بے نظیر قتل کیس کا نامکمل فیصلہ


راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے دو پولیس افسروں کو سترہ سترہ برس قید کی سزا دی ہے جبکہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا ہے۔ تاہم اس مقدمہ میں گرفتار پانچ دوسرے افراد کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کئی حوالوں سے اہم ہے لیکن اس جرم میں فوج کے سابق سربراہ اور ملک کے سابق صدر کے ملوث ہونے کا فیصلہ خاص طور سے باعث تشویش ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت دس برس بعد اس مقدمہ کا فیصلہ سنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس دوران آٹھ مرتبہ جج تبدیل کئے گئے اور ایف آئی اے کے ایک پراسیکیوٹر کو قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دہشت گردی کے واقعہ میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی 2008 میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہو گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس مقدمہ میں کوئی پیش رفت کرنے اور اصل مجرموں کو سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

آج اس مقدمہ کا فیصلہ سنانے والی انسداد دہشت گردی عدالت بھی اصل مجرموں کا سراغ لگانے یا یہ طے کرنے میں ناکام رہی ہے کہ اس روز بے نظیر کو قتل کروانے کی سازش کس نے تیار کی تھی اور یہ حملہ کیسے منظم کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان نے اگرچہ ذمہ داری قبول کی تھی اور اس سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد گرفتار بھی کئے گئے تھے لیکن عدالت نے ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے انہیں بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن پاکستان تحریک طالبان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود کو بھی دیگر لوگوں کے علاوہ اشتہاری قرار دیاگیا ہے ۔ حالانکہ محسود اگست 2009 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔ جن دو پولیس افسروں کو طویل المدت سزائیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، انہیں غفلت برتنے اور جائے سانحہ کو دھلوانے کے سبب سزا دی گئی ہے ۔ لیاقت باغ میں دہشت گردی کے واقعہ کے فوری بعد جائے حادثہ کو دھلوا دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اہم شواہد ضائع ہوگئے تھے۔ تاہم اب تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ پولیس افسروں نے کس کی ہدایت پر یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام کیا تھا۔ یہ فیصلہ اصل مجرموں کو سزا دینے یا ان تک پہنچنے میں ناکام رہا۔

درحقیقت دس برس بعد سامنے آنے والا یہ فیصلہ سوالوں کا جواب دینے کی بجائے اس گتھی کو مزید الجھانے کا سبب بنا ہے۔ اس فیصلہ سے واضح ہوتا ہے کہ انسداد دہشت گردی عدالتیں اس مقصد میں ناکام ہو رہی ہیں جس کے لئے انہیں قائم کیا گیا تھا۔ ان عدالتوں کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے معاملات کا فیصلہ مختصر مدت میں کرتے ہوئے قصور واروں کو سخت سزا دی جا سکے۔ لیکن ملک کی دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی خاتون اورپیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کے مقدمہ قتل میں بھی فیصلہ دس برس بعد سامنے آسکا ہے۔ اور وہ بھی نامکمل ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ذریعے اس قتل کی تحقیقات کرواکے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا اہتمام ضرور کیا تھا لیکن اس نے بھی قانون اور نظام میں موجود ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی جس کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔

بے نظیر قتل کیس میں دو پولیس افسروں کو غفلت پر سزا دینے اور پانچ مشتبہ لوگوں کی رہائی سے یہی پتہ چلتا ہے کہ دس برس کی مدت اور بے شمار وسائل صرف کرنے کے باوجود استغاثہ کوئی ایسے شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہا جو ان ملزموں کو بدستور حراست میں رکھنے میں معاونت کرسکتے۔ حالانکہ یہ سب ایک دہشت گرد گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ملک کے تفتیشی ادارے بھی اصل مجرموں تک پہنچنے میں عدالت کی مدد نہیں کرسکے۔ اس فیصلہ کے بعد حکومت کو انسداد دہشت گردی قانون اور اس مقصد کے لئے بنائی گئی عدالتوں کا از سر نو جائزہ لینے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے ملک کی ممتاز ترین ہستی کے قتل کے مجرم بھی آزاد گھوم رہے ہیں اور کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ آئن کی اکیسویں ترمیم کے تحت اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں لیکن اس حوالے سے ناقص نظام اور فرسودہ قوانین کو تبدیل کرنے کے لئے اقدام نہیں کیا جاتا۔ جب تک حکومت اس طرف توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتی صورت حال تبدیل نہیں ہو سکتی۔

سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اس اہم مقدمہ میں اشتہاری قرار دینا بھی ایک قابل غور نکتہ ہے۔ پرویز مشرف مختلف حیلوں بہانے سے پاکستان کی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ملک کے اکثر ٹیلی ویژن چینل بھی کسی نہ کسی بہانے سے ان کا انٹرویو کرکے پرویز مشرف کو ذاتی تشہیر کرنے اور سیاسی مؤقف سامنے لانے کا موقع دیتے رہتے ہیں۔ تاہم آج کے فیصلہ سے واضح ہوتا ہے کہ ملک کے سربراہ کے طور پر بے نظیر کی حفاظت کے حوالے سے وہ فاش کوتاہی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس مقدمہ کے دوران انہوں نے عدالت میں حاضر ہونے اور ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔ اب وہ گزشتہ اٹھارہ ماہ سے ملک سے مفرور ہیں حالانکہ وہ یہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ طبی معائنہ کے بعد جلد از جلد وطن واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ اس صورت حال میں ملک کی عدالتوں اور حکومت کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہوگی کہ وہ سنگین مقدمات میں مطلوب اہم لوگوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے میں احتیاط سے کام لیں۔ آخر بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ وہ کون سی طبی سہولت ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ اسے بھی بدعنوانی اور ریاستی نظام کی نااہلی سمجھا جانا چاہئے کہ قابل اعتراض اور مشکوک طبی دستاویزات کی بنیاد پر خطرناک جرائم میں ملوث لوگ ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

پرویز مشرف کا فرار پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ذاتی دلچسپی اور مداخلت کی وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ اس حوالے سے نہ صرف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ریلیف دینے پر مجبور ہوگئی بلکہ سابق فوجی آمر کو بغاوت کے الزام میں سزا دلوانے کی کوشش کرنے والی نواز شریف کی حکومت بھی اپنے سب سے بڑے سیاسی دشمن کی ملک سے روانگی کو نہ روک سکی۔ فوج بطور ادارہ یہ تقاضہ کرتی ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور اس کی خدمات کو تسلیم کیا جائے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے اگر وہ اپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے اصلاح احوال کی کوشش کرے۔

پرویز مشرف کے معاملہ میں اگر فوج انہیں واپس لانے کے لئے اقدام نہیں کرسکتی تو عدالت کے حکم کے بعد وہ اپنے سابق سربراہ کی پنشن اور دیگر سہولتوں کو معطل کرکے یہ تو واضح کرسکتی ہے کہ وہ پرویز مشرف کے اعمال کی ذمہ دار نہیں ہے۔ فوج کی طرف سے لاتعلقی کا ایسا کوئی اقدام سامنے نہ آیا تو فوج کے ارادوں اور کردار کے بارے میں شبہات کو تقویت ملتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali