ڈیورینڈ لائن پر پاکستان کے لئے امید کی کرن


پاکستان کے لئے شدید سفارتی تاریکی میں امید کی ایک ہلکی سی کرن امریکی ایوان نمائندگان کی ایک سب کمیٹی میں بحث کے دوران سامنے آئی ہے۔ یہ کمیٹی افغانستان کے لئے امریکی امداد کے سوال پر غور کر رہی تھی کہ عام طور سے پاکستان پر تنقید کرنے والے رکن کانگریس بریڈ شیرمن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تنازعہ کا سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2430 کلومیٹر طویل ڈیورنڈ لائن کو دنیا بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتی ہے لیکن افغانستان اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس طرح وہ پاکستان کے وسیع علاقوں پر اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ امریکہ اگر طالبان سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے افغانستان کے لئے اپنی امداد کو اس بات سے مشروط کرنا چاہئے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد کے طور پر قبول کرے۔ کانگریس کے رکن بریڈ شیرمن کا کہنا تھا کہ اس طرح افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی تشویش ختم ہو سکتی ہے اور وہ حقیقی معنوں میں تعاون پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ بھارت ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بالواسطہ افغانستان کے موقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس لئے افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ پاکستان کے لئے تشویش کا سبب ہے۔ سب کمیٹی کے متعدد ارکان نے یہ سوال اٹھایا کہ امریکہ جب تک اس صورت حال کو سمجھتے ہوئے مناسب حکمت عملی تیار نہیں کرتا، اس وقت تک جنوبی ایشیا میں اس کے اثر و رسوخ کو موثر بنانا ممکن نہیں ہے۔

امریکہ کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی اور دہشت گرد حملوں میں پاکستان ملوث ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے قبل پالیسی اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر براہ راست الزام عائد کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس رویہ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی حکومت، فوج اور پارلیمنٹ نے امریکی صدر کے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان پر طالبان کی سرپرستی کرنے کے الزامات سامنے آتے رہے ہیں لیکن کسی امریکی صدر نے براہ راست پاکستان پر ایسا الزام عائد نہیں کیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد جسے ملک کی نئی پالیسی کے طور پر پیش کیا گیا تھا پاکستان پر شدید دباﺅ میں اضافہ ہوا تھا۔ پاکستان کسی صورت امریکہ سے تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس کی فوجی اور سول قیادت یہ واضح کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور مشرقی افغانستان میں پاکستان دشمن دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں اور بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے ان کی امداد اور تربیت کے ماحول میں پاکستان کے لئے چوکس رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ پاکستان نے 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملوں کے بعد اگرچہ طالبان سے قطع تعلق کرنے اور امریکہ کو مکمل امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس وقت کے فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف، پالیسی میں اس ڈرامائی تبدیلی کے باوجود امریکہ سے کوئی بڑی سفارتی رعایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ گو کہ فوجی تنصیبات اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کے عوض کولیشن سپورٹ فنڈ قائم ہوا اور اس میں سے پاکستان کو سالانہ معاوضہ ملتا رہا ہے۔

اس فنڈ میں گزشتہ سترہ برس کے دوران امریکہ نے پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد رقم ادا کی ہے لیکن افغان طالبان کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات میں امریکہ اسے پاکستان کو فراہم کی گئی بھاری امداد قرار دیتا ہے جبکہ پاکستان کی حکومت کولیشن سپورٹ فنڈ سے ملنے والے وسائل کو سہولتیں فراہم کرنے کا معاوضہ کہتی ہے۔ پاکستان کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں امریکی حملہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے حالات میں پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ تاہم امریکہ کولیشن سپورٹ فنڈ سے ہونے والی ادائیگیوں کو ہمیشہ سیاسی دباﺅ اور پاکستان کو مطعون کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا۔ گزشتہ برس امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی نے 8 ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لئے منظور شدہ 270 ملین ڈالر کی رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب بھی اس فنڈ سے ادائیگی کو پاکستان کے اچھے رویہ کی تصدیق اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا گیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد نہیں چاہئے بلکہ ان قربانیوں کا احترام چاہئے جو پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل کی ہیں۔ 9/11 کے بعد پاکستان میں دہشت گردی سے 50 سے 60 ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ان میں 6 ہزار سے زائد فوجی اور سیکورٹی فورسز کے ارکان تھے۔ پاک فوج نے اتنا جانی نقصان 1965 کی جنگ ستمبر میں بھی نہیں اٹھایا تھا جس کا سامنا اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کرنا پڑا ہے۔

یہ صورت حال پیدا ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے صدر بش کے دباﺅ پر طالبان کے خلاف امریکی مہم جوئی میں شامل ہونے کا فیصلہ تو کیا لیکن اس تعاون کی حدود متعین کرنے اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے نمٹنے کے لئے اقدامات کا احاطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس وقت کی فوجی حکومت اس بات پر ہی مطمئن تھی کہ اسے عالمی سفارتی تنہائی سے نجات مل گئی ہے اور امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں نے نہ صرف پرویز مشرف کی حکومت کو قبول کیا بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انہیں اہم ترین حلیف کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔ پرویز مشرف ذاتی طور پر تو مقبول ہو گئے لیکن پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔ اس لئے کولیشن سپورٹ فنڈ جو دراصل پاکستانی فوج کی خدمات، سہولتوں کی فراہمی اور جنگ سے ہونے والے نقصان کے ازالہ کے طور پر دیا جاتا تھا، امریکہ کے احسان اور امداد کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ اب صدر ٹرمپ اپنے پالیسی بیان میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کو ارب ہا ڈالر کی امداد دی گئی لیکن وہ ان عناصر کی حمایت کر رہا ہے جو ہمارے فوجیوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ اگر مشرف حکومت نے اس حوالے سے واضح معاہدہ کرکے تعاون فراہم کرنے اور اس کا معاوضہ وصول کرنے کے معاملات کو طے کیا ہوتا تو امریکی صدر کو یہ بے بنیاد دعویٰ کرنے کاحوصلہ نہ ہوتا۔ اسی غیر ذمہ دارانہ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ امریکہ ایک دہائی تک قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا رہا۔ شروع میں یہ حملے پاکستان میں فراہم کئے گئے فوجی اڈوں سے کئے جاتے رہے لیکن پاکستان نے سرکاری طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا کہ مشرف حکومت نے امریکہ سے ان حملوں کے بارے میں کوئی معاہدہ کیا تھا۔

جس طرح سابق فوجی حکمران ضیاالحق کی طرف سے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے سے ملک میں ایسی انتہاپسندی کا آغاز ہوا جو اب دہشت گردی کی صورت میں سامنے آ رہی ہے، اسی طرح پرویز مشرف کی حکومت میں امریکہ کی مدد کرنے کے حوالے سے ایسی غیر واضح اور غلط حکمت عملی اختیار کی گئی جس کے نتیجے میں ایک طرف یہ جنگ پاکستانی علاقوں تک پھیل گئی اور دوسری طرف سفارتی سطح پر پاکستان مسلسل کمزور ہوتا رہا۔ امریکہ افغان جنگ میں کامیابی کے لئے پاکستان کا محتاج رہا ہے لیکن اس نے خطے میں اپنے وسیع تر اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لئے بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانا ضروری سمجھا۔ پرویز مشرف کی حکومت اگر القاعدہ کے خلاف کارروائی کے لئے بے چین امریکی حکومت کے سامنے بعض واضح سیاسی اور سفارتی شرائط رکھتی تو پاکستان آج پیش آنے والی صورت حال سے بچ سکتا تھا جس کا اسے امریکہ کی ناراضی اور اقوام عالم کی تنقید کی صورت میں سامنا ہے۔

ان میں سے ایک شرط ڈیورنڈ لائن کو قبول کروانے کا معاہدہ ہو سکتا تھا جس پر اب امریکی کانگریس میں آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ پر واضح کیا جاتا کہ امریکہ کے زیر اثر افغان حکومت کو ڈیورنڈ لائن کو مصدقہ عالمی سرحد قبول کرنا ہوگا ورنہ پاکستان اس جنگ میں ملوث نہیں ہو سکتا تو کوئی قابل قبول معاہدہ ممکن ہو سکتا تھا۔ ڈیورنڈ لائن برطانوی حکومت کے نمائندے سر مارٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے والی عبدالرحمان خان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت 1896 میں وجود میں آئی تھی۔ اس کے بعد سے دنیا بھر نے اس سرحد کو قبول کیا ہے لیکن افغانستان اس سرحد کو مسترد کرتا ہے اور عملی طور پر پاکستان کے وسیع علاقوں پر اپنی حاکمیت کا دعوے دار ہے۔ اسی رویہ کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن پر سرحدی کنٹرول اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور جب بھی پاکستان سرحدی چوکیاں بنانے یا سرحد پر باڑ لگانے کی بات کرتا ہے تو افغان حکومت شدید احتجاج کرتی ہے۔

ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ حل کرنے کی بات اگرچہ امریکی کانگریس کی ایک سب کمیٹی میں کی گئی ہے لیکن پاکستان کو اسے اپنی سفارتی کوششوں کے لئے اہم بنیاد کے طور پر استعمال کرنا چاہئے۔ یہ بات شدت سے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ افغانستان جب تک پاکستان کی موجودہ سرحدوں کو قبول نہیں کرتا اور بھارت اس ضمن میں کابل کی مدد کرتا رہے گا، پاکستان اپنی سلامتی کے بارے میں تشویش کا شکار رہے گا۔ امریکہ کے مفاد کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو دھمکیاں دینے کی بجائے افغانستان کو عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali