سیکولرازم کب، کیوں اور کہاں سے آیا؟ (2)


یونان سے تربیت پانے والا پہلا عرب فلسفی الطبری تھا، الطبری نے کہا کہ’’ فلسفی وہ ہے جو غریب ہو، فلسفے اور دولت کا آپس میں کوئی میل نہیں۔ ‘‘اس کے بعد ڈیڑھ سو برس تک ایک زبردست قسم کا دور چلا، جس زمانے میں یورپ میں اندھیروں کا دور تھا، اس زمانے میں دنیا میں مسلمان سورج اور چاند کی طرح چمکے۔ ایک ایرانی مصنف نے لکھا ہے عربوں نے علم کی شمع کو تب روشن کیا جب یورپ اندھیروں میں گھرا ہوا تھا، یورپ کی تاریخ کے اس تاریک دور میں جو مسلمان سائنسدان اور فلسفی پیدا ہوئے ان میں بوعلی سینا، الکندی، راضی، ابن الہیشم، ابن الرشد، البیرونی اور کئی دوسرے تھے، پوری سائنس یہاں ہجرت کر کے آگئی۔

البیرونی محمود غزنوی کے ساتھ سومنات بھی آیا، مندروں میں بیٹھا رہتا تھا، ہندوستان کی تاریخ بھی لکھی، لیکن لوگوں کو اس دور کا پتہ ہی نہیں، لوگوں کو دو چیزوں کا پتا نہیں۔ ایک یہ کہ یونان کا سورج جب یہاں چمکا تو یہاں لوگ کس قسم کے تھے، جن میں کچھ لوگوں کا کوئی نعم البدل پیدا ہی نہیں ہوا۔ مثال عمر خیام ہے، جو دنیا میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا، حافظ بھی نہیں پیدا ہوا، جس میں شیرینی بھی ہو اور لاادریت یعنی لاعلمی بھی ہو کہ’’ مجھے کچھ پتہ نہیں، مجھے معلوم نہیں‘‘۔ یہ ایک بہت بڑی جرات ہے، آپ کو پتہ نہیں تو آپ کافر ہیں، عمر خیام نے کہا کہ’’ گر بر فلکم دست بدی چون یزدان‘‘۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے انداز سے سیکولرازم کی بات کی۔ جس طرح شیخ سعدی نے کہا کہ’’ بنی آدم اعضای یک دیگرند‘‘۔ یہ تصور اس زمانے میں یورپ میں نہیں تھا کہ حضرت آدم کی اولاد ایک دوسرے کے اعضا ہیں اور انسان ذات ایک جسم ہے، ہندو مسلم، ملیچھ سب ایک۔

عمر خیام جیسے لوگوں نے صدیوں پرانے مذہبی تصورات اور گائے ماتا جیسی چیزوں پر رسائی دے دی ان پر سوالات اٹھانے کی جرات پیدا کی۔ یونان کا فلسفہ بھی یہی تھا کہ جس چیز کے بارے میں سوال نہیں اٹھایا جا سکے اس چیز کے بارے میں بات سننی بھی نہیں چاہیے، کائنات کے بارے ہر سوال کیا جا سکتا ہے۔

Question everything under the sun

جو کہتا ہے کہ سوال نہیں پوچھو اسے رد کر دو۔

Anybody who refuses your question, should be refused the hearing.

 جب یہ بات آئی تو ایسی صورتحال میں شک کی گنجائش پیدا کی گئی۔ انسان ذات اپنے بچپن کے ادوار میں تھا، زندگی کو دو تین لاکھ سال ہوئے ہوں گے، لیکن انسان کو پیدا ہوئے ایک لاکھ برس بھی نہیں ہوا۔ سورج دو سو کروڑ سورج میں سے ایک ہے، یہ ایک غریب ستارہ ہے ہمارے محلے میں ہے اس لیے ہم اسے سورج کہتے ہیں، کائناتیں بھی کئی ہیں، ہم اسے پہلوان سورج کے طور پر پیش کر رہے ہیں، لیکن فلکیاتی سائنس کے بقول سورج مشہور ستاروں میں گنا جانے والا ستارہ نہیں ہے، یہ ایک غریب پارٹی ہے۔

