ہم ترقی کیوں نہیں کرسکتے؟


تجسس اور مہم جوئی جیسے انسان کی جبلت میں ہے۔ ہر انسان فطری طور پر نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اسکول اور کالج کے زمانے میں ٹوور پر جانا اور نئے علاقوں کی سیر و سیاحت کرنا کم و بیش ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے۔ بچپن سے مجھے بھی نئے علاقوں کی سیر و سیاحت کا بڑا شوق تھا۔ قدرت نے مجھے سوات جیسی خوب صورت وادی کا مکین بنایا ہے تو اس سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ بلند و بالا برف پوش پہاڑی چوٹیوں میں واقع جھیلوں تک پہنچنا کسی مہم سے کم نہیں۔

انھی جھیلوں کی مہم جوئی کرنا اور پھر ان کے بارے میں لکھنا میرا محبوب مشغلہ اور بعد ازاں مشن رہا ہے۔ بعض اوقات سوات کی طلسماتی خوب صورتی کی حامل کسی جھیل تک پہنچنے کے لیے راستے میں پہاڑوں میں رات بھی بسر کرنا پڑتی تھی لیکن جب جھیل کی شفاف پانی پر نظر پڑتی تو اس کی سحر انگیزی سارا تھکن اتار دیتی۔ سوات میں بے شمار ایسی نیلگوں اور ملکوتی حسن رکھنے والی جھیلیں موجود ہیں جن تک کوئی سڑک یا کچا راستا موجود نہیں۔ ان جھیلوں تک پہنچنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے اور ان تک پہنچنا کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔

سوات اب وہ پرانا سوات نہیں رہا ہے۔ بیس پچیس سال قبل دریائے سوات نہایت صاف و شفاف ہوتا تھا۔ اس کا پانی پینے کے قابل تھا لیکن جیسے ہی سوات خصوصاً وادئی کالام میں ہوٹلوں کی تعداد بڑھتی گئی اور ان ہوٹلوں کا ڈرنیج اور سیوریج دریائے سوات میں بہایا جانے لگا تو اس کا پانی آلودہ ہونے لگا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مہوڈنڈ سے لے کر کالام، بحرین، مدین اور مینگورہ تک جتنے بھی ہوٹل اور ریستوران ہیں، ان سب کی گندگی دریائے سوات میں ڈالی جاتی ہے۔ یوں سوات کا یہ تاریخی دریا اتنا آلودہ ہوچکا ہے کہ اس کی آلودگی کی وجہ سے مچھلیوں تک کی زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں لیکن ملکی قوانین اور مقامی انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود کہن دریائے سوات کو انسانی آلایشوں اور دیگر آلودگیوں سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ یہی نہیں بلکہ بلدیہ مینگورہ بھی شہر کا سارا کوڑا کرکٹ اسی دریائے سوات میں ڈال دیتی تھی جس پر کچھ عرصہ قبل ہائی کورٹ نے نوٹس لیا تھا اور بلدیہ مینگورہ کو ایسا کرنے سے سختی منع کردیا تھا۔

اس کے علاوہ مینگورہ میں سوات کی ایک اور خوب صورت وادی مرغزار سے ایک شفاف ندی بہتی ہوئی وادئی جامبل کوکارئی کی طرف سے آنے والی ایک ندی میں مدغم ہوتی ہے لیکن ان ندیوں میں بھی شہر بھر کی غلاظت پھینکی جاتی ہے جو بعد ازاں دریائے سوات سے جا ملتی ہے۔ جس مقام پر شہر کی غلاظت ان ندیوں میں شامل ہو رہی ہے، وہ بلدیہ مینگورہ کے عین سامنے واقع ہے لیکن شہر کی صفائی کے نام پر موجود بلدیہ کے سرکاری اہل کار اور ضلعی ناظم کو اس کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ یہی ندیاں کسی وقت مینگورہ کی خوب صورتی کا باعث تھیں۔ ان کا پانی صاف و شفاف ہوتا تھا لیکن قانون کی عمل داری نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ ندیاں شہر کی بدصورتی کے باعث بن چکی ہیں۔

