پاکستان پر حکمرانی کون کرے گا؟


پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (نون) نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے پہلے باضابطہ ردعمل میں واضح طور پر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دیکھا جائے کہ ’اس ملک میں حکمرانی کون کرے گا؟‘ اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بہت کوشش کے باوجود نواز شریف کے چار سال اداروں کے ساتھ رسہ کشی میں گزرے یا پھر اس شکایت کی وجہ اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کا ملبہ کسی اور کے کندھوں پر ڈالنے کی یہ ایک کوشش ہے۔

سابق وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (نون) کے اہم مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے دیگر وزرا کے ساتھ اخباری کانفرنس میں کہا کہ انہیں معلوم ہے ان کا جرم کیا ہے۔ ’ہم کیا مانگتے ہیں۔ ہم پاکستان میں سویلین بالادستی چاہتے ہیں۔ یمن اور قطر کے معاملے پر قومی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرتے اس کی سزا ملتی ہے۔ اب حق حکمرانی کے تعین کے بغیر انہیں سیاست نہیں کوئی اور کام کر لینا چاہیے۔ ہم نے اگر ابھی کچھ نہیں سیکھا تو کچھ نہیں کیا۔‘

سعد رفیق نے کسی ادارے کا نام نہیں لیا لیکن قدرے واضح ہے کہ ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ میں کس جانب ہے۔ سابق برگیڈیئر اور تجزیہ کار اسد منیر کہتے ہیں کہ ’وہ سب (مسلم لیگ) سمجھتے ہیں کہ اس میں عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز بھی کہتی آئی ہے کہ یہ ان کے خلاف ایک سازش ہے۔ انہیں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی نے پورا موقع دیا کہ وہ اپنی منی ٹریل ثابت کر دیں۔ اس میں میرا نہیں خیال کہ فوج کا کوئی ہاتھ ہے۔ ‘

مسلم لیگ نون کی فوج پر شک کی وجوہات کیا ہیں؟ ایک تو یہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کی پٹیشن کو پہلے غیرسنجیدہ قرار دے کر مسترد کیا جانا اور پھر اچانک اسے سماعت کے لیے منظور کر لینا، مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں فوجیوں کی شمولیت، خفیہ ادارے کے ایک اہلکار کی جانب سے حسین نواز کی تصویر لیک کیا جانا اور ساٹھ روز میں کیسے کمیٹی کی جانب سے اتنا زیادہ مواد اکٹھا کر لینا شامل ہیں۔ اس بارے میں بھی مسلم لیگ کو شک ہے کہ تیاری کسی نے کافی پہلے کر لی تھی۔

آخر فوج سیاستدانوں کے لیے حکمرانی اتنا مشکل کیوں بنا دیتی ہے؟ یہ سوال میں نے اسد منیر کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ فوج نے پاکستان میں طویل حکمرانی کی ہے اور جب وہ چھوڑتے ہیں تو اس میں مکمل طور پر دور ہونے میں وقت لگتا ہے۔ پچھلی حکومت میں بھی میمو گیٹ جیسے مسائل رہے۔ ’بنیادی حقیقت یہ ہے کہ فوج یکدم نہیں جائے گی۔ تواتر کے ساتھ دو چار انتخابات اگر ہوتے ہیں اور مضبوط حکومتیں سامنے آتی ہیں تو وہ یہ کہنے کی حالت میں آئیں گی کہ خفیہ ادارے اپنی بات کہیں لیکن خارجہ پالیسی ہم بنائیں گے۔‘

مسلم لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ان نادیدہ قوتوں کے راستے روکنے کی بات کی ہے۔ کچھ کے خیال میں اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہونا ہوگا۔ لیکن ان کے پاس راستے کون سے ہیں؟ کیا مزید قانون سازی کے ذریعے فوج کی مبینہ مداخلت روکی جاسکتی ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ انتخابات میں اصلاحات کی کمیٹی میں بہت سے باتوں پر اتفاق ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں صدر ضیا الحق کی متعارف کروائی گئی ترمیم کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سب سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ تلوار محض نواز شریف کے ہی سر پر نہیں لٹک رہی ہے۔ ’ان مسائل کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ مئی دو ہزار چھ میں تیار کی گئی میثاق جمہوریت کے بعد اب کسی نئے میثاق کی ضرورت ہے جس میں وہ کھلاڑی بھی شامل کیے جائیں جو اس وقت موجود نہیں تھے۔‘

اسلام آباد کے صحافی زاہد گشکوری جو عدالتی و سیاسی امور کو کافی قریب سے دیکھتے ہیں کا ماننا ہے کہ اگر تمام سیاسی قوتیں اکٹھی نہ ہوئیں تو احتساب کی تلوار چاہے جس کے ہاتھ میں ہو، حزب اختلاف کی تحریک انصاف کے رہنماؤں پر بھی وار کرسکتی ہے۔ ’اگر دو اہم کیس دیکھیں جیسے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے۔ دونوں کی آف شور کمپنیاں تھیں اور بظاہر انھوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی ہیں۔ یہ دونوں بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔‘

سیاستدانوں کیا اس دائمی خطرے کا احساس کے علاوہ اس کے خلاف ایک ہو پائیں گے، لیکن مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں یہ ناممکن نہیں لیکن سیاستدانوں نے ایک جو سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).