کائنات میں انسان کہاں کہاں آباد ہو سکتا ہے اس پر تحقیق ہو رہی ہے، یہ پراجیکٹ چل رہے ہیں، آنے والے کل میں اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔ کئی ستارے ایسے ہو سکتے ہیں جہاں زمین جیسی آب ہوا اور ماحول موجود ہو۔ اگر ہم اس کائنات کو آج کل کے علم کے مطابق سمجھیں گے تو وہ غلط ہے، انسان اب تک آنکھیں نہیں کھول سکا، کائنات کی کہکشائیں پھیلتی جا رہی ہیں، تمام چیزیں برق رفتاری سے آگے کو جا رہی ہیں، نئے ستارے بن رہے ہیں، سمندر بن رہے ہیںِ، زمینں کی پلیٹوں کی حرکات بند نہیں ہوئی، جاگرافیکل، زیز زمین، بایو اسپیرئل اور کائنات کی ارتقا کا عمل جاری و ساری ہے، اس کا ہمارے پاس ابھی تصور بھی نہیں آیا، یہودی دنیا کے مظلوم اور معتوب ترین لوگ ہیں لیکن امریکہ پر حکومت کر رہے ہیں، یہودیوں کی تعداد بھی کم ہے۔ انقلاب ایسے آتے ہیں کہ اگر پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ لوگوں کو شعور، سمجھ اور طریقہ آ جائے تو وہ آسمان کے بلندیوں پر پہنچ سکتے ہیں، آج یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ غریب اور بےکار سمجھی گئی قومیں بھی ستاروں کو چھو سکتی ہیں۔

یورپی تہذیب نے ایشیا کے لوگوں کو آسمانوں تک پہنچا دیا، فردوسی جیسے لوگ پیدا ہوئے، بو علی سینا تھے ان کا کوئی مد مقابل نہیں۔ جو قومیں، فرد، فنامنا اور تنظیمیں اپنے دور کی تمام مشکلات سے مقابلہ کرکے اپنے شعور سے آگے بڑھتی ہیں وہ تاریخ میں سورج پر حکمرانی کرتی ہیں۔ یہ کائنات میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔

یہ سب تھا لیکن کائنات میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جس میں لوگوں نے شک کرنا شروع کر دیا۔ فیض نے کہا ہے کہ خدا ہمیں شک اور سوال پوچھنے کی طاقت عطا کرے، شک کرنے کی منزل دیر سے آئی، کون شک کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔

شاعری ایک فن ہے، میں نے کسی زمانے میں ایک مضمون میں لکھا کہ ’’ فنکار سر تا پاؤں تک زرہ پہنا ہوا وہ سپاہی ہے جو صف اول میں جھوٹ اور ظلم کے خلاف لڑتا ہے، اس نے ایسی زرہ پہن رکھی ہے کہ اسے کوئی پکڑ نہیں سکتا‘‘۔

شاہ لطیف نے کہا ہے کہ ملاں کو کوئی جنت نہیں ملنی، خدا اپنی عام خلق کے ساتھ ہے، ملا کے ساتھ نہیں، شریعت اور کتابیں یہ سب اگر ہیں تو ٹھیک ہیں اگر نہیں تو بھی ٹھیک۔ اگر لطیف نے شاعری والی وہ زرہ پہنی نہیں ہوتی تو پھانسی دے دیتے، شاھ عبداللطیف کا کہنا ہے کہ یہ لوگ گناہ کو نظراٹھا کر بھی نہیں دیکہتے، ہندو، مسلم، شودر، مطلب یہ کہ مذہب پر سوال ہی نہیں اٹھایا جا سکتا، ہندو مسلم میں کوئی فرق نہیں۔ اس حوالہ سے سوال کرنا بھی غلط ہے، لطیف پنڈت، رشی ، منی، زاھد، عابد کو کرت وارا یعنی کام دھندہ کرنے والے کاریگر کہ کر پکارتا ہے۔ لطیف سائیں ان کاریگروں، پنڈتوں اور ملاؤں کو ایک جگہ سہاگن کہتا ہے۔ کہتا ہے کہ’’ ان کے چہرے پر رونق ہے، وہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ جنم داتا میری ہی بات سمجھ رہے ہیں، لیکن مرضی تو اس کی چلی گی کہ وہ کس کی بات مانتے ہیں۔ ‘‘