سوات جو اپنی خوب صورتی اور دل کش مناظر کے لیے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے۔ یہ 1969ء سے پہلے ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قائم تھا۔ اس وقت سوات کا ہر گوشہ بلاشبہ خوب صورت تھا۔ صفائی کا نظام عمدہ تھا۔ پورے سوات میں گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے۔ پہاڑ سرسبز و شاداب تھے۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ میں بھی کھیت و کھلیانوں میں درختوں کے جھنڈ موجود تھے۔ اندرون شہر جگہ جگہ درخت اور سبزہ نظر آتا تھا۔ والئی سوات کی طرف سے درخت کاٹنے پر سخت پابندی عائد تھی۔ یہاں تک کہ کوئی اپنے ذاتی گھر کا درخت بھی نہیں کاٹ سکتا تھا۔ اس کے لیے بھی معقول وجہ بتا کر اجازت لینا پڑتی تھی لیکن جب ریاست سوات پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم ہوئی تو جنت نظیر سوات ایک چھوٹے جہنم میں تبدیل ہوگیا۔

جنگلات کا صفایا کردیا گیا اور جب سوات میں طالبانائزیشن کا ڈراما ہوا تو رہی سہی کسر ’’طالبان‘‘ اور حکام  نے نکال دی۔ ’’طالبان‘‘ بھی جنگلات کا صفایا کرنے والوں سے ٹیکس لے کر انھیں درخت کاٹنے کی اجازت دیتے تھے اور بعض سرکاری اہل کاربھی سوات کے قیمتی جنگلات پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔ یہی نہیں بلکہ شورش کے دوران پاک فوج نے سڑکوں کے کنارے کھڑے درختوں کے جھنڈ اس لیے بھی کاٹ ڈالے کہ ان کا خیال تھا کہ ان درختوں کی آڑ لے کر کہیں ’’طالبان‘‘ ان پر حملہ نہ کردیں۔ حالاں کہ سوات کی ساری خوب صورتی ان درختوں اور اس کی ہریالی کی مرہونِ منت ہے۔ لیکن جب کسی ریاست کا کوئی واضح والی وارث نہ ہوتو طاقت کے سرچشموں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اور ایسے میں طاقت کا کوئی سرچشمہ ریاست کا نہیں رہتا۔ ہر سرچشمہ اپنے مفادات کے تحفظ میں لگا رہتا ہے۔

اتنی طویل تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد میری زندگی کا بقیہ حصہ وطن عزیز سے ہزاروں کلومیٹر دور مختلف ملکوں میں گزر رہا ہے۔ ان ملکوں کی ترقی اور منظم و پرامن زندگی دیکھ کر میں کڑھتا رہتا ہوں۔ یہاں کے لوگ مسائل نامی کسی چیز سے واقف نہیں۔ زندگی کی تمام بنیادی ضرورتیں انھیں با آسانی میسر ہیں۔ حکومت اور سرکاری ادارے آپس میں دست و گریباں ہونے کی بجائے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اچھالتیں۔ کہیں کوئی سیاسی افراتفری نظر نہیں آتی۔ چہروں پر مایوسی، غصہ اور جھنجلاہٹ نظر نہیں آتی۔ لوگ باگ زندگی سے بے زار نہیں بلکہ اس سے خوشیاں کشید کرتے ہیں۔

آج کل میں ناروے کے دارالخلافہ اوسلو میں مقیم ہوں۔ یہ سکنڈی نیون ممالک کا ایک اہم شہر ہے۔ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ جس کی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ یہ اپنے گھنے جنگلات، سبزہ زاروں اور انسان دوست ماحول کی وجہ سے دنیا کے سب سے صاف ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی آبادی یورپ کے دوسرے شہروں کی طرح منظم اور نہایت سلیقے سے کی گئی ہے۔ یہاں زیادہ تر چھوٹے چھوٹے فلیٹس پر مشتمل بلڈنگز بنائی گئی ہیں جن میں بنیادی ضرورت کی ہر چیز کا خیال رکھا گیا ہے۔ شہر میں بڑے بڑے گھر بھی موجود ہیں لیکن ان تک رسائی ہر شخص کے لیے ممکن نہیں۔ کیوں کہ اوسلو دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے بھی ایک ہے۔ ناروے میں چوں کہ سردی بہت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ریاست نے اپنے شہریوں کے لیے گرم اور ٹھنڈے پانی کی سہولت مفت مہیا کر رکھی ہے۔ سردی کے موسم میں گھروں اور فلیٹس کو گرم رکھنے کے لیے سنٹرل ہیٹنگ بھی مفت ہے۔ یہ سہولت کاروباری مراکز کو بھی بلا معاوضہ دے دی گئی ہے۔

