خاطر جمع رکھیئے


پاناما کیس کا فیصلہ کن مرحلہ آ کر گزر گیا۔ نتیجہ بہت سوں کے حسب منشا رہا تو بہت سوں کی امیدوں کا تاج محل چور چور ہو گیا۔ عدالتی کارروائی، ثبوت، تابوت، شریف اور بدمعاش سے قطع نظر پاکستان میں جہاں ایک روایت برقرار رہی کہ کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوی نہ کرسکا وہیں ایک روایت کا آغاز بھی ہو گیا ہے (دلی خواہش ہے کہ یہ روایت بن جائے)۔ نوازشریف کونااہل قرار دینے کے لیے مخالفین کا بنیادی نقطہ نظر تھا آئین کا آرٹیکل 62ون ایف جس کے تحت رکن اسمبلی کا صادق اور امین لازم ہے یعنی عہدے کی اہمیت ایک طرف، عوام کا منتخب نمائندہ کوئی بھی حیثیت رکھتا ہو اس کا صادق اور امین ہونا لازم ہے۔

اب بات کرلیں ذرا نئی روایت کی ۔۔۔ مہربان صاحبان اور قدردان نواز وعمران سب کو ہی ایک بات ماننی پڑے گی کہ نواز شریف پر بذات خود ایک پیسے کی کرپشن یا قوم کا پیسہ کھانا ثابت نہیں ہوا، جو وجہ اس کیس کی جڑ بنی اور بالاخر نواز شریف کو امربیل کی طرح لپیٹ میں لے کر رہی، وہ ہے آرٹیکل 62 کی شق ون ایف جس کے تحت کوئی شخص رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کا اس وقت تک اہل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ صادق اور امین، ذی فہم، راست باز، نیک چلن نہ ہو۔ شیخ رشید، عمران خان اورسراج الحق سمیت سبھی درخواست گزاریوں نے اسی نقطے کا سہارا لیتے ہوئے اپنی درخواستیں دائر کی تھیں کہ وزیراعظم نے اثاثے چھپائے اور پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا۔ خود معززجج صاحبان نے بھی اس نقطے کو بارہا دوران سماعت واضح کیا۔ سادہ بات یہ کہ اگر آپ نے اثاثے چھپائے ہیں تو آپ صادق اورامین نہیں تو پھراربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے لاکھ ڈیڑھ لاکھ ٹیکس جمع کروانے والے کتنے صادق اور امین ہیں؟ الیکشن 2013 کے بعد اگلے الیکشن سے قبل ہی دھن کو یوسین بولٹ سے بھی لمبی چھلانگیں مار کر لاکھوں سے اربوں کے فگر تک پہنچانے والے کیا اب بچیں گے؟

نئی روایت قائم ہو گئی تو پھر یاد رکھیں کہ یہ شروعات ہے۔ آج نوازشریف نااہل ہوئے ہیں تو اگلی باری عمران خان اور جہانگیرترین کی ہو سکتی ہے کیونکہ درخواست گزار حنیف عباسی کا بھی یہ یہی موقف ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین نے اثاثے چھپائے۔ لندن فلیٹ اور آف شور کمپنیاں خان صاحب کے گلے بھی پڑسکتی ہیں کیونکہ سابقہ اہلیہ جمائما کی جانب سے رسیدیں بھجوانے کے باوجود حنیف عباسی سپریم کورٹ میں جع کرائی گئی منی ٹریل کو ببانگ دہل چیلنج کر سکتے ہیں اور اگلی سماعت پر چیف جسٹس کے یہ ریمارکس بھی ریکارڈ پر ہیں کہ عمران خان منی ٹریل تو آپ کو بھی دینی ہو گی تو پھر کوئی بعید نہیں کہ پاکستان میں شفاف روایت اور تاریخی فیصلے کو سراہنے والے کل خود بھی اسی صف میں ہوں۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر، یوں سمجھیں، اب پاناما کا ہنگامہ تو ختم ہوا لیکن میڈیا تو ہے نا؟ اگرغیرجانبداری سے عدالتی کارروائی کی تفصیلات آپ تک پہنچتی رہیں تو یقین جانیں، ٹوئٹڑ اور فیس بک کا پیٹ بھرنے کے لیے بارہ مصالحے کی چاٹ ابھی بھی عمران خان اورجہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کیس کی صورت میں موجود ہے کیونکہ عدالت کا کام انصاف کرنا ہے تو پھر کرپٹ ہوں یا نہ ہوں جھوٹ بولنے پر گھر ضرور جائیں گے۔ اور صرف یہی کیوں ؟ تقریبا ہرجماعت کے باعزت سیاسی رہنماؤٕں کے انگنت کارنامے ایسے ہیں کہ انہیں بھی تب نہیں ملی تو اب سزا مل سکتی ہے۔

