وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی دھمکی یا التجا!


نواز شریف کی نااہلی کے بعد نئے وزیراعظم کا خطے اور دنیا کے بدلتے ہوئے نئے ماحول میں دلچسپ بیان سامنے آیا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دھمکی نما التجا یا التجا نما دھمکی آمیز انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے پاکستان پر پابندیاں لگائیں یا فوجی امداد میں کمی کی تو وہ مجبوری کے عالم میں چین اور روس کی جانب دیکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں پاکستان کا روایتی موقف دہراتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کاوشوں پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوششوں کو نقصان پہنچانے والے اقدامات امریکہ کے لئے نقصان کا سبب بنیں گے۔ یہ بیان ایسے ماحول میں سامنے آیا ہے جب امریکہ کی جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی پالیسی سامنے آ چکی ہے اور اس پالیسی میں پاکستان کے سامنے کئی سنگین سوالات کھڑے کئے گئے ہیں۔

امریکہ کی نئی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنا پرتو نظر نہیں آیا جو ان کا اس سے قبل خاصا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ تاثر پختہ تھا کہ وہ کسی کی نہیں سنتے اور جو ان کے من میں سما جائے وہی فیصلہ کرتے ہیں۔ مگر نئی امریکی پالیسی میں ٹرمپ کے وعدے دھواں بن کر اڑ چکے ہیں اور اس پالیسی پر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا عکس نمایاں ہے۔ افغانستان میں مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ ، بھارت کو اہم کردار ادا کرنے کی دعوت اور پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی اور منظم اور بلاتفریق کارروائی نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں یہ واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ بھی گزشتہ امریکی حکومتوں کی جانب سے کی گئی غلطیاں دہرانے جا رہی ہے۔

امریکی قیادت میں نیٹو اتحاد کے لاکھوں فوجی بھی جب افغان طالبان کو مغلوب کرنے میں ناکام رہے تو مزید تین ہزار کے لگ بھگ فوجی بھیجنے سے صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی کوئی معرکہ سر کیا جا سکے گا۔ اسی طرح بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کی دعوت دینا گویا اس امریکہ کو اپنے ہاتھوں سے اس جنگ میں ناکامی کی جانب دھکیلنا ہے۔ بھارت کے افغانستان میں اثر و رسوخ سے نہ صرف پاکستان کی ناراضگی سوا ہو جائے گی بلکہ چین اور روس بھی اس امریکی اقدام کو خوش آئند قرار دینے سے احتراز کرتے ہوئے رکاوٹیں کھڑی کریں گے۔ افغان تنازعہ کے بنیادی فریق افغان طالبان بھی بھارت کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ اس طرح امریکہ کی جانب سے بھارت کو زبردستی افغانستان میں گھسیٹنا دونوں ممالک کے لئے سودمند ثابت نہیں ہو گا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے انٹرویو میں بجا طور پر یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں مشترکہ کوششوں کی کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان پر پابندی یا فوجی تعاون میں کمی امریکہ کے لئے نقصان دہ ہو گی کیوں کہ اس سے دونوں ممالک انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں متاثر ہوں گے اور فوجی امداد میں کٹوتی، ایف 16 طیاروں کی فروخت کی منسوخی پر ہم مجبوراً چین اور روس کی جانب جائیں گے۔ گو وزیراعظم کایہ پیغام واضح ہے مگر بوجوہ امریکہ اس پیغام پر کان نہیں دھرے گا۔ دنیا اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان پر لازم ہے کہ روایتی بیانات کے دائرے سے باہر نکل کر عملی اقدامات اٹھائے۔ ملکی مفادات کی عکاسی کرتی سفارتی پالیسی ، مثبت سوچ ، دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی سنجیدہ کوششیں پاکستان کو ایک بار پھر درست ڈگر پر لا سکتی ہیں۔ عملی اقدامات اٹھائے بغیر کوہلو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں دوڑنے سے نہ ملک کو کچھ حاصل ہو گا اور نہ دنیا آپ کی بات سننے اور ماننے پر تیار ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).