اس طرح یہاں علاج معالجہ کی سہولتیں قابل رشک ہیں۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم بھی نہایت منظم اور جدید خطوط پر استوار ہے۔ ایک ہی ٹکٹ میں اندرون شہر میٹرو ٹرین، بس اور شہر کے قرب میں واقع جزیروں تک بڑی کشتیوں میں سفر کیا جاسکتا ہے۔ شہر سے متصل سمندر کا پانی سیاحوں اور اہل شہر کے لیے بہت دل چسپ اور تفریح کے لیے نہایت پرکشش بنا دیا گیا ہے۔ شہر بھر میں کہیں گندگی یا مٹی اور دھول کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ ہر جگہ درختوں کے جھنڈ، پھول اور سبزہ آنکھوں کو طراوت اور دل و دماغ کو فرحت بخشتے ہیں۔ ناروے میں ایک قانون یہ ہے کہ کوئی بھی شخص پلاسٹک کا تھیلا لے کر ٹرینوں، بس ٹرمینل، بس سٹاپوں اور کہیں سے بھی کوئی پلاسٹک یا شیشے کی بوتل کا اکھٹا کرکے معقول رقم کما سکتا ہے۔

بوتل کے سائز کے مطابق اس کا ریٹ مقرر ہے۔ چھوٹے بوتل کے لیے ایک کرون جب کہ بڑے بوتل کے لیے دو کرون کا ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔ جو جتنی زیادہ بوتلیں اکھٹی کرتا ہے، وہ اتنی ہی زیادہ رقم جوڑ سکتا ہے۔ اکھٹی کی گئیں بوتلوں کو شہر کے مختلف مقامات پر لگی مشینوں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں سے ایک رسید پرنٹ ہوتی ہے جس پر ڈالی گئی بوتلوں کے عوض رقم درج ہوتی ہے جس پر کسی بھی بڑے اسٹور میں خریداری بھی کی جاسکتی ہے اور اسے دے کر نقد رقم بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کوئی اسٹور رسید لینے سے انکار نہیں کرسکتا۔ اس طریقے سے نہ صرف شہر صاف رہتا ہے بلکہ استعمال شدہ بوتلوں کو عوامی مقامات سے اکھٹا کرنے سے رقم بھی کمائی جاسکتی ہے۔

اوسلو اپنے میوزیمز، پارکوں، ریستورانوں، فیسٹیولز، اوپرا ہاؤس اور سمندر کے کنارے واقع سیاحوں کے لیے بنائی گئی دل چسپیوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کی ایک غیرمعمولی شہرت نوبل پیس پرائز کے حوالے سے بھی ہے۔ جب بھی یہاں ہر سال نوبل پیس پرائز کا پروگرام ہوتا ہے تو مختلف سلیبریٹیز دیکھنے کے لیے پورا شہر امڈ آتا ہے اور پروگرام کے دن شہر میں خوب گہماگہمی اور رونق لگی رہتی ہے۔ ناروے ایک نہایت پرامن ملک ہے۔ یہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چوری چکاری کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ پولیس نہایت مستعد اور سخت ہیں۔ قانون کی پابندی سب کو کرنی پڑتی ہے۔
اب آتے ہیں دوبارہ اپنے وطن عزیز کی طرف۔ قدرت نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا ہے۔ پاکستان تاریخی، تہذیبی اور قدیم ثقافتی حوالے سے ایک بہت اہم ملک ہے۔ ہڑپہ، موہنجو دڑو، ٹیکسلا اور سوات میں کتنی قدیم تہذیبیں پروان چڑھیں اور زوال پزیر ہوئیں۔ ان کے قدیم آثار آج بھی ماضی کی کہانیاں سناتی ہیں۔

سوات اور خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں گندھارا تہذیب اور بدھ مت کے آثار اس قدر بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ ان علاقوں کے قدیم تاریخی آثار کو عالمی ورثہ کی حیثیت دے کر انھیں نہ صرف محفوظ بنایا جاسکتا ہے بلکہ انھیں دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش بناکر انھیں یہاں آنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اللہ نے سوات، کاغان اور شمالی علاقہ جات کو جتنی قدرتی خوب صورتی و زیبائی دے رکھی ہے، اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں ہیں لیکن اس جدید دور میں بھی ہم سیاحت کو صنعت کا درجہ نہیں دے سکیں۔ قدرتی وسائل کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں گیس، تیل اور کوئلہ کے ذخائر کے علاوہ سونے کی کانیں موجود ہیں لیکن ان سے فائدہ اٹھانے والی اہل قیادت ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔

