حلقہ این اے 120 لاہور: شریف فیملی بمقابلہ عمران خان


پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان این اے 120 کے لیے بہت زیادہ پُرعزم ہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نتائج سے پتہ لگے گا کہ عوام شریف خاندان (جن پر وہ قومی خزانے کو لوٹنے کا الزام لگاتے ہیں) کی حمایت کرتے ہیں یا سپریم کورٹ کا ساتھ دیتے ہیں جس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا اور ان کے اور ان کے خاندان کے مقدمات نیب کو بھیج دیے۔

یہ مشابہت عجیب ہے۔ گزشتہ ٹریک ریکارڈ کے مطابق جس طرح عمران خان بڑے بول بولتے ہیں تو پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع محسوس کرتے ہیں کہ ایک ایسا حلقہ جہاں شریف خاندان کیلئے بہت کچھ داو پر لگا ہے وہاں جیت کا امکان بہت کم ہے۔ جہاں تک الیکشن کے متوقع نتائج کا تعلق ہے توانھیں بہت سے خدشات ہیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ اگر ان کی پارٹی الیکشن میں بڑے مارجن سے ہارتی ہے تو عمران خان کے لیے این اے 120 سے متعلق استعمال کی گئی سیاسی زبان کو ثابت کرنا بہت مشکل ہو گا۔ آج رات جب نتائج آئیں گےتو ضمنی الیکشن کو پانامہ کیس کے فیصلے سے جوڑنے کا ان کا بیان غلط ثابت ہو جائے گا۔

آئندہ الیکشن سے پہلے ،شریف خاندان کے وہ خوش نصیب ترین افراد جو احتساب کی چکی سے بچ جائیں گے وہ اہم ہوں گے اور عمران خان کے بڑھتے ہوئے سیاسی چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے اکٹھے ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شریف خاندان میں بیگم کلثوم نواز جوآج این اے 120 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی خالی کردہ سیٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں، سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔ وہ سیاست میں نئی نہیں ہیں، جب 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد ان کے خاوند، بیٹا اور شہباز شریف جیل میں تھےتو انہوں نے مشرف حکومت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے بڑے رہنماوں کی سازشوں کا بھی سامنا کیا۔ دسمبر2000 میں جب ان کی فیملی جلا وطن ہوگئی، حتیٰ کہ 2007 کے اختتام پر جب شریف خاندان واپس لوٹا تو بھی بیگم کلثوم نواز عملی سیاست سے دور رہیں۔

اگر آئندہ چند ماہ میں احتساب اتنا سخت ہوتا ہے کہ دونوں خاندانوں سے سنبھالا نہیں جاتا تو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے چھوٹے بیٹے سلمان شہباز بھی اپنے خاندان کی نمائندگی کر سکتے ہیں اور مشکل وقت میں بیگم کلثوم نواز کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ ابھی تک بزنس مین سلمان سیاست سے دور ہی رہے ہیں۔ لیکن مستقبل میں حالات انھیں اس بے رحم راستے پرچلنے کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت دونوں خاندانوں نے اپنی بھلائی اور بقاء کے لئے اختلافات ختم کر دیے ہیں۔ اب آنے والے دنوں اور شاید برسوں میں عمران خان کا مقابلہ بیگم کلثوم نوازاور مریم نواز سے ہو گا- گزشتہ کچھ عرصے سے عمران خان اور ان کے ساتھی یہ سمجھ چکے ہیں اور اسی لیے وہ پانامہ کیس میں مریم نواز کو بھی ملوث کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ چند سال سے کچھ ذاتی وجوہات کے باعث شریف خاندان انھیں سیاست میں لانے سے گریز کر رہا تھا۔ لیکن یہ خودبخود ہونا ہی تھا۔ اپنے طور پر مریم نواز جانتی ہیں کہ سیاسی مخالف اور خفیہ ہاتھ سیاست میں ان کا داخلہ روکنے کے لیے سرگرم ہیں۔ باقی سب کانٹوں کے کھیل پر منحصر ہے ، یہ کس طرح کھیلا جاتا ہے اور کس طرح موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی حالات کو اپنی حمایت میں کیا جاتا ہے۔ جب تک کلثوم نواز موجودہ بیماری سے مکمل صحت یاب نہیں ہو جاتیں، حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخابات مریم کے اعصاب اور مہارت کا امتحان ہوگا۔ اگرچہ مریم کے لیے یہ حلقہ سیاسی طورپر آسان ہے کیونکہ گزشتہ 30 سال سے ان کے والد اور ان کے سیاسی ساتھیوں کو یہاں سے کبھی شکست نہیں ہوئی۔ لیکن ان کے لیےچیلنج صرف جیتنا نہیں بلکہ ایک ایسی فتح حاصل کرنا ہے جس سےوہ بطور سیاستدان اور الیکشن کمپینئر کے طور پر اپنا مقام بنا سکیں اور یہ فتح اپنے وزیراعلیٰ چچا شہباز شریف اوران کے بیٹے حمزہ کی مدد کے بغیر ہو۔ اور یہ ان چھوٹی چھوٹی گیمز کے درمیان ہو رہا ہے جنھیں خفیہ اور نظر نہ آنے والے ہاتھ کھیل رہے ہیں ،جیسا کہ چھوٹی لیکن تنگ کرنے والی ملی مسلم لیگ کو تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مستقبل میں ایک لامحدود محاذ آرائی کا پیغام دینا ہے۔

جب تک بڑے شریف ان کے ساتھ صلح نہیں کرتے تو’’جیسے کو تیسا‘‘والا طریقہ اختیارکیا جائے یا بہادر بن کر ہر مشکل کا سامنا کیاجائے۔ حلقے میں واضح مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہے جبکہ پی پی پی بڑے زرداری صاحب کی بیان بازی کے باجود غیر اہم ہو رہی ہے۔ نیوز لیکس کے بعد مریم نواز کےخلاف خفیہ طاقتیں سرگرم ہیں ، ان کا اہم ہدف یہ ہی ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی جیت کےمارجن کو کم سےکم کیا جائے۔ اب یہ ان کی کئی سازشوں میں سے پہلا قدم ہو سکتا ہےکہ مریم نواز کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو کم کیا جائے۔ اگر یہ نشست سابق وزیراعظم نواز شریف نے خالی نہ کی ہوتی توآج لاہور میں ہونے والے این اے 120 کے انتخابات کسی اور طرح کے ضمنی انتخابات ہو سکتے تھے۔ جس طرح انھیں نااہل کیا گیا اس پر وہ ابھی تک غصے میں ہیں۔

اس لیے انھوں نے اگست کے آغاز میں جی ٹی روڈ پر ایک کامیاب مارچ کیا، جسے ان کے سیاسی مخالفین نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس معاملے پر طاقتوراداروں نے کھلے عام اورخفیہ طور پر نفرت کا اظہار کیا۔ اس وقت یہ سیٹ بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکی ہے بلکہ 28جولائی کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد ملک کو جو سیاسی دھچکا لگا ہے اس کے باعث یہ مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ضمنی الیکشن کی اہمیت پر نظر ڈالیے۔ یہاں سے رواں ماہ ستمبر کے اختتام پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا بطور وزیراعظم انتخاب ہونا تھا۔ نواز شریف نے تالیوں کی گونج میں پاکستان مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی میں یہ اعلان کر دیا تھا۔ اوراس وقت وہاں شہباز شریف اور باقی لوگوں نے خوشی سے اسے مان لیا تھا۔ لیکن پُراسرار طریقے سے اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔

بظاہر اس کے پیچھے وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف کے جانے کے بعد صوبے پنجاب کو کمزور نہ ہونے دیا جائے کیونکہ  2018 کے انتخابات بھی قریب ہیں۔ لیکن شریف فیملی کے ذرائع شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے جانے کے فیصلے کی منسوخی کی وجہ شریف خاندان میں اقتدار کی حصہ داری کا کوئی معاہدہ موجود نہیں تھا، اور یہ لندن میں تیار کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے صاف گو اورقابل ِاعتماد شاہد خاقان عباسی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت رہنے تک وزیراعظم کے عہدے پر قائم رہیں گے، حتیٰ کہ شیخ رشیدجیسے’’خفیہ ہاتھوں ‘‘کے مہرے انھیں ’’ قطرایل ا ین جی معاہدے‘‘کے حوالے سے دھمکا رہے ہیں۔ لیکن چند دنوں میں اس حلقے نے کس طرح سے قسمت بدل دی ہے۔

اب بیگم کلثوم نواز اس سیٹ کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار بن چکی ہیں اور مریم نواز کے پاس پارٹی رہنما اور بڑے شریف صاحب کی سیاسی وارث بننے کا موقع ہے۔ ایک ایسی غیرعلانیہ سیاسی طاقت جس نے کئی ماہ اور سال تک اپنے والد نواز شریف کی سیاست کو مضبوط کرنے کے لئے پردے کے پیچھے رہ کر کام کیا (میڈیا حکمت عملی اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی مخالفین کا مقابلہ کیا)،مریم اب حقیقی سیاست میں آ چکی ہیں۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی جانب سے ان کے والد کی بطور وزیراعظم نااہلی اوران کے خالی کردہ سیٹ این اے 120 میں ضمنی انتخابات نے مریم کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں ، لیکن اس میں کچھ تاخیر ہو چکی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ کی رائے ہے کہ انھیں بہت پہلے ہی سیاست میں آنا چاہیے تھا۔

اب شریف خاندان کیلئے سخت وقت ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں ان کی نظر ثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے اور اب آنے والے دنوں میں وہ احتساب عدالتوں کا سامنا کریں گے۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کا سامنا کرنے سے پہلے مریم کو بہت سے سیاسی فن، چالیں اور تجربات سیکھنے ہوں گے۔ اُن حالات میں انھیں اپنے والد اور چچا کی بھرپور حمایت حاصل ہو گی۔ تب تک انھیں سیاسی وراثت، اپنے والد کی شہرت اور سابق وزیراعظم نواز شریف پر انحصار کرنا ہو گا، جو گرے ہیں لیکن باہر نہیں ہوئے۔ سیاسی مخالفین کی رائے سے قطع نظر ،جی ٹی روڈ مارچ کے باعث وہ کافی حد تک سیاسی طور پر بحال ہوچکے ہیں۔

پانامہ کیس میں کامیابی کے بعد اپنے سیاسی کیرئیر کے عروج پر عمران خان کو ’’طاقتور حلقوں‘‘ اور ’’نیوٹرل امپائر‘‘ کی خاموش حمایت حاصل ہے۔ تاہم ان کے کچھ باخبر ساتھی خوفزدہ ہیں کہ وہ ان طاقتور حلقوں کی حمایت سے محروم ہو سکتے ہیں اگر نواز شریف کی بے دخلی کے بعد مستقبل میں ’’مائنس ٹو‘‘ کی ڈیل ہوتی ہے۔ ابھی تک ان کے مخالفین جو بھی سوچیں، عمران خان یقیناَ پاکستانی سیاست کے اہم کھلاڑی ہیں۔ ان کے حریف اور ہم عصر کمزور ہو چکے ہیں اور اب  2018 کے لئے بطور وزیراعظم آگے آنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے 15 مشکل سال تک تمام مشکلات کا مقابلہ کیا حتیٰ کہ چند طاقتورذہنوں نےانھیں مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کی سیاسی قسمت پر جوا کھیلا۔ پھر ذہین طاقتوں پاکستانی عوام کو ایک نیا مقبول رہنما دینے کے لئے ہاتھ ملائے۔

دوسری جانب مریم نواز کو ابھی لمبی چھلانگ لگانی پڑے گی اورجب ان کے چچا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے خلا کو پُر کرنے اور پارٹی کا صدر بننے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے وزیراعظم بننے کی تیاری کر رہے ہیں تو انھیں اپنی جگہ بنانی پڑے گی۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن دوبارہ اقتدارحاصل کرتی ہے توانھیں 2018 کے انتخابات کے بعد شہباز شریف کا نائب بننا پڑے گا۔ یا پھر نوازشریف اور شہباز شریف کے خاندان کے درمیان طاقت کے حصہ داری کا جو معاہدے طے پاتا ہے اسے اپنانا پڑے گا، جس کے تفصیلات لندن میں لکھی جا رہی ہیں۔

تاہم ، انھیں ایک خاص امتیاز حاصل ہے کہ وہ سیاسی قسمت ، جدوجہد اور اپنے والد کی مقبولیت کے ساتھ بیگم کلثوم نواز کی محتاط نگرانی میں شریف خاندان کی جانب سے منتخب کی گئی ہیں۔ عمران خان کے برعکس ان کی ابھرتی ہوئی سیاسی مخالف  مریم نواز ابھی تک سابق وزیراعظم نواز شریف کی وارث ہیں۔ تاہم شریف خاندان کے رہنما کے طورپر باقاعدہ ان کا اعلان نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب عمران خان 15سال سے زائد عرصے تک سیاسی بیاباں میں بھٹکتے رہے، پھر انھیں مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا گیا تا کہ شریف اور زرداری کا مقابلہ کیا جا سکے۔

(فصیح الرحمان – بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).