تاریخ گھومتی پھرتی، آھستہ آھستہ ٹکڑوں میں آگے بڑہتی ہے، سب انسان برابر ہیں، سیکولرازم کی بنیاد یہ ہے، مذہب کے نام پر جو چیزیں ہیں، اس سے واسطہ نہیں، لیکن انسان برابر ہیں، اس چیز کو شک نے آگے بڑھایا ہے، اس کے بعد شعرا کی گستاخی ہے، سب نے کہا کہ یہ شاعر پاگل ہیں، مجذوب ہیں، خدا کے دوست ہیں، خدا سے ناز نخرے کرتے ہیں، یہ مجذوبیت کام آئی، شاعروں نے کہا کہ ہمیں کیا پتہ ہے، عمر خیام نے کہا کہ

گر بر فلکم دست بدی چون یزدان

برداشتمی من این فلک را ز میان

از نو فلکی دگر چنان ساختمی

کازاده بکام دل رسیدی آسان

(ترجمہ) ’ یہ خدا نے جو کائنات بنائی ہے، جتنے اختیارات خدا کے ہیں، وہ اختیارات تنبو بنانے والے عمر کو ہوتے، تو میں اس کائنات کو اوپر سے نیچے ایسے پھینکتا کہ وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی، پھر میں اور ایک ایسا نیا جہاں بناتا جس میں ایک ہی بات ہوتی کہ آرزمند دلوں کی تمام تمنائیں پوری ہ وجاتیں۔ ‘‘

یہ بھی عمر خیام ہی کہتے ہیں کہ

من بد کنم و تو بد مکافات دهی،

پس فرق میان من و تو چیست بگو

میں جو کام خراب کروں وہ آپ کو اچھے نہیں لگیں اور اس کے عوض آپ مجھے سزا دیں، یہ کام تو میں بھی کرتا ہوں پھر تم خدا کیسے ہوئے اور میں بندہ کیسے ہوا؟

ابریق مرا شکستی ربی،

بر من در عیش را ببستی ربی

من می خورم و تو میکنی بدمستی،

خاکم به دهن ، مگر تو مستی ربی ؟

’’میں پتا نہیں کہاں سے یہ شراب مانگ لایا تھا، تم نے کہاں سے ہوا بھیجی، جس سے میری شراب گر گئی، میرے سارے گلاس ٹوٹ چکے، میرے منہ میں خاک، لگ تو یہ ہی رہا کے تم پیے ہوئے ہو اور لڑکھڑا رہے ہو۔ ‘‘

اس طرح قوم پرستی میں فردوسی کا نام ہے۔ یہ سیکولرازم ذرہ ذرہ بن کر ہم تک پہنچا ہے، کوئی بھی تصور مکمل طرح ایک دم سے پیدا نہیں ہوتا، کوئی چیز کہاں سے کوئی کہاں سے آتی ہے، اس کے بعد وہ مکمل چیز بنتی ہے۔ جیسے فردوسی نے شاہنامہ فردوسی میں اپنے بادشاہوں کی تعریف کی ہے۔ وہ بادشاہ جو مسلمان نہیں تھے ان کی بھی تعریف کی ہے، یہ تصور نہیں تھا۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ

بسی رنج بردم در این سال سی،

عجم زنده کردم بدین پارسی

(ترجمہ) ’’ تیس برس سے میں نے بڑے دکھ دیکھے ، لیکن اس فارسی زبان نے ایران جو کہ ناپید ہو گیا تھا اسے قبر میں سے نکال کر پھر زندہ کردیا۔ ‘‘

