روہنگیا مسلمان، انسانی حقوق اور آنگ سان سوچی جمہوریت


ہمارے ایک محترم دوست ہیں پروفیسر اسماعیل- وہ کبھی کبھی کہتے ہیں (پتہ نہیں صحیح کہتے ہیں یا غلط) کہ اچھی یونیورسٹیاں زندہ شخصیات پر پی ایچ ڈی کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کب بدل جائے اور اپنے پچھلے سارے کام کو خود ہی رد کر دے- ایسی بہت سی مثالیں ملتی بھی ہیں۔ اب کسے یاد ہو گا کہ ونسٹن چرچل نے لیبر پارٹی سے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز کیا اور پھر کزرویٹو پارٹی کے رہنما کے طور پر تین مرتبہ وزیر اعظم بنے۔

یہ بات آج اس لئے یاد آئی کہ آج کسی نے لکھا کہ برما کی آنگ سان سوچی بھی روہنگیا مسلماںوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش ہیں۔ ان خاتون کو 1991 میں امن کا نوبل انعام مل چکا ہے۔ اور آج کل برما کی وزیرخارجہ ہیں بلکہ درحقیقت اس وقت برما کی اصل لیڈر وہی ہیں کیوں کہ اکثریتی پارٹی کی سربراہ ہیں اور صرف ایک قانونی موشگافی کی وجہ سے صدر نہیں بن سکتیں- ساری دنیا جمہوریت کی بحالی اور امن کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کی معترف ہے۔ اسی لئے ان کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

مگر یہ کہنا زیادتی ہو گی کہ آنگ سان سوچی اس انسانی بحران پر خاموش ہیں۔ وہ خاموش نہیں بلکہ اس ظلم کی حمایت کرتی ہیں اور اسے میڈیا کی مبالغہ آرائی بھی قرار دیتی ہیں۔ پچھلے دنوں دئے گئے کئی انٹریوز میں وہ ان سارے الزامات کی نہ صرف تردید کر چکی ہیں اور مسلماںوں پر ہونے والے مظالم کی داستانوں کو میڈیا کی مبالغہ آرائی کہہ کر ایک طرف ہٹا چکی ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ روہنگیا مسلماںوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ ہے۔

اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ پروفیسر صاحب کافی صحیح کہتے ہیں کہ زندہ انسان سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کب بدل جائے اور اپنے پچھلے سارے کام پر خود ہی پانی پھیر دے۔ اور دوسری یہ کہ ہم سب کے ظلم کے پیمانے اور تعریفیں مختلف ہیں۔

آنگ سان سوچی جو کل تک آمریت کے خلاف جدوجہد کا استعارہ تھیں اور دنیا میں ایک مثالی کردار سمجھی جاتی تھیں انہیں آج برطانیہ کے وزیر خارجہ بورس جانسن نے مسلمانوں کے ساتھ رکھے جانے والے سلوک پر خبردار کیا ہے۔ گویا برطانیہ کے وزیر خارجہ کی نظر میں اب آنگ سان سوچی بھی ظلم کی ساتھی ہیں، امن کی علمبردار نہیں رہیں۔ اب وہ بھی اس بات کی مثال بن چکی ہیں کہ انسان مرنے سے پہلے پہلے اپنے کئے کرائے پر خود پانی پھیرنے کی صلاحیت سے مالامال ہے۔

دوسری طرف وہ یہ بھی ثابت کر رہی ہیں کہ امن اور حقوق کے ضمن میں ہم سب کے پیمانے بالکل مختلف ہیں۔ برما کی نوبل امن انعام یافتہ خاتون کو جو برما میں ہو رہا ہے وہ ظلم یا زیادتی نہیں دکھائی دیتا اور نہ ہی ان کی امن کی تعریف میں کوئی فرق پڑتا ہے چاہے مسلمانوں کا قتل عام ہو یا ان کی خواتین کے ساتھ ریپ ہو، چاہے ان کے معصوم بچوں کے دریاؤں اور ندیوں میں بہتے لاشے خبروں کی زینت بنیں۔

بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے اپنے ملک میں اقلیتوں کی چرچ جلانے سے، ان کی بستیوں پر اجتماعی حملے کرنے سے، ان کی لڑکیوں کواغوا کر کے اور زبردستی مسلمان بنا کرکم عمری کی شادیاں کرنے نہ تو امن میں کوئی فرق پڑتا ہے نہ ہی اقلیتوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ نہ کسی کے کلیجے پر چھری چلتی ہے ہر جگہ میرے جیسے ہی منافق اور دوغلے لوگ موجود ہیں۔ جن کی اپنی اپنی امن اور حقوق کی تعریفیں ہیں جو کہ صرف اپنے ہم مذہب یا ہم عقیدہ لوگوں پر زیادتی کی شکل میں جذباتی تقریروں اور تحریروں کی شکل میں سامنے آجاتی ہیں۔ بدھ مت کو امن اور شانتی کا مذہب کہنے والوں کو بدھوں کے ہاتھوں مسلماںوں پر ہونے والی زیادتیوں پر ایک بھی لفظ کہنے کی توفیق نہیں بالکل اسی طرح جس طرح اسلام کو امن اور سلامتی کا مذہب کہنے والوں کو کبھی طالبان اور ان کی حرکتوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی منہ نکالنے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔ اور نہ ہی کبھی ان کو خیال آیا ہے کہ ان دھماکوں میں مرنے والے بھی مسلمان اور انسان تھے اور ان کے بھی کوئی حقوق تھے

اور رہا ہمارا نظریہ اور خیال تو اب تک تو وہ بالکل واضح ہے کہ برما کے مسلماںوں پر ظلم کرنے والوں اور ان پر چپ رہنے والوں پر بھی لعنت۔ پاکستان میں اقلیتوں کی حقوق غصب کرنے والوں، مسیحی پاکستانیوں کے چرچ اور بستیوں پر حملے کرنے والوں، ہزارہ برادری کا قتل عام کرنے والوں اور ان سب پر چپ رہنے والوں پر بھی اللہ کی پھٹکار۔ مگر کیا معلوم پروفیسر اسماعیل صاحب کے قول کے مطابق یہ خیال اور نظریہ بھی کبھی بدل جائے اور ہمیں بھی صرف برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم نظر آئیں اور کوئٹہ میں ہزارہ کا قتل عام ،شام اور عراق میں یزیدیوں کی خواتین پر ہونے والے مظالم، یمن میں حوثیوں پر ہونے والی بمباری اور ایران میں سنیوں کی مذہبی حق تلفیاں نظر آنا بند ہو جائیں۔ جب ایسا ہو گا تو یقیناً پھر ہم جنت کے حقدار ہو جائیں گے اور سکون کی نیند سویا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).