لاہور سانحہ: زخموں پر مرہم کون رکھے گا


پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ آج لاہور پہنچے جہاں انہوں نے کل خودکش حملہ میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کی اور کور کمانڈر ہیڈ کوارٹرز میں ایک سکیورٹی اجلاس کی صدارت کی جہاں شہر کی صورتحال اور حفاظت کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ جنرل باجوہ نے اس دوران کہا کہ پاکستانی قوم اولاالعزمی سے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہے اور دشمن ہمارا حوصلہ پست نہیں کر سکتا۔ اس اعلان اور جنرل باجوہ کے دورہ لاہور کی یہ خبر اس تناظر میں زیادہ اہمیت حاصل کر جاتی ہے کہ آج ہی پاناما کیس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں گھرے وزیراعظم نواز شریف اپنے ہی شہر لاہور میں دھماکہ کے بعد اپنے لوگوں سے ملنے کےلئے لاہور آنے کی بجائے سہ روزہ دورہ پر مالدیپ روانہ ہو گئے ہیں، جہاں وہ بدھ کو مالدیپ کے 52 ویں یوم آزادی کی تقریبات میں شریک ہوں گے۔ انہیں صدر عبداللہ یمین عبدالغیوم نے ان تقریبات میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ وزیراعظم نے ملک میں امن و امان کی صورتحال سے قطع نظر اور لاہور کے دہشت گردی کا نشانہ بننے کے باوجود بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کے قریبی حلقوں نے بتایا ہے کہ اس طرح وزیراعظم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امور مملکت پر ان کی گرفت مضبوط ہے اور وہ خارجہ معاملات ہوں یا سیاسی و عدالتی مسائل، ان سے بخوبی نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن لاہور میں دہشت گردی کے اگلے ہی روز نواز شریف نے مالدیپ جیسے چھوٹے ملک کے رسمی دورہ پر روانہ ہو کر درحقیقت یہ پیغام دیا ہے کہ ملک کی سول حکومت نہ تو حالات پر قابو پا رہی ہے اور نہ اس حوالے سے کوشش کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

 جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیراعظم نواز شریف کے طرز عمل کا یہ تضاد اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ پاناما کیس ہی کے حوالے سے سامنے آنے والے مباحث میں سول ملٹری تعلقات کو بنیادی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کےلئے دلائل دینے والے مفکر اور تبصرہ نگار اور سرکاری حلقے یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اس مقدمہ کو اس لئے غیر معمولی اہمیت حاصل ہو چکی ہے کیونکہ یہ صرف بدعنوانی کے سادہ معاملہ پر قانونی گرفت کرنے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے طاقتور حلقے دراصل اس مقدمہ کے ذریعے سول معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ خود وزیراعظم پاناما کیس کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد ایسے ہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کے قریبی ساتھی بیانات اور تقریروں میں سازش اور درپردہ قوتوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اسی حکمت عملی کی وجہ سے نواز شریف اور ان کے قریبی رفقا کے بارے میں تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کے نمائندوں نے پاناما کیس کو ایک ایسا سیاسی معاملہ بنا کر پیش کیا ہے جس میں وزیراعظم کو اس لئے نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جمہوری حکومت کی بالا دستی اور تسلسل کےلئے کام کر رہے ہیں۔ ملک کے داغدار ماضی کی وجہ سے اس قسم کے تحفظات اور شبہات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھنا ضروری بھی ہے۔ لیکن سول حکومت اور جمہوری طور سے منتخب ہونے والے نمائندوں سے یہ سوال تو پوچھا جانا چاہئے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کےلئے الزام اور نعرے لگانے کے علاوہ کیا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں۔

 سیاسیات کا ادنیٰ طالب علم بھی یہ بتا سکتا ہے کہ لاہور حملہ کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو مالدیپ جا کر حکومت پر اپنی گرفت مضبوط ہونے کا جعلی اور مضحکہ خیز تاثر دینے کی بجائے، لاہور آ کر عملی طور سے اپنے لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ وہ دکھ سکھ میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لاہور شریف خاندان کی سیاسی قوت کا مرکز ہے۔ اگر نواز شریف اپنے حلقہ انتخاب میں اترنے والی قیامت میں اس شہر کے لوگوں کو دلاسہ دینے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کے لئے بھی وہاں آنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو اس ملک کے عام ووٹر کیوں کر یہ محسوس کریں گے کہ ان کے منتخب کئے ہوئے نمائندے ان کی تکلیفوں کو رفع کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ غیر سیاسی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا ارادہ اور خواہش نہیں رکھتے۔ تاہم نومبر میں ریٹائر ہونے والے جنرل (ر) راحیل شریف نے اس منصب پر اپنے تین برسوں کے دوران نواز شریف کو مختلف معاملات میں تگنی کا ناچ نچوایا۔ ان کی سربراہی میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ان کی امیج بلڈنگ اور اہم معاملات میں جنرل راحیل شریف کے موقف کا پرچار کرنے کےلئے مسلسل کام کیا تھا۔ اس مدت میں لوگوں کے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی مسلم لیگ (ن) اگرچہ حکومت کر رہی تھی اور نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے لیکن ہر دم یہ احساس دلوایا جاتا تھا کہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر کا نام راحیل شریف ہے۔ یہ تاثر شاید کسی حد تک درست بھی تھا۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی جمہوری حکومت اور اس کی قیادت نے اپنا اعتماد بحال رکھنے اور لوگوں سے رابطہ کےلئے کیا طریقہ اختیار کیا۔ واضح ہونا چاہئے کہ صرف فوج کی مداخلت اور زبردستی کی شکایات کرنے سے معاملات درست نہیں کئے جا سکتے بلکہ لوگوں کو یہ اعتبار دلوانا بھی اہم ہے کہ ان کےلئے جمہوری سیاسی قیادت ہی بہترین آپشن ہے۔ سیاسی لیڈروں کو رائے دہندگان سے رابطہ اور عوام کا اعتماد بحال رکھنے کےلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

نواز شریف کی شہرت یہ ہے کہ وہ ایک کچن کیبنٹ کے ذریعے امور مملکت چلاتے ہیں۔ چند لوگوں کے حصار میں رہتے ہیں، انہی کے مشورے قبول کرتے ہیں۔ پارلیمانی گروپ جس کے وہ قائد ہیں تو دور کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی کابینہ کے ارکان سے بھی نہیں ملتے۔ کابینہ کے اجلاس میں صرف پسندیدہ وزیروں کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ وقت بھی زیادہ تر وزیراعظم کی ذہانت، مقبولیت اور دور بینی کی توصیف میں صرف ہوتا ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں بھی تشریف نہیں لاتے اور نہ اہم قومی معاملات کو مباحث کےلئے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ اپنی پارٹی اور اپوزیشن کو قومی مسائل پر بات کرنے اور رائے دینے کی دعوت دی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں نواز شریف اور ان کے ساتھی ان الزامات کا کیوں کر جواب دے سکتے ہیں کہ وہ انتخابات کے دوران انتظامی ڈھانچے اور پولیس پر کنٹرول اور طاقتور سیاسی خانوادوں اور گروہوں کے ساتھ اشتراک و اتحاد کے ساتھ مل کر کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ یعنی برسر اقتدار پارٹی عام لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کےلئے کوئی سرگرمی دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی کہ وہ ان کی نمائندہ ہے، ان میں سے ہے اور ان کےلئے ہی اقتدار میں ہے۔

