اُردو زبان اور عورتیں 


اردو شاعری میں محبوب کو اس طرح مخاطب کیا جاتا ہے جیسے وہ عورت نہیں بلکہ مرد ہے۔ اس کی وجوہات پیچیدہ ہیں۔ ایک وجہ یہ تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تصوف کی شاعری عشقیہ یا جنسی جذبات کی آئینہ دار نہ بن جائے۔ چونکہ تصوف کی شاعری کا محبوب ایک الوہی شخصیت ہے لہذا اسے خوبصورت لڑکے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ تاہم لکھنو میں اردو غزل میں جنسی تلازمے داخل ہو گئے اور طوائف غزل کا محبوب بن گئی۔ اس محبوب کی عمومی شخصیت یہ تھی کہ وہ اپنے عاشقوں سے بے نیاز ہے، شرمیلی ہے، بے وفا ہے اور ستمگر ہے۔ اور یقیناً انتہائی خوبصورت اور دل آویز بھی ہے۔

غزل کے علاوہ جو عورت اور مرد کے رومانی رشتہ کے مختلف پہلوﺅں کی عکاسی کرتی ہے، دوسری اصناف مثلاً “ہزل “، “ریختی” اور “واسوخت “بھی ہیں۔ “ہزل “ایک غیر شائستہ صنف تھی، “واسوخت”میں جنسی تلازمے ہوتے تھے اور “ریختی ” شاعری کی تمام اصناف سے مختلف تھی۔ جہاں دوسری تمام اصناف میں مرد عورت کے متعلق گفتگو کرتا ہے “ریختی “میں عورت اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے ۔ لیکن اسے لکھنے والے شاعر مرد ہی ہوتے تھے۔ خصوصا انشاءاللہ خان انشا، جان صاحب اور نازنین نے اس صنف میں نام کمایا۔ “واسوخت” میں عورت اپنے مخصوص نسوانی الفاظ و محاورات میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ جنسی مسائل پر بات کرتی ہے۔ یہ صنف عورتوں کے متعلق منفی تاثر قائم کرتی ہے۔ اس کے بعد ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے ناولوں میں “اچھی “عورت کا کردار پیش کیا۔ یہ ایک گھریلو عورت تھی۔ یہ سادہ، شریف النفس، شائستہ، با اخلاق تھی اور سماجی روایتوں اور حدود کو بخوشی قبول کرتی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نذیر احمد کے ناولوں کی عورتیں جنسی طور پر معصوم اور پاکیزہ تھیں اور “ہزل ” ریختی ” اور “واسوخت” کی عورتوں کی طرح بننے سنورنے اور عشق بازی میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔

دیکھنے والی یہ بات یہ ہے کہ ہر صورت میں مرد ہی کی شخصیت تشکیل دیتا ہے۔ یہ مردانہ غلبہ کے حامل معاشرے کی ایک خصوصیت ہے۔ مردوں کی ضرورت تھی کہ ان کے گھروں میں رہنے والی عورتیں پاکباز، سادہ اور با اخلاق ہوں لہذا انہوں نے عورت کے مثالی کردار کے لئے اسی قسم کے پیمانے وضع کئے۔ مردوں کو عشق بازی سے بھی لگاﺅ تھا لہذا “غزل” کی عورت رومان پرستی کی علامت ہے۔ تاہم اس سچی اور پاکباز محبت کے سوا انہیں جنسی لذت کی بھی خواہش تھی لہذا “ہزل” اور ‘واسوخت” کی عورتیں تخلیق کی گئیں۔ بعض اوقات وہ عورتوں اور عورت نما مردوں پر ہنسنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے “ریختی” میں ایک کردار وضع کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں عورت کی شخصیت کے یہ تمام پہلو مردوں کی ضرورت کے مطابق تھے۔

مردوں کی جانب سے عورتوں کے متعلق استعمال ہونے والی زبان کے علاوہ ایک مسئلہ عورتوں کی اپنی زبان بھی ہے۔ اس سے مراد وہ الفاظ لہجے، آوازیں اور اظہار ہیں جو خصوصاً نسوانیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ “ریختی” میں ایسے الفاظ کی بھرمار ہوتی تھی۔ مثلاً ہریان (کسی مرد یا چیز کو مسترد کرنا)، زنخی، نوج (ناپسندیدگی)، مردوا (مرد کے لیے لفظ) وغیرہ۔

آج کل یہ الفاظ متروک ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عورتیں مندرجہ ذیل الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ ہائے، ہائے اللہ، اف، اف اللہ، ہائے میں مر جاﺅں وغیرہ۔ ان الفاظ اور اظہارات سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ عورت اور مرد کی سماجی حیثیت اور کردار مختلف ہیں۔ عورتوں اور مردوں میں فرق بذات خود کوئی منفی بات نہیں لیکن برصغیر میں اس تفریق سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ عورت کو ہمیشہ مرد سے کمتر سمجھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ گھریلو کاموں میں جتی ہوئی عورت اپنے مرد سے یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ وہ اس کا ہاتھ بٹائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے ماں باپ کی خدمت کرے گا۔ دوسر ے لفظوں میں یہ تمام الفاظ و اظہارات پدرسری (مردانہ غلبہ کا حامل معاشرہ) معاشرے کو تقویت دیتے ہیں۔

ان الفاظ کا دوسرا مقصد عورتوں کی جذباتی کمزوری اور غیر ذمہ داری کی عکاسی کرنا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے تمام الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں میں طاقت اور جرات نہیں ہوتی۔ یہ الفاظ ایک ایسی شخصیت کے منہ سے نکلتے ہیں جو جرات اور استقلال کے ساتھ مشکل حالات کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ ہیجڑے بھی یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ جب ڈراموں میں زنخوں کو دکھایا جاتا ہے تو یہی الفاظ ان کی پہچان ہوتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ضروری نہیں صرف تکلیف دہ صورتحال میں ہی ان الفاظ کا اظہار کیا جائے۔ عمومی حالات میں بھی عادتاً یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا تاثر اور مقصد نہیں بدلتا۔

مرد کمزوری اور بے بسی کے عالم میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ اس کا تعلق مردوں کے متعلق طے شدہ تاثر سے ہے۔ مرد رو نہیں سکتا، جذباتی کمزوری یا اپنی بے بسی و لاچاری کا اعتراف نہیں کر سکتا۔ عورتیں یہ سب کچھ کر سکتی ہیں اسی لئے وہ زیادہ بے ساختہ اور با مروت ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ تیزی اور آسانی کے ساتھ جذباتی تعلق قائم کر لیتی ہیں۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ عورتوں کی اس خصوصیت کو ان کے سماجی استحصال کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھنے والی یا ماڈرن طبقہ سے تعلقن رکھنے والی عورتیں یہ الفاظ استعمال نہیں کرتیں بلکہ ان کی زبان بالکل مختلف ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے جیسے تعلیم سماجی حیثیت اور رتبے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، عورتوں کی زبان میں مخصوص نسوانی الفاظ اور اظہارات کم ہوتے جاتے ہیں۔

(انگریزی سے ترجمہ: تنویر افضال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).