کیا گونگی بہری لائبہ کو انصاف ملے گا؟



زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میں نے بھی دیکھا اور سننے کی سکت نہ رکھنے کے باوجود سنا۔ کیونکہ مجھے اس معاشرے کی بے رحمی کو دیکھنا تھا اور انسانوں کی سفاکی کی داستان کو خود سننا تھا اور پھر  سوچنا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟
ایک دن جب اطلاع آئی کہ فلاں جگہ بوری بند لاش ملی ہے تو رپورٹر ہونے کے ناطے موقع پر پہنچنے کی جلدی تھی کیوں کہ یہ میرے پروفیشن کے فرائض میں نہایت اہم ہوتی ہے۔ راستے میں اطلاع آئی کہ کسی خاتون کی لاش محسوس ہوتی ہے ساتھ میں بچہ بھی ہے۔ لیکن بوری کو ابھی کھولا نہیں گیا تھا کہ پولیس کا انتظار تھا۔ کچھ ملی جلی سی اطلاعات کے ساتھ جب میں موقع پر پہنچی تو دیکھا کہ ایک بوری کو کاٹ کر اس میں ادھ جلی 12 سالہ لائبہ کی لاش کے شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ قتل کا واقعا تھا اور یہ بوری کوئی کوڑے دان کے قریب پھینک گیا تھا۔ ’’باجی اس کی ماں ادھر ہے۔۔۔ پولیس کی گاڑی کے پاس۔۔۔ اپنی بیٹی کی شناخت کرلی ہے اس نے۔۔۔ باجی پوسٹ مارٹم کے لئے لاش لے گئے ہیں۔۔۔‘‘ ڈھیروں آوازوں نے بے ہنگم بھیڑ میں میرا پیچھا کیا، ’’لگتا ہے کسی نے زیادتی کے بعد جلا دیا۔۔۔‘‘ کوئی بولا۔ ’’ارے یہ تو دو دن سے غائب بھی تھی اچھا ہوا مر گئی، کون اپناتا اسے کل کو؟‘‘ سرگوشی گونجی! ’’ماں باپ رسوائی سے تو بچ گئے، رو کر صبر کر لیں گے اب۔۔۔‘‘ کوئی چینخا۔ اور میں ملازمت کے فرائض ادا کرنے کے چکر میں بس یہاں سے وہاں بھاگتی رہی اور آدھی معلومات لئے دفتر لوٹ آئی۔

دن گزرا پھر اگلا دن آیا کہ باس نے بولا آپ کو پتہ ہے کل جس لائبہ کو بوری میں بند کر کے پھینکا گیا تھا وہ گونگی بہری تھی‘‘ یوں لگا کسی نے میرا دل مٹھی میں لے لیا ہو جیسے۔ یہ سوال دماغ میں ابھرا کہ وہ تو ابھی بارہ سال کی تھی ظالم کو کیا ملا ہوگا اس کے جسم سے؟

میرے اس سوال کا جواب مجھے اس دن تو نہیں ملا لیکن کتنے دن بعد جب میں ایک شام ایک استاد کے ساتھ شاہانہ سی محفل میں سوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھی تو ذکر چل نکلا گونگی بہری لائبہ کا۔۔ گھر کی ماسی کی بھانجی تھی وہ، ماسی کے ساتھ ہی آگئی ایک دن، گھر کے رسالے اور پرانے اخبار اکٹھے کئے اور بہن کے پاس لے آئی کہ مجھے یہ پڑھاو، بہن کو بھی ننھی بے زبان کی یہ ادا بے حد بھائی، پیار سے پاس بلایا اور پڑھانے لگی، نرم و نازک انگلیاں لفظوں پر پھرتی، مسکراتی، خوش ہوتی اور یوں بہن کی بھی دلگی ہوگئی، استاد مسکراتے ہوئے لائبہ کی بات بتانے لگی تو میرے لبوں کو بھی مسکان چھو گئی۔

پھر بتانے لگے کہ اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا، ظالموں نے اس بری طرح زیادتی کی اس بےچاری کے ساتھ کہ بچی کے پیٹ کا نچلا حصہ تک کٹ گیا، پھر تیزاب بھی پھینکا اور جلا بھی دیا۔ آنکھوں اور لبوں کے صرف نشان تھے اعضا نہ تھے۔ اتنی اذیت ناک موت تھی کہ بہن تب سے روئے جا رہی ہے اور ماں تو صدمے سے اٹھی ہی نہیں۔۔ لیکن باپ۔۔ ہاں اس نے کہا کہ میری بیٹی کو اللہ نے واپس بلا لیا۔۔ ان کے الفاظ کانوں میں زہر گھول رہے تھے اور میرے سوپ کا چمچا وہیں رہ گیا۔ حلق میں کانٹے اگ آئے۔ تب سے اب تک اس کشمکش میں ہوں کہ ابھی تو جوانی پر قدم رکھنا تو دور بڑھایا بھی نہیں ہوگا، سوچتی ہوگی کہ قصور کیا ہے، بے زبان تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر چیخ کر کسی کو پکار بھی نہ پائی ہوگی۔ ہمارا معاشرہ ایسے مظالم پر بے حس سی خاموشی کی چادر اوڑھے پمیشہ سوتا رہے گا بس۔۔ نہ انصاف کی آواز نہ بدلے کی امید۔ اور ایسے کئی بچیاں اسی نظام کی وجہ سے روز ہوس کے ماروں کے ہاتھوں جان کی بازی ہارتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).