زیادہ دور نہ جائیں، شرجیل میمن کے گھر سے اربو ں روپے کیا رکن اسمبلی کی حیثیت سے ملنے والی تنخواہ سے جمع ہوئے تھے؟َ ایان علی منی لانڈرنگ کیا اپنے لیے کر رہی تھیٕں؟ جہانگیر ترین کی آف شور کمپنیاں خلا میں ہیں؟ مشرف کو باہر کا راستہ تن تنہا نواز شریف اپنے کاندھوں پر بٹھا کر دکھا لائے تھے؟ آصف زرداری کو ٹین پرسنٹ مذاق میں کہا جاتا ہے؟ فضل الرحمان کو مولانا ڈیزل کہنا تو سراسر شرانگیزی ہے نا؟ بطوروفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم سے زیادہ معصوم تو کوئی تھا ہی نہیں، بلوچستان میں سیکرٹری خزانہ مشتاق لانگو کے گھر سے تو کرپشن کے بجائے حلال کمائی نکلی تھی جو بات پلی بارگینگ تک پہنچی اور امریکی سی آئی اے کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے باہر بھیجنے میں صرف حکومت کا ہاتھ تھا نا؟ اور اقامہ ہال آف فیم میں بھی بس ن لیگ والے ہی بستے ہیں باقیوں کو تو ایویں بدنام کیا ہوا ہے۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ بار ثبوت دوسروں کے کندھے پرڈال کر سب بری الذمہ ہوتے رہے کہ بھیا آج تیری تو کل میری باری ۔۔ اب اگلی بار زرداری کا تو علم نہیں لیکن یہ ضرور یقین ہے کہ نئی روایت کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ بس انصاف ہی انصاف کریں گے۔

رہ گئے نوازشریف کےاقتدار کی کشتی ڈبونے میں کرپشن سے زیادہ ہاتھ ان کا درباریوں پر بھروسہ کرنا دکھائی دیتا ہے، جن کا وہی حساب ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کی نوبت سے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا جاتا تو بہتر ہوتا مگر ایسا بھی کیونکر ہوتاَ کیونکہ یہاں تو روایت رہی ہے کہ کھایا اس نے نہیں، جس کو ملا نہیں، آج تک کسے سزا ملی تھی جو شریف خاندان یہ سمجھتا کہ ہم پکڑ میں آئیں گے۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن اپوزیشن کے ثبوت بھی تابوت ہی بنتے وہ بھی خالی جو اگر درباری سینہ زوری، ہٹ دھرمی اور للکاروں سے ہٹ کر مہذبانہانداز و اطوار دکھاتے۔ پاناما لیکس میں نام آنے پر شاید عہدے کی وجہ سے نیزے کی انی پررکھا گیا ورنہ زیادہ پرانی بات نہیں جو خان صاحب کے دل و دماغ سے اتر گئی ہو کہ دیگر 400 سے زائد لوگوں کا کیا؟ ان افراد میں کئی نرمین، شرمین، ترین کے علاوہ خان صاحب کے قریبی لوگوں کا بھی نام ہے مگر چونکہ وہ وزیراعظم نہیں تھے تو انہیں سات خون معاف۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).