امریکہ کی افغان پالیسی اور پاکستان


پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی سفیر کو بتایا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی مالی یا مادی امداد کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کی خواہش ہے کہ امریکہ پاکستان پر بھروسہ کرے، ان کے درمیان افہام و تفہیم ہو اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیاجائے۔ امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے کل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغان پالیسی کے اعلان کے بعد اس کی وضاحت کرنے کے لئے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے جنرل باجوہ سے ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ امریکہ پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے۔ تاہم امریکی سفیر کی اس ملاقات کے دوران ہی واشنگٹن میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گرد گروہوں کی امداد کا سلسلہ بند نہ کیا تو امریکہ نیٹو ممالک کے باہر حلیف کے طور پر اس کی حیثیت کو تبدیل کرسکتا ہے۔ کل صدر ٹرمپ نے پاکستان کو سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔

ایک ہی معاملہ پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان رائے کا یہ اختلاف حیران کن ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ امریکہ سے عزت و احترام کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ امریکہ گزشتہ کئی برس سے اعلان کررہا ہے کہ وہ پاکستان کی پالیسی پر اعتبار نہیں کرتا۔ اس کا دوٹوک اور واضح مؤقف ہے کہ پاکستان ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے اور اس جنگ میں اس نے بے شمار قربانیاں بھی دی ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کرتا ہے جو افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ کل سے پہلے کسی امریکی صدر نے پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا براہ راست الزام عائد نہیں کیا تھا۔ تاہم کل ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ حد بھی عبور کرلی ۔ اگرچہ اس تقریر میں پاکستان کے خلاف کوئی اقدامات کرنے یا پابندیاں عائد کرنے کا اعلان نہیں ہؤا لیکن واشنگٹن سے آنے والے اشاروں میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ امریکہ پاکستان کہ ہر قسم کی امداد بند کردے گا کیوں کہ صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اربوں ڈالر امداد لینے کے باوجود افغانستان کے دہشت گردوں کو مدد فراہم کررہا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان یہ غلط فہمی ایک سوچی سمجھی پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہو تی ہے۔ پاکستان کے لئے افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان، افغان طالبان اور اس کے حامی گروہوں سے ہر قسم کا تعلق ختم کرے یا اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے انہیں مذاکرات کی میز پر لائے تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے اور امریکہ اپنی فوجیں وہاں سے نکال سکے۔ حیرت انگیز پر دونوں ملک ایک دوسرے کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے بھی درمیانی راستہ اختیار کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ امریکہ اس بات کا اعتراف کرتا رہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس کی بہت مدد کی ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کے مطالبات کی فہرست طویل ہوتی گئی۔ اس کے علاوہ اس طویل جنگ میں اٹھائی جانے والی ہزیمت کی ذمہ داری اپنی غلط حکمت عملی کو قرار دینے کی بجائے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر خود سرخرو ہونے کا آسان راستہ نکال لیا گیا ہے۔ امریکہ کے لئے صرف افغانستان میں امن ہی حتمی مقصد نہیں ہے بلکہ وہ مستقبل قریب میں وہاں مستقل فوجی موجودگی کا خواہاں ہے۔ طالبان کسی بھی مفاہمت کے لئے تمام غیر ملکی فوجوں کا انخلا پیشگی شرط کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔

امریکہ صرف اپنے اہداف اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھتا ہے۔ وہ اس جنگ میں طویل مدت تک تعاون کرنے والے پاکستان کی مجبوریوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود وہ یہ تسلیم نہیں کرسکا کہ جب تک مقبوضہ کشمیر میں امن قائم نہ ہو اور اس مسئلہ کا قابل قبول حل تلاش نہ کیا جائے ، اس وقت تک پاکستان ہمسایہ ملک میں بھارت کے اثر و رسوخ میں اضافہ کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ سمجتا رہے گا۔ بھارت افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف تخریب کاری میں مصروف رہتا ہے لیکن امریکہ اس بارے میں پاکستان کے احتجاج اور فراہم کردہ شواہد کو تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ وہ بھارت کے ساتھ وسیع المدت اقتصادی اور اسٹریجک مفادات کی وجہ سے نئی دہلی کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔

امریکہ یہ تسلیم کرنے سے بھی قاصر ہے کہ پاکستان کو طالبان اور دیگر گروہوں پر اتنا اثر ورسوخ حاصل نہیں ہے کہ وہ انہیں مذاکرات کرنے اور جنگ بندی پر مجبور کرسکے۔ اسی طرح پاکستان میں کئی لاکھ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی اور افغانستان کے ساتھ وسیع غیر کنٹرول شدہ سرحد کے سبب پاکستان اگر چاہے بھی تو بھی افغان طالبان کو پاکستان آنے سے پوری طرح نہیں روک سکتا۔ پاکستان، افغانستان میں ایک دشمن حکومت کی موجودگی قبول نہیں کرسکتا۔ لیکن امریکہ اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جو تازہ اقدامات تجویز کئے ہیں، ان کے تحت بھارت کو افغانستان میں زیادہ کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ یعنی امریکہ اب افغانستان میں بھارت کے لئے خود زمین ہموار کرے گا۔ پاکستان کے مفاد کے برعکس اس اقدام کے بعد امریکہ پاک حکومت اور فوج سے کسی بہتری کی توقع نہیں کرسکتا۔

تاہم جنرل باجوہ کا یہ مطالبہ کہ امریکہ پاکستان پر اعتماد کرے اور اس کی خدمات کو قبول کرے، موجودہ تناظر میں ناقابل فہم ہے۔ امریکہ تو پاکستان کی پالیسیوں کو اپنے مفادات کے برعکس قرار دے رہا ہے۔ ایسے میں امریکہ سے احترام کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایسے حالات پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کریں اور امریکہ کے علاوہ بھارت بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ پاکستان کا ساتھ ان کے لئے اہم ہے۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کو اپنی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ تاہم اسلام آباد فی الوقت یہ اقدام کرنے سے انکار کررہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali