گنگا کی موج ! ہندوستان کی مینا کماری


بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں ہندوستان میں متحرک فلم سازی کا آغاز ہوا تو دیگر کئی فنکاروں کی طرح مغربی پنجاب کے شہر بھیرہ سے تعلّق رکھنے والے موسیقار ماسٹر علی بخش نے بھی قسمت آزمانے کی غرض سے ممبئی کا رخ کیا یہیں ان کی ملاقات ایک تھیٹر آرٹسٹ پربھا وتی سے ہوئی جو نوبل انعام یافتہ لیکھک رابندر ناتھ ٹیگور کے بھائی شیو کمار ٹھاکر کی نواسی تھی۔ بربھا وتی نے ماسٹر علی بخش سے شادی کی غرض سے اسلام قبول کیا اور اقبال بیگم کہلائی۔ دونوں میاں بیوی ممبئی میں دادا صاحب پھالکے روڈ پر دادر ایسٹ کے نزدیک واقع میت والا چال میں ایک کرائے کے کمرہ میں رہنے لگے۔ اقبال بیگم تھیٹر میں کام کرنے کے علاوہ فلموں میں بھی کام کرنے لگی جبکہ ماسٹر علی بخش تھیٹر ڈراموں کی موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ فلموں کے لئے بھی کوشش کرتے رہے- ماسٹر علی بخش اور اقبال بیگم کے ہاں ایک لڑکی نے جنم لیا جسکا نام ارشاد بیگم تھا جو کہ آنے والے دور میں خورشید بانو کے نام سے مشہور ہوئی- کچھ برس بعد ان کے ہاں ایک اور لڑکی نے جنم لیا، لڑکے کی خواہش رکھنے والے ماسٹر علی بخش کو دوسری بیٹی کی پیدائش سے شدید مایوسی ہوئی اور تنگدستی کی بنا پر اس لڑکی کو یتیم خانہ میں داخل کروا دیا لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد اسے واپس لے آئے اور اسکا نام مہ جبیں بانو رکھا گیا۔ آج کی طرح اس زمانے میں بھی غیر معروف فنکاروں کو معاشی مسائل کا سامنا رہتا تھا اور ماسٹر علی بخش کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکتے لہذا خورشید کے بعد مہ جبیں کے لیے بھی انڈسٹری میں کام تلاش کیا گیا۔ مہ جبیں کی عمر محض چھ برس تھی جب اس نے 1939 میں بننے والی وجے بھٹ کی فلم face  leather  میں بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کیا۔ وجے بھٹ نے اس چائلڈ آرٹسٹ کو بےبی مینا کا نام دیا اور اس پہلی فلم کی اجرت کے طور پر 25 روپے بھی دئیے-

   بہت جلد ہی بے بی مینا اپنی خوبصورتی اور اداکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اسٹوڈیو میں سب کی توجہ کا مرکز بن گئی اور آنے والی فلموں میں اسے ہی بطور چائلڈ اسٹار کاسٹ کیا جانے لگا۔ بے بی مینا نے face   leather کے بعد یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جن میں فرزند وطن، ادھوری کہانی، پوجا، نئی روشنی، ایک ہی بھول، بہن، وجے، کسوٹی اور غریب نے باکس آفس پر نمایاں کامیابی حاصل کی۔ ایسا ہر گز نہیں تھا کہ بے بی مینا اپنی خوشی سے فلموں میں کام کر رہی تھی انھیں دنوں ماسٹر علی بخش کے بعد بے بی مینا کی والدہ اقبال بیگم بھی علیل ہوگئی اور گھر کی گاڑی کھینچنے کے لئے مجبوراً اسے فلموں میں کام کرنا پڑا، آمدن بڑھانے کی غرض سے ماسٹر علی بخش نے اسے موسیقی کی بھی ابتدائی تربیت دی۔ 1941 میں ریلیز ہونے والی فلم بہن کے لیے سنگیت کار انیل وشواس نے بے بی مینا کی آواز میں پہلا گانا ریکارڈ کیا جس کے بول تھے “تورے کجرا لگاؤں موری رانی ” اس گانے کو بہت پسند کیا گیا اور وہ ریڈیو اور فلم کے لیے گانے بھی گانے لگی- چودہ برس کی عمر میں بے بی مینا کو ایک اور فلم “بچوں کا کھیل ” ملی، اس فلم میں بھی بے بی مینا نے اداکاری کے خوب جوہر دکھائے، اسی فلم کے بعد سے بے بی مینا، مینا کماری کے نام سے مشہور ہوئی اگرچہ یہ فلم کوئی نمایاں کامیابی تو حاصل نہ کر سکی البتہ مینا کماری اپنی شاندار اداکاری کی بدولت اسوقت کے صف اول کے فلمسازوں کیدار شرما اور ہومی واڈیا کی نظروں میں ضرور آگئی۔ اگلے ہی برس 1948 میں ہدایت کار پرہالد دت نے اپنی آنے والی فلم “پیا گھر آجا” کے لئے کرن دیوان کے مقابل مینا کماری کو بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا اور اسی فلم کے لیے مینا کماری نے اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کروائے- یہ تمام کامیابی محض پردہ اسکرین تک محدود تھی حقیقت یہ تھی کہ گھر کی اخراجات پورے کرنے کے لیے مینا کماری صبح سے رات گئے ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے اسٹوڈیو میں کام کرتی-

اپنے بچپن کے متعلق مینا کماری کا کہنا تھا ” جب مجھے پہلی بار اسٹوڈیوز لے جایا گیا تو میرا خیال تھا کہ یہ سب محض چند دن کے لیے ہے اس کے بعد مجھے دوبارہ اسکول داخل کروا دیا جائے گا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا “۔ مینا کماری کے علاوہ اس کی دو بہنیں خورشید بانو اور مدھو علی بھی فلموں میں کام کرتی تھیں۔ لیکن آمدنی کا زیادہ تر حصہ والدین کے علاج معالجہ پر خرچ ہوتا۔ غربت اور وقت کی کمی کے باعث گھر میں اکٹھے ہی روٹیاں پکا لی جاتیں جو کئی دن تک کھائی جاتیں شاید اسی وجہ سے مینا کماری کو باسی روٹیاں کھانے کی عادت ہوگئی تھی اور اس نے تمام عمر صرف باسی روٹی ہی کھائی۔

اس خاندان نے کچھ ہی عرصہ میں محبوب اسٹوڈیوز کے ساتھ واقع ایک بنگلہ میں رہائش اختیار کر لی۔ حقیقت میں مینا کماری روپیہ پیدا کرنے والی مشین بن گئی تھی جو باسی روٹیاں نگل کر اشرفیاں اگلتی تھی۔ 1947 میں طویل علالت کے بعد اقبال بیگم کا انتقال ہوا لیکن مینا کماری کے کام میں کوئی فرق نہ آیا وہ اسی طرح صبح سویرے اسٹوڈیوز کا رخ کرتی اور رات گئے واپسی پر باسی روٹی کھا کر سو جاتی۔ شاید اس کا کوئی دوست نہیں تھا اسی لیے اس نے اپنے آنسوؤں کی سیاہی سے کاغذ کو زبان دی۔ اسٹوڈیوز میں کام کرنے کے علاوہ اب وہ کہانیاں اور نظمیں بھی لکھنے لگی۔ گھر کے اخراجات کا بیشتر بوجھ مینا کماری کے کاندھوں پر تھا اور انہی اخراجات کو پورا کرنے کی غرض سے اس نے ریڈیو میں بھی کام شروع کر دیا۔

فلم نگری کے اندرونی حلقوں میں مینا کماری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر 1950 سے 1952 کے عرصہ میں اس نے کئی فلموں میں کام کیا، جن میں ہومی واڈیا کی ہدایت کاری میں بننے والی بیشتر فلموں میں مینا نے افسانوی کردار ادا کیئے “لکشمی نارائن، شری گنیش، الہ دین اور جادوئی چراغ” اسی دور کی نامور فلموں میں شمار کی جاتی ہیں۔ قریب اسی دور میں فلمساز وجے بھٹ نے مینا کو اپنی آنے والی فلم “بیجو باورا” میں بھارت بھوشن کے مقابل کاسٹ کیا، یہ فلم 1952 میں پردہ اسکرین کی زینت بنی اور اپنی مضبوط کہانی، موسیقی اور ڈائریکشن کی بنیاد پر بے پناہ کامیابی حاصل کی فلم بینوں کے علاوہ ناقدین نے بھی اس فلم میں مینا کماری کی جاندار اداکاری کو سراہا اس فلم کی غیر معمولی کامیابی کی بدولت مینا کے لئے بڑے بجٹ کی فلموں کے دروازے کھل گئے، بعد ازاں اسی فلم میں شاندار اداکاری کرنے پر مینا کو 1954 میں ہونے والے اولین فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس طرح وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی اداکارہ بن گئی۔

“بیجو باورا” کی کامیابی کے بعد پچاس کی دہائی میں مینا نے مزید کئی فلموں کو اپنی غیر معمولی اداکاری سے کامیاب فلموں کی صف میں کھڑا کیا۔ پچاس کی دہائی میں ریلیز ہونے والی مقبول ترین فلموں میں فلم “آزاد، پرینیتا، بادبان، ایک ہی راستہ، سہارہ، شاردہ، چاند، بندش، چراغ کہاں روشنی کہاں،یہودی، فٹ پاتھ، دائرہ” شامل ہیں۔ ان فلموں میں مینا نے راج کپور، اشوک کمار، دلیپ کمار، دیو آنند، کشور کمار، راجندر کمار، سنیل دت، پردیپ کمار، شمی کپور اور راج کمار جیسے چوٹی کے فنکاروں کے مقابل کام کیا۔ پچاس کی دہائی میں ہی مینا کماری اپنی بہترین اداکاری کی بدولت تین بار مزید فلم فیئر ایوارڈ کے لئے نامزد ہوئی اور 1955 میں فلم” پرینیتا” کے لئے ایوارڈ جیت کر مسلسل دوسرا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ اسی عرصہ میں مینا کماری نے فلم شاردہ کے لئے اپنا پہلا بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ بھی جیتا۔