فردوسی نے یہ بھی لکھا کہ

ز شیـر شـتر خـوردن و سـوسـمار ،

 عــــرب را به جــایی رسیدسـت کار

 که تـــــاج کیــــانــــــی کـــنـــد آرزو ،

 تــفــو بــر تــو ای چــرخ گـــردون تفو

مطلب کے اونٹنی کا دودہ پینے والے اور سانڈھے کا گوشت کھانے والے عربوں کا دماغ اتنا خراب ہوگیا کہ وہ تخت کہہ اور کیان کی شہنشاہی کی آرزو کر رہے ہیں، اے آسمان تھو ہے تم پر۔

اس طرح آہستہ آہستہ لوگوں نے اسٹیٹس کو کو چیلنج کیا۔ اس طرح 712 ہجری کے نزدیک اسپیین میں ابن الہیشم، ابن طفیل، ابن رشد نے ایک دنیا آباد کی، کچھ کتابیں جو ایران میں لکھی گئیں، کچھ تراجم ہوئے جن میں کچھ غلط اور کچھ درست تھے، وہ کتابیں اسپین سے یورپ میں داخل ہوئے، نئے یورپ میں جو بیداری پیدا ہوئی، اس میں یونان کا ہاتھ پہلے تھا، لیکن مسلمان ممالک میں پہ بیداری ان لوگوں کی وجہ سے آئی، لیکن ڈیڑہ سو برس میں مذاہب کے ماننے والوں نے انہیں ختم کیا، محمد بن ذکریا کو گاؤں کو لمبردار نے مار مار کے سر پھوڑ دیا کہ تم نے طبی سائنس پر جو کتابیں لکھیں ہیں ان کو قران پاک میں سے ثابت کرکے دکھاؤ، ابن الرشد کو پکڑ کر یہودیوں کے گاؤں میں چھوڑ دیا گیا کہ یہ یہودی ہے اور ان کے ساتھ رہے بعد میں اسے ایک بڑی مسجد میں لایا گیا، اس کے باہر کھڑا کردیا گیا، سردی کا موسم تھا، تمام نمازیوں کو کہا گیا کہ اس کافر پر ہر نمازی تھوکا جایے، پھر سب مسلمانوں نے ایسا کیا، ساری رات ان پر تھوکا گیا، جس سے اس کو نمونیا ہوگیا اور کچھ دنوں کے بعد مر گیا۔ جو تین لوگ جدید یورپ کے بانی تھے ان میں ابن رشد بھی شامل ہیں۔

اسی طرح سیکولرازم سے پہلے دنیا میں سرمایہ کاری آئی، سرمایہ کاری سب سے پہلے اٹلی میں آئی، اس کے بعد ہالینڈ، انگلینڈ اور آمریکہ میں آخر میں آئی، ان تمام باتوں کے بعد یہ تسلیم کیا گیا کہ سیکولرازم ہونا چاہیے۔ یہ سیکولرازم علم، عدالتن اورالیکشن میں بھی ہو، انسان میں عقیدے کے بنیاد پر تفریق جائز نہیں، یہ تفریق قدرت کے بنیادی قوانین کے خلاف ہے، انسانی ترقی کے خلاف ہے، جہالت ہے۔ انسان دوستی کو آگے بڑھایا جائے، اس سے ترقی ممکن ہے۔

سیکولرازم کی ایک بڑی بنیاد ہمارے پاس بھی موجود تھی۔ اکبر بادشاہ نے درالامشاورت بنائی تھی۔ اس نے بچپن کی شادی پر قدغن لگا دی، سیکولرازم کے بنیادی اصول لاگو کیے۔ دنیا کی نجات کے لئے سیکولرازم ضروری ہے۔ سیکولرازم کو لادینیت کا نام دینا ایک چال ہے۔ مذاہب ہی نہیں، عقیدہ کے بنیاد پر برابری ہونے چاہئے۔ انسان ذات کی بھلائی کے لیے ریاست کو جو کرنا ہے، وہ کرے، یہ سیکولرازم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).