پانامہ فیصلہ سراج الحق کی کوشش کا نتیجہ ہے


طویل انتظار کے بعد بالآخر پانامہ کیس کا فیصلہ آگیا۔ سپریم کورٹ کے فاضل ججز نے عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ سنایا اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور ملک کے تین بار کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے میدانِ سیاست سے بے دخل کردیا۔ اس فیصلے اور سارے معاملات پر تفصیلی کلام تو تفصیلی فیصلے کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد ہی کیا جاسکے گا لیکن فوری طور پر کچھ باتیں گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔

اول تو یہ کہ پانامہ لیکس منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم اور دیگر پانامہ زدہ افراد کے خلاف عدالت کا دروازہ سب سے پہلے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کھٹکھٹایا تھا، نہ کہ عمران خان نے۔ عمران خان اس سنجیدہ، سنگین اور حساس معاملے کو بھی اپنے کھلنڈرے مزاج کے تحت سڑکوں پر ہی حل کرنے کے خواہاں تھے اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کال دی تھی جو بری طرح فلاپ ہوئی۔ جس کے بعد وہ چار و ناچار عدالت آنے پر مجبور ہوئے۔ تو آج کا فاتحانہ فیصلہ درحقیقت سراج الحق کی پٹیشن پر آیا ہے جسے کیش پی ٹی آئی کرا رہی ہے۔ بہرحال یہ جیت کسی ایک سیاسی پارٹی کی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کی جیت ہے۔ اللہ کرے کرپشن کے خلاف یہ جنگ کرپشن فری پاکستان تک جاری رہے۔

دوسری بات نواز شریف آئین کی جس آرٹیکل کے تحت نااہل قرار پائے، اتفاق سے وہ آرٹیکل ایک ڈکٹیٹر اور نوازشریف کے سیاسی والد جنرل ضیاء الحق نے آئین میں شامل کیا تھا، یوں نوازشریف اپنے ہی سیاسی باپ کے ترمیم کا نشانہ بن گئے۔ لیکن اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ پاکستانی آئین میں موجود آرٹیکل باسٹھ ترسٹھ ایک خالص دینی شق ہے جس کے مطابق اسلام کی رو سے ایک ایسا بندہ جو سچا اور امانت دار نہ ہو وہ حکمرانی کا اہل نہیں ہوسکتا۔ یعنی پاکستان کے قیام کے 70 سالوں بعد بھی اگر پاکستانی قوم کی جیت ہوئی تو وہ قرآن و سنت کی روشنی میں موجود دفعات کی وجہ سے ہی ہو سکی، ورنہ اگر اس آرٹیکل کو نکال دیں تو چوروں لٹیروں کے بحیثیت حکمران مسلط ہونے کے دس دروازے کھل سکتے ہیں۔

تیسری اور سب سے اہم بات یہ کہ کرپشن کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے اس اہم ترین اور قابل ستائش فیصلے کو لوگ فوج کا انتقام قرار دے رہے ہیں جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ مانا کہ پاکستانی کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بہت طاقتور اور منتقم مزاج ہے، مگر اس کیس میں تو ایسے کوئی معاملات ہی نہیں رہے جس کی وجہ سے فوج اور سویلین کی محاذ آرائی کی فضا پیدا ہوتی۔ اور پھر مجموعی طور پر بھی نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے عسکری قیادت کے ساتھ بہت اچھی ریلیشن شپ رکھی جس کی مثال سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا آپریشن ضرب عضب شروع کیا جانا، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی مرضی سے سعودی اتحاد کی سربراہی قبول کرنا، ڈان لیکس کے معاملے پر نواز شریف کا اپنے انتہائی قریبی ساتھی، دیرینہ رفقاء و معاونین اور وزیر و مشیر پرویز رشید اور طارق فاطمی کی قربانی دینا شامل ہیں۔

پھر ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سابق آرمی چیف ڈکٹیٹر مشرف جس نے آئین پر شب خون مارا اس کا ٹرائل کرنے کے بجائے بیرون ملک فرار کے راستے ہموار کرنا خود اس بات پر دلالت ہے کہ نواز شریف نے ملٹری اسٹبلشمنٹ سے کسی قسم کا پنگہ لینے یا بگاڑنے کی دانستہ طور پر کوئی کوشش نہیں کی جس کی پاداش میں اسے اس سزا کا منہ دیکھنا پڑتا۔ لہٰذا خدا کے واسطے فوج کو خدا یا خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کے درجے پر مت بٹھایا جائے۔ فوج کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے، عدلیہ و مقننہ کی طرح ہی ایک ریاستی ادارہ ہے جو پوری طرح آئین و قانون کا پابند ہے۔

کرپشن کے خلاف یہ تاریخی فیصلہ اور فتح سیاسی جماعتیں، میڈیا، وکلاء اور عوام سب کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر ہے، اسے خواہ مخواہ فوجی اسٹبلشمنٹ کی گود میں ڈال کر میٹھے پھل کا مزہ خراب نہ کیا جائے، بلکہ اس بولڈ اور عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ دینے پر معزز عدالت کی تائید کی جائے اور اس کی پشت پر کھڑا ہوا جائے۔ کیونکہ اداروں کی مضبوطی میں ہی ملک اور قوم کا بھلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).