مسلمان صحافی کے تند و تیز سوالات آنگ سان سوچی مشتعل ہو گئیں


میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی اُس وقت غصہ میں آگئیں تھیں جب برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک مسلمان میزبان نے انٹرویو کے دوران اُن سے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے حوالے سے سوال کیا۔

دی انڈیپینڈنٹ نیوز پیپر کے صحافی اور حالیہ شائع ہونے والی کتاب ‘دی لیڈی اینڈ دی جنرلز آن سانگ سوچی اینڈ برماز اسٹرگل فار فریڈم’ کے مصنف پیٹر پوفم نے دعویٰ کیا ہے کہ اکتوبر 2013 میں نشر ہونے والے مذکورہ انٹرویو کے موقع پر آنگ سان سوچی نے آف ایئر غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا، ‘ مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ میرا انٹرویو کوئی مسلمان لے گا’.

انٹرویو میں بی بی سی کی پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان میزبان مشعل حسین نے آنگ سان سوچی سے روہنگیا اقلیت کے خلاف ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کا جواب دینے پر زور دیا تھا، واضح رہے کہ میانمار میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ آنگ سان سوچی کا اصرار تھا کہ وہ تشدد نسلی بنیادوں پر نہیں تھا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بدھ مت کے ماننے والے بھی تشدد کا شکار ہوئے، خوف دونوں جانب موجود تھا۔

اطلاعات کے مطابق محترمہ آنگ سان سوچی برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام میں شریک تھیں۔ پروگرام کی خاتون میزبان پاکستانی نژاد برطانوی صحافی مشعل حسین تھیں جنہوں نے آن سانگ سوچی پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ امن کی پرچارک کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ سوالوں کے کیا جواب دے۔ اپنی معتبر شخصیت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور رہنما آنگ سان سوچی اس موقع پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’انھیں کسی نے بتایا کیوں نہیں کہ ان کا انٹرویو ایک مسلمان خاتون لے گی‘؟

پیٹر نے دی انڈیپنڈنٹ میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس واقعے کا ذکر کیا، جس کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ یہ انھیں ایک ‘قابل اعتماد’ ذریعے سے معلوم ہوا تھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رابطہ کرنے پر بی بی سی ترجمان نے اس حوالے سے رائے دینے سے معذرت کرلی، واضح رہے کہ آن سانگ سوچی کو روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر کوئی ایکشن نہ لینے پر پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).