مینا کماری نے ساٹھ کی دہائی کا آغاز “دل اپنا اور پریت پرائی” جیسی کامیاب فلم دے کر کیا۔ اس دور کی کامیاب فلموں میں “کوہ نور، بھابھی کی چوڑیاں، دل ایک مندر، سانجھ اور سویرا، غزل بے نظیر، کاجل، بہو بیگم، بہاروں کی منزل اور صاحب بی بی اور غلام” جیسی فلمیں شامل ہیں۔ 1963 میں ہونے والے دسویں فلم فیئر ایوارڈ میں مینا کماری نے بہترین اداکارہ کے لئے تمام نامزدگیاں حاصل کر کے ایک تاریخ رقم کی۔ بہترین اداکارہ کے اس ایوارڈ کے لئے “فلم صاحب بی بی اور غلام، آرتی، اور میں چپ رہوں گی” کو نامزد کیا گیا تھا اورمینا نے فلم “صاحب بی بی اور غلام” کے لئے یہ ایوارڈ اپنے نام کیا۔ جبکہ اسی برس فلم “آرتی” کے لئے مینا نے اپنا دوسرا بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ جیتا۔ فلم صاحب بی بی اور غلام غلام نے ہر شعبہ میں مقبولیت حاصل کی خاص کر مینا کماری کے چھوٹی بہو کے کردار نے اس فلم کو گولڈن بیر ایوارڈ کے لئے نامزد کروایا اور برلن فلم فیسٹیول میں مینا کو بہ حیثیت مندوب منتخب کیا گیا۔ اس تمام عرصہ میں مینا نے اپنی غیر معمولی کارکردگی کی بدولت 1965 میں تیسرا بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن اور 1966 میں چوتھا فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔

صاحب بی بی اور غلام، بیجو باورا کے علاوہ ایک اور فلم مینا کماری کی شناخت بنی۔ کمال امروہی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم پاکیزہ سولہ برس کی محنت کے بعد فلم بینوں کے لئے سنیما کی زینت بنی۔ پاکیزہ کئی اعتبار سے خصوصیت کی حامل فلم ٹھہری ہے۔ یہ ہندوستان کی پہلی سنیما اسکوپ کلر فلم ہونے کے علاوہ وہ پہلی فلم ہے جو پہلی بار ہندوستان کے ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی۔ دور درشن سے نشر کی جانے والی اس فلم کو لاہور میں بھی دور دراز سے آ ئے ہزاروں لوگوں نے خصوصی طور پر دیکھا۔ بدقسمتی سے پاکیزہ فلم اس حوالہ سے بھی خصوصیت کی حامل ہے کہ یہ بر صغیر کی عظیم ترین اداکارہ مینا کماری کی آخری فلم تھی۔ ہندوستان کی اس مہنگی ترین فلم کے لئے مینا کماری نے کثیر سرمایہ فراہم کیا تھا مشہور بھارتی صحافی ونود مہتا کے مطابق مینا کماری نے اس فلم کو پہلے اپنے سرمایہ اور بعد ازاں اپنی قبل از وقت موت سے کامیاب بنایا۔ پاکیزہ کی موسیقی غلام محمد نے ترتیب دی تھی جو اپنی شاندار صدا کاری کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔ پاکیزہ ایک ایسی فلم ہے جس کا بیان چند سطور میں کرنا مشکل ہے۔ اس فلم کے لئے مینا نے اپنے فلمی سفر میں بارہویں مرتبہ فلم فیئر کی نامزدگی اور چوتھا بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ حاصل کیا جو ایک ریکارڈ ہے اور رہے گا۔

یکم اگست کو اس عظیم فنکارہ کی سالگرہ ہے۔ اگر آج وہ ہمارے درمیان موجود ہوتیں تو پچاسی برس کی ہوتیں۔ لیکن ہمارے دلوں میں وہ آج بھی بیجو باورا کی گوری، صاحب بی بی اور غلام کی چھوٹی بہو، پاکیزہ کی صاحب جان کے روپ میں زندہ ہے۔ اپنے فنی سفر میں مینا کماری نے اپنی ہی لکھی ہی نظموں اور غزلوں پر مبنی ایک میوزک البم بھی ریلیز کیا تھا جو اس کے اپنے دل کی آواز تھی۔ آیئے مینا کا کلام مینا کی ہی زبانی سنیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).