قدرت نے گوادر کی شکل میں کتنی بڑی نعمت سے ہمیں سرفراز فرمایا ہے لیکن ہم پاک چائنا اکنامکس کاریڈور کی شکل میں صوبائی منافرت اور تنازعات میں پڑے ہوئے ہیں۔ تھر میں کوئلہ کے ذخائر قومی ترقی میں کتنا بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اگر اپنے ذاتی مفاد کی سوچ سے باہر نکلیں تو وہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرسکیں گے۔ خیبر پختون خوا کے بعض علاقوں کوہاٹ، بنوں وغیرہ میں گیس و تیل کے ذخائر سے ہم کوئی فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں۔ سوات، بونیر اور بلوچستان میں سنگ مرمر کا قیمتی پتھر لامحدود مقدار میں موجود ہے لیکن اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لیے بھی اہل لوگوں کی ضرورت ہے۔ سوات اور شانگلہ میں زمرد کی کانیں ہیں، جہاں دنیا کا قیمتی زمرد پایا جاتا ہے لیکن وہ بھی ہمارے لیے مٹی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔

یہ بھی ذرا دیکھیں کہ قدرت نے ہمیں پانی کی کتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے لیکن ہم اسے ضائع کرنے میں کوئی موقع ضائع نہیں کرنے دیتے اور اس سے فائدہ اٹھانا شاید ہماری قسمت میں نہیں۔ پاکستان کے دوسرے دریاؤں سے قطع نظر دریائے سوات جو ہزاروں سالوں سے سال کے بارہ مہینے مسلسل بہتا چلا آ رہاہے، اس پر متعدد مقامات پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کے علاوہ بہت سی جگہوں پر صرف ٹربائن لگا کر ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن کون ہے جو قوم و ملک کے مفاد کے لیے کوئی عملی قدم اٹھا سکے۔ ونڈ ٹربائن کے ذریعے یو کے اپنی ضروریات کی قریباً 26 فی صد بجلی بنا رہا ہے اور ہمارے ملک میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ہر وقت تیز ہوائیں چلتی ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔

غرض ہمارا ملک وسائل کے اعتبار سے جتنا خوش قسمت ہے، قیادت کے لحاظ سے اتناہی بدقسمت ہے۔ اگر ناروے جیسا موسم اور شب و روز کے اعتبار سے ناموافق ملک محض اپنی تیل کی پیداوار سے ترقی کرسکتا ہے اور اس کی قیادت اسے ایک فلاحی مملکت میں بدل سکتی ہے تو آخر ہم کیوں ہر شعبہ میں اتنے پس ماندہ اور درماندہ ہیں۔ ہم اگر اپنے ملک کے دست یاب قدرتی وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ بھی صحیح طریقے سے کام میں لائیں تو ہمارے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔

لیکن جب تک وطن عزیز کا ہر ادارہ خود کو طاقت کا سرچشمہ تصور کرے گا، طاقت کا ہر سرچشمہ جب اپنے مفادات اور ضروریات کے مطابق کسی کو محب الوطن اور کسی کو غدار گردانے گا تو قومی یک جہتی کا تصور پامال ہوتا رہے گا۔ کوئی ایک قومیت خود کو اصل پاکستانی اور دوسری قومیتوں کو اچھوت کا درجہ دے گا تو یہ ملک ہمیشہ بے اتفاقی اور قومی خلفشار کا شکار رہے گا۔ جب سیاست دان اپنے حقیر مفادات کے لیے ملک و قوم کے عظیم مفادات کو داؤ پر لگانے سے دریغ نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہم ترقیِ معکوس کی طرف ہی گامزن رہیں گے۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے ادارے اور اس کے سرکاری اہل کار جب تک اپنے عوام کوعزت اور وقار کے قابل نہیں سمجھیں گے، اس وقت تک نفرتوں کی کاشت ہوتی رہے گی۔ ہمارے ہاں اصل خرابی عوام کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ ریاست جب تک پرائی جنگوں کو اپنی سرحدوں کے اندر لاکر لڑتی رہے گی، اس وقت تک پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور باوقار ریاست نہیں بن سکتا۔ اگر جمہوری اداروں کو مضبوط ہونے کا موقع دیا جائے، جمہوری عمل کے ذریعے بر سراقتدار آنے والی حکومت کو فری ہینڈ دیا جائے اور فوج اور سول حکومت کے درمیان چیک اینڈ بیلنس کا ایک قابل عمل نظام قایم کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدیوں کا سفر عشروں میں طے نہ کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).