قطار بنانا منع ہے


کل کی خبروں میں تھا کہ امریکہ میں ایک عورت مومی مجسموں کے پیچھے ایک دکان میں پندرہ منٹ قطار میں کھڑی رہی تاآنکہ سیکیورٹی گارڈ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ بی بی یہ تو مومی مجسمے ہیں۔ یہ چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ قوموں میں نظم و ضبط کی کتنی اہمیت ہے۔ اور صرف یہی نہیں میں نے امریکہ میں ایک کتاب گھر میں ایک عورت جو شیر خوار بچے کے ساتھ تھی قطار میں لگے دیکھا۔ باقی لوگوں نے اسے کہا کہ وہ ان سے پہلے چلی جائے کہ ابھی اس کی باری میں تیس منٹ تھے، مگر وہ کہنے لگی“ میں کھڑی رہ سکتی ہوں لہذا کسی کا حق کیوں ماروں، میں اپنی باری سے ہی قطار میں آگے جاؤں گی“۔

قطار بنانے کی اس چھوٹی سی عادت سے قوموں کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ قطار استعارہ ہے کہ جس نے انتظار کیا ہے، جو حقدار ہے وہ پہلے جائے۔ قظار نہ بنانے کا تو سوال ہی نہیں اور اگر آپ قطار توڑ دیں تو مہذب اقوام میں یہ جرم بیحد سنگین قرار پاتا ہے۔

قائداعظم نظم و ضبط سکھاتے سکھاتے دنیا سے گزر گئے۔ پاکستان کے مسائل تو قطار نہ بنانے کی عادت سے ہی منسلک ہیں۔ تبھی وزیر اعظم بننے کا انتظار نہیں ہوتا۔ قطار بنا کر کون انتظار کرے۔ اسی لیے قطار توڑ کر کبھی فوجی تو کبھی موجی۔ ایک وزیر اعظم آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہوا تو اس کو پانامہ پیپرز آ لیے۔ میڈیا کے چینلز سے بھی قطار میں انتظار نہیں ہوتا، یہ بریکنگ نیوز کے چکر میں زندہ انسان مار دیتے ہیں۔ پانامہ پیپرز کا کیس بھی عدالت سے زیادہ میڈیا پر چلا ہے، فیصلے کی قطار میں کون لگے، ہر ایک چینل نے اپنی پسندیدگی، سیاسی وابستگی اور سیٹھ کی مرضی کے مطابق فیصلہ سنا دینا ہے۔

قطار کا سیدھا ربط ہے صبر سے۔ صبر وصف ہے مسلمان کا۔ ہم جو پاکستانی مسلمان ہیں، بہت ہی متقی ہو جاتے ہیں بیرون ملک۔ مجال ہے جو کہیں قطار توڑ جائیں۔ البتہ پاکستان کے ہوائی اڈے پر اترتے ہی تقوی کو شیطان آ لیتا ہے۔ امیگریشن کاونٹر پر قطار کو کاٹ کاٹ کر دو منٹ بچا لینے کی سعی میں کئی مسلمان ایمان سے اور مردانگی سے جاتے ہیں کہ خواتین کی سہولت کے لیے بنی قطار میں پائے جاتے ہیں۔ جو دو منٹ اس قطار کو توڑ کر بچائے جاتے ہیں ان کےبہترین مصرف سے پاکستان نے جو ترقی پائی وہ آج تک کسی کو نظر نہ آئی۔ پھر کئی امریکہ پلٹ لوگوں کو جہاں قومی ایئر لائن پر اعتراض ہے وہیں وہ آپ کو قطار کی پرواہ نہ کیے ہوے نظر آیئں گے بتاتے کہ ان کا ماما فلانا ہے لہذا وہ سب سے پہلے بغیر ٹکٹ کے ہی چڑھا لیے جایئں جہاز پر۔

ہماری سڑکوں کو ہی لے لیں۔ سب سے زیادہ ٹریفک کیوں بلاک ہوتی ہے؟ ذرا ایمانداری سے اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں۔ اسی لیے نا کہ میں نے کل جلدی نکلنے کی جدوجہد میں قطار کو توڑ کر سارا ٹریفک بلاک کر دیا اور پھر سڑک پر موجود ساتھیوں نے حسب المقدور حصہ ڈال کر مزید دو گھنٹے ٹریفک بلاک کا انتظام کیا۔ کبھی سوچا ہے اس ٹوٹی قطار میں کون کون ایمبولنس میں پھنسا اپنی زندگی اور موت کی جنگ ہماری جلد بازی کی سزا میں ہار گیا ہو گا۔

ایک شادی کے کھانے پر زندگی میں پہلی بار مجھ پر انکشاف ہوا کہ کھانے کی میز پر بھی قطار بنتی ہے اور مہذب لوگ ایک دوسرے کے آگے سےبھنی مرغی کی ٹانگ اور قورمے کا دیگی چمچہ نہیں کھینچتے۔ مگر یہ شادی میں قطار کی روایت صرف چند شادیوں تک ہی محدود ہے۔ زیادہ تر شادیوں میں تو بس کھانے کا مینار پلیٹ میں بنانے کے چکر میں قطار اور تہذیب کو دلہن کی رخصتی سے پہلے ہی رخصت کر دیا جاتا ہے۔

کسی بھی سرکاری نوکری کو ہی لے لیں۔ میرٹ کا مطلب ہوتا ہے قطار میں لگیں اور اپنی قابلیت کے مطابق حصہ لیں۔ مگر چونکہ سرکاری نوکری کے نام کے اندر ہی کہیں چھپا ہے کہ بابو قطار تھوڑی نا بناتے سو جو بابو بننے آیا وہ کیوں کر بنائے۔ سفارش کرا کر کیوں نہ قطار توڑے۔ اور قطار توڑی جاتی ہے! پھر ہم کہتے ہیں سرکاری دفتر کا میعار ٹھیک نہیں، افسر ہڈ حرام ہیں۔ جب میں اور آپ، اپنے بچے کی نوکری میں منسٹروں کی سفارش کرا کر قطار توڑتے ہیں تو یہ افسر بنتے ہیں۔ یہ ہم نے باہر سے امپورٹ نہیں کیے۔ البتہ قطار توڑ توڑ کر ہم نے اپنا سارا جوان قابل کام کرنے کا حقدار انسان باہر کے قطار کی اہمیت پر یقین رکھنے والے ممالک کو برآمد کر دینا ہے۔

پبلک سروس دینے والے دفاتر میں بھی کوئی بھی کسی بھی سہولت کے لئے قطار میں نہیں لگتا۔ پاکستان میں اگلا سال الیکشن کا ہے۔ اسمبلیوں کا کام ہوتا ہے کہ قانون سازی کریں۔ پاکستان میں قومی اور صوبائی حکومتوں کے لیے نمائندے چنتے وقت ووٹر سے پوچھ لیں۔ اس کا مقصد ہوتا ہے وہ سیاسی نمائندہ چننا جو کہ اس کی قطار کی مشقت بچا لے۔ پٹواری مرضی کا لگوانے کی قطار، سڑک کی تعمیرکے لیے بنی قطار۔ قانون سازی کی فرمائش کے لئے عوام کی کوئی قطار نہیں لگتی۔

ہمارے ہاں طاقتور اور جان پہچان والا ہونے کا یہ سب سے بڑا فائدہ ہوتا ہے کہ اسے قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔ نہ ہی نوکری کے لیے، نہ ہی ہسپتال کے لیے اور نہ ہی قبرستان کے لیے۔ اور چونکہ غریب اور کمزور یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ طاقتور نہیں لگتا قطار میں تو پھر وہ کیوں لگیں قطار میں۔ اسی گھمن گھیری میں ملک چل رہا ہے۔ پاکستان کے ہوائی اڈے پر اترتے ہوئے باہر ایک بورڈ بھی لگا دینا چاہیے کہ ”قطار بنانا منع ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).