اب خط نہیں آتے، منحوس بل آتے ہیں


زندگی بہت تیز ہوچکی ہے ۔اتنی تیز کہ کبھی کبھی اس  کی رفتار کے مطابق چلنا دشوار لگتا ہے۔اس کی تیزی سے خوف آتا ہے  ۔سنا ہے کوئی تیس پینتیس  سال پہلے  یہ سب ایسا نہیں ہوتا تھا ۔زندگی دھیمی ہوا کرتی تھی ۔ سب  اس  کی رفتار  سے ہم قدم رہا کرتے تھے ۔اگر کوئی پیچھے رہ جاتا تو زندگی   ٹہر جاتی ۔پیچھے رہنے والا کا انتظار کرتی ۔اسے ساتھ لے کر پھر ہی آگے  کا سفر دوبارہ شروع کرتی۔

مگر اب ایسا نہیں ہے ۔آج کل تو بس چند ہی لوگ اس کے ہم قدم ہیں ۔جن کے جینے کا مقصد صرف اس کے قدم سے  قدم ملا کر چلنا ہے ۔یہ لوگ اس بات سے خوف زدہ  رہتے ہیں کہ کہیں دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں ۔یا زندگی ان سے آگے نہ نکل جائے ۔شاید    اسی لیے یہ چند ہی ہیں۔اور زندگی ناپید ہو کر رہ گئی ہے ۔بے قیمت سی ۔جہاں سب کچھ مصنوعی ہے ۔بازار میں عام  ملنے والی مرغی سے  لے کر دل کی گہرائیوں میں بسنے  والے جذبات تک  سب  مصنوعی ۔بے قیمت ۔

میں چھوٹا تھا ۔کوئی چوتھی یا پانچویں جماعت میں ۔ٹوٹی پھوٹی اردو لکھنا آتی تھی گزارا ہونے لائق ۔بڑے دو بھائی کیڈٹ کالج میں پڑھا کرتے تھے ۔رابطے کا  سب سے کارگر  ذریعہ خط تھا ۔ٹی سی ایس   اس  زمانے میں نہیں آیا تھا ۔پاکستان پوسٹ  سے ہی گزارا ہوا کرتا تھا ۔ہفتوں کی محنت کے بعد  دو پنوں کا خط تحریر کر لیا کرتا تھا میں ۔اس خط میں بیشتر باتیں تو فضول ہی تھیں۔شاید خط  لکھنے کے اصولوں کے مطابق یہ سرے سے خط  ہی نہیں تھا  ۔مگر میرے لیے تو یہ خط تھا ۔میرے جذبات جو اس میں ہوا کرتے تھے۔۔صبح ہونے کا انتظار کیا جاتا ۔اور بڑے احتمام سے صبح صبح   پاکستان پوسٹ کے لال ڈبے میں خط ڈال کر اپنی طرف اطمینان ہوجاتا  کہ دو ایک ہفتے میں یہ خط بہر صورت  مل ضرور   جائے گا ۔

پھر چار ایک ہفتوں میں اس خط کا جواب خاکی رنگ کی قمیض  پہنے ڈاکیا دروازے پر دے جاتا۔شاید یہ   خاکی وردی والے ڈاکیے کے آخری ایام تھے ۔تبھی صرف قمیض خاکی تھی ۔پتلون وہ اپنی مرضی کی ہی پہنتا تھا ۔بہرحال اسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی ۔خوشی جس کو لفظوں میں بیان  شاید نہ کیا جاسکے ۔اور ویسے بھی میں یہ مانتا ہوں کہ جذبات کو الفاظ ایک حد تک ہی  بیان کرسکتے ہیں ۔ایک مہینے کے بعد جواب میں لکھا گیا  دو پنوں کا خط ۔خاکی رنگ کی قمیض پہنے ڈاکیا ۔یہ سب آج بھی اس لیے یاد ہے کیونکہ ان سے جڑی یادیں تسکین بخش  ہیں ۔

آج ایسا نہیں ہے۔ آج صرف  عجلت ہے ۔تیزی ہے ۔آج کا ڈاکیہ ،جسے رائیڈر کہا جاتا ہے ۔اسے دیکھ کر ہی موڈ خراب ہوجاتا ہے ۔پہلی بات جو دل میں آتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ ہو نہ ہو ضرور منحوس   کسی کریڈٹ کارڈ کا بل ہی لایا ہوگا ۔کسی بینک کا خط ہوگا ۔جو کہ نام بدل کر ہزاروں لوگوں کو بھیجا گیا ہوگا ۔یہ صرف میرے لیے تو نہیں ہے ۔ یہ تو کسی printerکی لکھائی ہے ۔ لفظوں کا ریلا ہے ۔جسے اندھا دھند بانٹ دیا گیا ہے   ۔ یہ تو جلدی جلدی  کیا گیا ایک کام ہے ۔ایک بیزار ی ہے ۔اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے یہ ۔

کبھی کبھی فارغ وقت میں گھڑی کی سوئیوں   کو غور سے دیکھیے گا ۔سارا وقت اسی کے اندر قید ہے ۔اس لیے نہیں کہ یہ وقت دکھاتی ہے ۔اس لیے کہ اس کی تینوں سوئیاں عرصہ دراز سے  ایک ہی دائرے میں دوڑے جا رہی ہیں ۔ خود گھوم پھر کر اسی جگہ آجاتی ہیں  اور ہمارا وقت  بدل دیتی ہیں ۔سیکنڈ والی سوئی آج کل کے دور کی ہے ۔تیز ہے ۔جلدی میں ہے ۔اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔تیز تیز بھاگ کر یہ گھنٹے والی سوئی سے  آگے چلی جاتی ہے ۔جیسے آج کل کے لوگ ہیں ۔خود غرض جن کے جینے کا مقصد صرف زندگی    میں مطلب پانا ہوتا ہے    ۔مگر ٹھیک آدھے منٹ کے بعد  پھر سے گھنٹے والی  سوئی   کے پیچھے رہ جاتی  ہے ۔ یہ سیکنڈ والی سوئی کی زندگی کا  المیہ ہے ۔پھر سے ناراض گھنٹے والی سوئی کو منایا جاتا ہے ۔جیسے یہ خود غرض لوگ پکڑے جانے کے بعد کرتے ہیں ۔جب گھنٹے والی سوئی مان جاتی ہے ۔تو پھر سے دھوکہ دے کر اس سے آگے نکل جاتی ہے ۔یہ سلسلہ تا حشر چلتا رہے گا ۔

منٹ والی سوئی سیکنڈ والی سوئی سے زیادہ خطرناک ہے ۔یہ ان لوگوں کی طرح ہوتی ہے جو آپ کے ساتھ  امیدوں کے محل بناتے ہیں ۔جو آپ سے زندگی کی مشکل ترین  گھڑی میں ساتھ رہنے کے وعدے کرتے  ہیں ۔آپ کو ان پر  اندھا اعتبار ہوتا ہے۔ یہ لوگ  گڑ سے بھی میٹھے ہوتے ہیں ۔پر وقت آنے پر سب سے بڑے دغا باز یہی پائے جاتے ہیں ۔

   جب ہر آدھے منٹ میں سیکنڈ والی سوئی دھوکہ دے کر آگے چلی جاتی ہے تو  منٹ والی سوئی  پورے آدھے گھنٹے تک   وفا   کی قسمیں کھاتی ہے ۔محبت  کا یقین دلاتی  ہے ۔گھنٹے والی سوئی کو اس پر اعتبار ہونے لگتا ہے ۔وہ اسے اپنے قریب لاتی ہے ۔پر افسوس یہ  بھی قریب آنے کے بعد بالکل سیکنڈ والی سوئی  کی طرح دغا باز بن جاتی ہے ۔پر پھر وہی ہوتا ہے جو دنیا میں ہم انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔کچھ وقت لگتا ہے مگر یہ بھی پھر سے گھنٹے والی سوئی کے پیچھے     رہ جاتی ہے ۔حواس ٹھکانے آنے  کے بعد یہ بھی  منت سماجت کرنا شروع کرتی ہے ۔اس میں اور سیکنڈ والی سوئی میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے دھوکے اور وفا  دونوں کی مدت کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔کام دونوں ایک سا ہی  کرتی ہیں ۔

زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہو کر رہ گئی ہے ۔سب کے سب سیکنڈ اور منٹ والی سوئی کی طرح جلدی میں ہیں ۔سب کو گھنٹے والی سوئی سے آگے نکلنا ہے ۔خود وقت کو تیز کرتے ہیں ۔پھر خود  ہی وقت کو کوستے ہیں ۔ قدرت کا نظام ہے ۔منٹوں اور سیکنڈوں کو گھنٹے  کے پیچھے ہی رہنا ہے اسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا ۔اگر کر بھی لے گا تو تھوڑے ہی عرصے کے لیے ۔آگے بڑھیے مگر جذبات کو مرنے نہ دیجیے ۔ہم جتنا بھی تیز دوڑ لیں    رہنا ہمیں اسی دائرے میں ہے  ۔اور گھوم پھر کر وہیں آئیں گے جہاں سے شروع ہوئے تھے ۔تو پھر سکون کیوں نہ اختیار کیا جائے ؟۔گیجٹز     بہت ہوگئے۔ کچھ   جذبات کا بھی استعمال دوبارہ کر کے دیکھیں ۔اس زندگی کی تیزی نے انہیں زنگ لگا دیا ہے ۔ہمارے تھوڑے ہی استعمال کے بعد پھر سے روانی کے ساتھ دل سے ہوتے ہوئے  ہماری زبان  پر آجائیں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).