتا ہی نہیں ۔ بختیار بھائی کے پاس ضرور محفوظ ہوں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).