آج کی تازہ افواہ کیا ہے؟


لاہور سے کلثوم نواز کے جیتنے کے بعد اگرچہ نواز شریف نے اپنی عوامی مقبولیت ثابت کی ہے لیکن ایک حلقہ میں کامیابی ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہیں لا سکتی۔ حلقہ 120 کے انتخاب کو سیاسی مبصرین نے نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے لئے بے حد اہم قرار دیا تھا۔ اگرچہ اب ان اندازوں اور قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی نئی افواہوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ بہت سے حلقے اب بھی یقین سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے ہی کوئی غیر متوقع سیاسی تبدیلی سامنے آسکتی ہے۔ اس حوالے سے ٹیکنوکریٹ قومی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے تاکہ ملک کو درپیش مسائل سے نمٹا جا سکے اور اس کے بعد جمہوری نظام کے مستقبل کے بارے میں بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ بظاہر ان اندازوں کا کوئی جواز موجود نہیں ہے لیکن ایسی خبروں کو نہ صرف یہ کہ پذیرائی ملتی ہے بلکہ ان پر سنجیدہ مباحث بھی کئے جاتے ہیں۔ قومی حکومت کے قیام کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور نواز شریف سیاسی کردار سے دستبردار ہونے پر راضی نہیں ہیں۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد ان کے حوصلوں میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ افواہوں کے مطابق مقتدر حلقے اس صورت حال سے بچنا چاہتے ہیں۔

ملک میں منتخب حکومت موجود ہے جو بظاہر سب اداروں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے اور فوج یا سپریم کورٹ سے تصادم کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر منتخب وزیر اعظم اپنا عہدہ چھوڑ کر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کررہا ہے اور نیب پوری مستعدی سے نئے و پرانے مقدمات سامنے لارہی ہے۔ ملک کا وزیر داخلہ چلاّ رہا ہے کہ یہ کارروائی نئی مشکلات پیدا کرے گی لیکن سپریم کورٹ کی نگرانی میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کارروائی زور شور سے جاری ہے۔ نظر ثانی کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے ججوں نے بار بار یقین دلایا ہے کہ ان کے ریمارکس یا نگرانی کے باوجود کوئی ٹرائل کورٹ دباؤ محسوس نہیں کرے گی۔ اس لئے نواز شریف اور ان کا خاندان اطمینان سے احتساب عدالتوں کا سامنا کریں، انہیں پورا انصاف ملے گا۔ یہ پوچھے بغیر کہ جس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے تیار نہیں اور جو وزیر اعظم کے خلاف کوئی اختیار نہ ہونے کے باوجود خصوصی آئینی اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ اصرار کر رہی ہے کہ یہ طریقہ درست تھا مگر کیوں، اس کا جواب بعد میں دیا جائے گا۔ ایسی صورت حال میں جب سپریم کورٹ کا حکم مانا جا رہا ہو، عدالتیں بے خوف ہوں اور حکومت لاچار مگر تابعدار ہو، تو ملک میں تبدیلی، جمہوری نظام میں تعطل اور انتخابی عمل کو مؤخر کئے جانے کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں۔

اس سوال کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ فوج کو نواز شریف کا ساتھ پسند نہیں۔ عدالتیں ان کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور انہیں سیاست سے باہر رکھنے کے لئے ادارے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔ اس جواب کو تقویت دینے میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جو مسلسل سپریم کورٹ کے فیصلہ کو سازش قرار دے رہے ہیں۔ یہ ’سازش‘ اس حد تک تو سمجھ آتی ہے کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے راستے مسدود کئے جا رہے ہیں لیکن ملک میں جمہوریت کو نواز شریف کی ذاتی مشکلوں سے کیوں خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف ایک شخص کا نام ہے اور اس پر غلط کاریوں کا الزام ہے۔ ملک کے مقبول سیاسی حلقوں نے ان کی نااہلی کے لئے مسلسل مہم جوئی کی ہے اور اب وہ اس مقصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اگر ایک نظام میں سپریم کورٹ اس قدر بااختیار ہو کہ وہ منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے سکے اور اگر کوئی سیاسی پارٹی اس قدر بااثر ہو سکتی ہو کہ وہ منتخب وزیر اعظم کو معزول کروانے کے لئے کامیاب تحریک چلا سکتی ہو تو اس سے تو جمہوریت کے مضبوط ہونے اور نظام کے استحکام کا پتہ چلنا چاہئے۔ لیکن اس کے برعکس عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ جمہویت کے خلاف اسکرپٹ تیار ہے اور جلد یا بدیر کوئی ایسی تبدیلی آنے والی ہے جو ملک پر بالواسطہ مارشل لاء کی صورت میں نافذ کردی جائے گی۔ یہ بات بظاہر ناقابل فہم ہے لیکن تجزیہ کار ماضی کی روشنی میں ایسی ہر خبر پر کان دھرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔

یہ سراغ لگانا آسان نہیں لیکن اس کے لئے چھوٹے چھوٹے رویوں کو سمجھ کر تصویر مکمل کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے۔ لاہور کے انتخاب میں کلثوم نواز کے مدمقابل کئی درجن امید وار تھے تاہم سب سے طاقتور امیدوار پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں۔ انہوں نے جی جان سے مقابلہ کیا اور 48 ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئیں۔ لیکن تحریک انصاف اس نتیجہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ ایک بار پھر دھاندلی کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس معاملے کو کہاں تک کھینچا جائے گا، لیکن اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک میں عوامی تائید سے انصاف عام کرنے والی جماعت بھی تحمل اور جمہوری عمل پر یقین کا اظہار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کسی بھی انتخاب کو صرف اسی صورت میں شفاف مانا جائے گا اگر اس میں کوئی خود کامیاب ہو۔ اس لئے جب ملک کے مسلمہ جمہوری طریقہ سے کامیاب ہونے کی خواہش رکھنے والی جماعتیں اور افراد بھی اس عمل کی شفافیت کے علاوہ اس کے نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ جمہوریت دراصل عوامی انتخاب کا نام نہیں ہے بلکہ صرف وہ جمہوریت قابل قبول ہو سکتی ہے جس میں ایک خاص امید وار یا پارٹی کامیاب ہو سکے۔ کوئی بھی پارٹی اپنی باری کا انتظار کرنے یا ناکامی کے بعد مد مقابل کو مبارک باد دیتے ہوئے آئیندہ بہتر کارکردگی دکھانے کا اعلان کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ جب جمہوریت کے نام نہاد ’محافظین ‘ کا یہ طرز عمل ہوگا تو جو طاقتیں جمہوریت کو غیر ضروری ایکسرسائز سمجھتی ہیں، وہ کیوں اس نظام کی مضبوطی اور احترام کے لئے کام کریں گی۔

ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے لئے پارلیمنٹ کو با اختیار بنانا اور تمام اہم فیصلے وہاں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں یہ اعلان کرتی ہیں لیکن اسے تسلیم نہیں کرتیں۔ اسی لئے حلقہ 120 میں انتخاب منعقد ہونے کے بعد بھی بعض پارٹیوں کے امید واروں کو یقین تھا کہ اس مقصد کے لئے سپریم کورٹ ہی مناسب پلیٹ فارم ہے۔ اسی لئے کلثوم نواز کے خلاف نااہلی کی درخواستوں کو واپس لینے کی بجائے ان کے حق میں دلیل دینا ضروری سمجھا گیا۔ آخر سپریم کورٹ کو ہی کہنا پڑا کہ عوام کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے۔ اسی سیاسی کلچر کی وجہ سے آصف علی زرداری ملک میں غیر جمہوری رویوں کی روک تھام کے لئے کسی مناسب آئینی ترمیم میں تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں ان کی ایسی تائید کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ ان سے ناراض نہ ہو جائے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ نواز شریف اور فوج کے درمیان دوری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی لئے وہ بالکل اسی طرح اب نواز شریف سے ملنے یا فون پر بات کرنے سے گریز کررہے ہیں جیسا نواز شریف نے 2015 میں زرداری کی ’ تخت یا تختہ‘ والی تقریر کے بعد کرنا ضروری سمجھا تھا۔ جو بات اس وقت نواز شریف سمجھنے کے لئے تیار نہیں تھے، وہی بات اب زرداری جاننے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ دونوں ’بڑے‘ اپنی اپنی جگہ پر ضرور کائیاں ہوں گے لیکن اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ جمہوری سیاستدانوں کے مقابلے میں غیر منتخب کرداروں کی اصل طاقت سیاسی عناصر کا باہمی انتشار ہی ہے۔ جب تک سیاستدان اصولوں پر مفاہمت یا اختلاف کی بجائے ذاتی فائدے نقصان کے لئے جمہوریت کا نام استعمال کرتے رہیں گے، افواہ سازوں کی چاندی ہو گی۔