اگر عام آدمی کو یہ احساس نہیں دلوایا جائے گا اور سیاسی جمہوری لیڈر عام رائے دہندہ کےلئے اجنبی کی حیثیت اختیار کرلیں گے تو اسے کیسے یہ بات سمجھائی جا سکے گی کہ ملک کا انتظام چلانے کےلئے عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت، فوجی کمانڈر کے حکم سے قائم ہونے والے انتظامی ڈھانچہ سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ ذمہ داری بہرصورت سیاسی لیڈروں پر ہی عائد ہوتی ہے اور انہی کو پورا کرنا ہے کہ لوگ ان پر اعتبار کریں۔ اسی لئے اس دلیل میں بہت زیادہ وزن باقی نہیں رہتا کہ ایک دفعہ ووٹ لینے کے بعد سیاسی لیڈر 5 برس کےلئے اقتدار کے حقدار ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ عوام سے دور ہو جائیں اور پلٹ کر اپنے حلقہ انتخاب کی خبر ہی نہ لیں، تو وہ کیسے عوامی نمائیندگی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ جو لوگ عوام سے رابطہ نہیں رکھتے، ان پر عوام کا اعتماد بھی برقرار نہیں رہتا۔ اسی لئے عام لوگوں کو سیاسی لیڈروں یا فوجی لیڈر میں کوئی فرق بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بدستور یہ ماحول اور صورتحال موجود ہے کہ اگر کوئی فوجی سربراہ ایک بار پھر جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کرے تو اب بھی لوگ مٹھائی بانٹتے اور خوشی کا اظہار کرتے نظر آئیں گے۔

نواز شریف کی دوسری ناکامی یہ ہے کہ چار برس تک برسر اقتدار رہنے کے باوجود وہ عوامی بہبود کے ایسے منصوبوں کو پورا نہیں کر سکے جو براہ راست انہیں سہولت بہم پہنچاتے۔ مثلاً صحت، تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں صورتحال مسلسل ابتر ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ صوبوں کو اختیارات ملنے کے بعد یہ شعبے کافی حد تک صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پنجاب، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومتیں ہیں۔ وہاں بھی سڑکیں اور پل بنانے یا سی پیک کے ثمرات کا انتظار کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کے لئے بدستور 2018 کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے یا اپنی ناکامیوں کو اپوزیشن کی الزام تراشی قرار دے کر ان کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نواز شریف حکومت اگر واقعی سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کم کرنے کی خواہش رکھتی تھی اور اس مقصد کےلئے اقدامات کرنا چاہتی تھی لیکن فوج کے دباؤ کی وجہ سے کچھ کرنے میں ناکام رہی ہے تو صرف اپوزیشن کی ساز باز کا قصہ سنا کر اس کمزوری کو بہادری قرار دینے کی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا حکومت نے سیاست میں فوج کا کردار محدود کرنے کےلئے آئینی اصلاحات کی کوشش کی یا عوامی رابطہ مہم اور جمہوریت کی روح کے مطابق جوابدہی کا نظام استوار کرکے فوج کو ایک پروفیشنل ادارے کے طور پر محدود کرنے کےلئے اقدامات کئے۔ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو اس کی ذمہ داری بھی اکثریتی پارٹی اور حکومت پر عائد ہوگی۔

وزیراعظم نے لاہور آنے کی بجائے مالدیپ جا کر اس تاثر کو قوی کیا ہے کہ انہوں نے سیاست میں تین دہائیاں صرف کرنے کے باوجود جمہوری روایت کو سیکھنے اور عوام کے دکھ درد میں شریک رہنے کا سبق نہیں سیکھا ہے۔ اب یہ فرق جنرل باجوہ کے دورہ لاہور جبکہ منتخب وزیراعظم کے بیرون ملک روانہ ہونے سے مزید واضح ہوا ہے۔ اس کے اچھے برے ثمرات بھی نواز شریف ہی کو بھگتنا ہوں گے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اس عمل میں جمہوری روایت بھی مجروح ہوگی اور جمہوری حکومتوں پر عوام کے اعتماد اور بھروسہ کو بھی زک پہنچے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali