قصیدہ بلقیس / نزار قبانی


بلقیس! ۔ ۔ ۔ ۔ اوہ شہزادی

قبائلی جنگوں کی آگ نے
تمہیں جھلسا دیا
اپنی ملکہ کی جدائی پر میں کیا لکھوں؟
میرے الفاظ با عث ندامت ہیں۔ ۔ ۔
جب ہر طرف مظلوموں کے انبار لگے ہوں
ایک ستارے کے لئے جو ٹوٹ گیا ہو
کسی جسم کے لئے
جو آئنے کی کرچیوں کی طرح ریزہ ریزہ ہو جائے
جب ہم اپنی محبت سے سوال کرتے ہیں
کیا یہ تمہاری قبر تھی؟
یا پھر عرب قوم پرستی کا مدفن؟
آج کے بعد میں تاریخ کو نہیں پڑھوں گا
میری انگلیاں جل گئی ہیں،
میرا ملبوس لہو میں لتھڑا ہے
ایسا لگتا ہے جیسے ہم پتھر کے دور میں جا بسے ہوں
جہاں ہر روز ہزاروں برس پیچھے دھکیل دیے جاتے ہوں

بلقیس!
شاعری اس دور کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
اس دور عیار کے بارے میں کیا کہتی ہے شاعری؟
عرب دنیا کچلی ہوئی، مسلی ہوئی، زباں دریدہ ہے
ہم مجسم جرم بنا دیے گئے ہیں

بلقیس!
میں تم سے معافی کا طلب گار ہوں
شاید تمھاری زندگی خود میری زندگی کا تاوان تھی
میں اچھی طرح سے جانتا ہوں
اس قتل میں الجھا ئے جانے سے
ان کا مقصد دراصل
میرے الفاظ کو قتل کرنا تھا
خدا کی پناہ میں رہو
اے حسن بے مثال
تمہارے بعد
شاعری محال ہے

۔ ۔
انگریزی سے اردو ترجمہ
سلمیٰ جیلانی
۔
نظم بلقیس کا پس منظر :
نزار قبانی شام کے مشھور شاعر اور سیاسی مفکر تھے بلقیس عراقی نژاد اسکول ٹیچر قبانی کی دوسری بیوی تھیں ان کی پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں ہوئی تھی۔ بلقیس سے ان کے دو بچے زینب اور عمر ہوئے، 1981 میں لبنان کی خانہ جنگی کے دوران عراقی سفارت خانے پر بمباری کے نتیجے میں بلقیس کی موت واقع ہو گئی اس اندہوناک سانحے نے نزار قبانی کو بالکل توڑ کر رکھ دیا ان کی طویل نظم بلقیس میں اس کے اثرات بآسانی محسوسکیے جا سکتے ہیں جس میں تمام عرب دنیا کو اس قتل کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے بلقیس کی افسوسناک موت کے بعد نزار قبانی نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).