ایک بھائی کو ہتک آمیز طریقے سے وزارت عظمیٰ سے برطرف کیا گیا۔ وہ عوامی مہم جوئی کے ذریعے اس عدالتی فیصلہ اور درپردہ ’سازشوں‘ کا مقابلہ کرنے کا اعلان کررہا ہے۔ لیکن دوسرا بھائی جو پنجاب کا وزیر اعلیٰ ہے، اس مہم جوئی سے لاتعلق ہے اور بھائی کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اداروں سے تصادم میں فائدہ نہیں، نقصان ہے۔ یہی حال اس رفیق خاص کا ہے جو 35 برس کی رفاقت کے بعد انتہائی دشوار وقت میں اپنے رہنما کو کچوکے لگانے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ شہباز شریف ہو یا چوہدری نثار علی خان، یہ بتانے کی زحمت نہیں کرتے کہ جمہوری طریقے سے خود کو منوانے کی بات کرنے سے کیوں کر تصادم ہو سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مشکل میں گھرے بھائی اور ساتھی کو تنہا چھوڑ کر اپنی اپنی سیاست کے لئے میدان ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے اپنی بیمار بھاوج اور تائی کی انتخابی مہم میں کردار ادا کرنے کی بجائے بیرون ملک بیٹھ کر تماشا دیکھنا ضروری سمجھتے رہے۔ حالانکہ پورا ملک چلّا چلّا کر کہہ رہا تھا کہ اس ضمنی انتخاب میں کامیابی نواز شریف کی شہرت اور سیاسی مستقبل کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کی ساکھ اور اتحاد کے لئے بے حد ضروری ہے۔ لیکن انہوں نے اس کامیابی میں کردار ادا کرنا ضروری نہیں سمجھا کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ نواز شریف کے بعد ان کی سیاسی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہوگا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر عوام بدستور نواز شریف کے نام پر ووٹ دینا چاہتے ہیں تو درپردہ ساز باز بھی اس رجحان کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

حلقہ 120 میں مسلم لیگ (ن) کی قوت توڑنے کے لئے راتوں رات بنائی گئی ملّی مسلم لیگ کو میدان میں اتارا گیا۔ اس جماعت کے سرپرست اعلیٰ حافظ سعید اور اس پارٹی کا سارا ڈھانچہ جماعت الدعوۃ کا فراہم کردہ ہے۔ یہ وہی حافظ سعید ہیں جو حقانی نیٹ ورک کے بعد پاکستان کی مشکلوں کا سب سے زیادہ سبب بنے ہوئے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف فرنٹ سٹیٹ ہونے اور قربانیاں دینے کے دعوے دار یہ سمجھنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں کہ ان کی ایسی حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہائی اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم وہ غلطیاں دہرانے پر مصر ہیں جو پہلے ہی ہمارا راستہ کھوٹا کرچکی ہیں اور جو مسلسل ہماری راہ میں کانٹے بچھا رہی ہیں۔ یہ کانٹے سمیٹنے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے مسلسل ان عناصر کو ریاست کا اثاثہ سمجھا جارہا ہے جو اس کے لئے بوجھ بن چکے ہیں۔ کیوں کہ سیاسی چال بازی میں ان سے بہتر مہرے دستیاب نہیں ہو سکتے۔ اور دین کا لبادہ اوڑھے یہ عناصر عوام کو گمراہ کرنے میں سب سے زیادہ تیر بہدف ہو سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ مذہب کے نام پر جو تعصب اور انتہا پسندی عام کرتے ہیں، وہی ان دہشت گردوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے، جن سے مقابلہ کرتے ہوئے ہماری فوج کئی برس سے ہلکان ہو رہی ہے۔

یہ صرف اشارے ہیں۔ مکمل تصویر بنانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ لیکن اس تصویر کا ہر جزو ایک مکمل کہانی بیان کرتا ہے۔ اور اس ہر کہانی کا ایک ہی انجام ہے۔ لیکن اس انجام کو جاننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اب مریم نواز بھی اپنی علیل والدہ کی عیادت کرنے اور انہیں انتخابی کامیابی کی مبارک باد دینے لندن روانہ ہو چکی ہیں۔ کیا اسکرپٹ لکھنے والوں نے عام نظروں سے پوشیدہ کاغذ پر یہی تحریر کیا تھا۔ جب تک نواز شریف وطن واپس نہیں آتے، یہی خبر سب سے بڑی افواہ کے طور پر لوگوں کے گوش گزار کی جاتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali