شرمین…. اورشرم سے عاری ہم وطن


\"12833370_10153277701066268_780701197_n\"  آئیے…. کچھ لمحوں کے لیے غیر جانبدار ہو کر، رَدّ و قبول کے گرداب سے باہر نکلتے اورحقائق کو دلائل کی کسوٹی پر جانچتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی چند ساعتوں کے لیے نہ توکوئی حکم صادر کرے اپنی روشن خیال فکر کا اور نہ ہی کوئی عالم دانشوری کی عدالت لگا کر فیصلہ سنائے۔ شاید بات اتنی مشکل نہیں کہ اس کوسمجھا نہ جا سکے، مگر اتنی سادہ بھی نہیں کہ یونہی بیان ہوجائے، لہٰذا زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، قوم کے وسیع ترمفاد میں کی گئی شرمین عبید چنائے کی قومی خدمت کا جائزہ لیتے ہیں، جس کی اجرت میں آسکر ایوارڈعطا ہوا۔ ہمیںیہ تجزیہ کرنے میں تو کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے، آخرکو ہم سب پاکستانی شہری ہیں، ملک میں جمہوریت نافذ ہے اوراس ناطے یہ ہمارا جمہوری حق بھی ہے۔

ہم وہی پاکستانی ہیں، جنہوں نے1992 میں ورلڈ کپ لانے والی کرکٹ ٹیم کو سر کا تاج بنایا تھا۔ ہاکی، اسکواش اور اسنوکر جیسے کھیلوں کے فاتحین بھی ہماری آنکھوں کے تارے بنے تھے۔ پاکستانی ادیب انتظارحسین کوجب برطانیہ کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ’بکر پرائز‘ کے لیے نامزد کیا گیا، تو پاکستانیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ 80 اور90 کی دہائی میں پورا پاکستان دم سادھے پی ٹی وی سے نشرہونے والے ڈرامے دیکھا کرتا تھا۔ 60 اور 70 کی دہائی میں فلمی صنعت کے سنہری دورکی یادیں آج بھی پاکستانیوں کے ذہن پرنقش ہیں۔ ریڈیو، تھیٹر، موسیقی، مصوری، شاعری، ادب اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں ہم اپنی مثال آپ رہے، اپنے مقبول فنکاروں کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا۔

ہندوستانی سینما میں 1947 کے موضوع پر مستقل فلمیں بنائی جاتی رہیں، ہمارے ہنرمندوں نے بھی کئی بار اس ثقافتی پروپیگنڈے کا جواب دینے کی کوشش کی، لیکن سچ یہ ہے، خاطرخواہ کامیابی نہ ہوئی، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے، دیارغیرمیں رہنے والے ایک پاکستانی فلم ساز کے خون نے جوش مارا، اس نے ہالی ووڈ کے اشتراک سے پاکستان کی محبت میں، قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی اورقومی جدوجہد پر پاکستان کی مہنگی اورجدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ فلم تخلیق کر دی۔ 1998 میں وہ ریلیز ہوئی، 18 برس گزر گئے، آج تک تمام کوششوں اور وسائل ہونے کے باوجود ہندوستان اس معیار کی فلم نہ بنا سکا۔ یہ فلم تھی ’جناح‘ اورہدایت کار’جمیل دہلوی‘ تھے۔ ہم پاکستانی فلم بینوں نے ان کو بھی سرآنکھوں پر بٹھایا، یہ سب ہمارے ہیروز ہیں، جن کا یہاں تذکرہ ہوا۔

فنون لطیفہ سے متعلق پاکستانیوں کا ذوق کھلی کتاب کی طرح دنیا کے سامنے ہے اورہماری یہ خواہش بھی تھی، بین الاقوامی سینما میں اہم ترین ایوارڈ ’آسکر‘ تک بھی کسی پاکستانی فنکارکی رسائی ہو۔ ہم تو وہ لوگ ہیں، جو صرف نامزدگی پر بھی جشن منا لیتے ہیں، لیکن ایسا کیا ہوا؟ دومرتبہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی خاتون شرمین عبید چنائے کوعوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی (میڈیا کوریج کومقبولیت کا پیمانہ نہ سمجھا جائے) اس کو یہ ایوارڈ حاصل کرنے پرشدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا، حتیٰ کہ اپنے دفاع میں پریس کانفرنس بھی کرنا پڑی۔ آئیے اس رویے میں پوشیدہ گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

\"10660702_10153277688401268_179267411_n\"شرمین عبید چنائے دستاویزی فلم (مختصر) کے شعبے میں دومرتبہ آسکرایوارڈ کی فاتح ہیں۔ 2012 میں پہلی مرتبہ اپنی فلم ’سیونگ فیس‘کے لیے یہ ایوارڈ حاصل کیا، جس میں کینیڈین ہدایت کار ’ڈینئل جونگ‘ بھی اس انعام کے شریک حقدار ٹھہرائے گئے۔ اس فلم کا موضوع ’پاکستان میں تیزاب سے جلائی جانے والی عورتیں کے چہرے‘ تھا۔ رواں برس 2016 میں ایک بار پھر اسی شعبے میں ان کی دستاویزی فلم”اے گرل اِن دی ریور، دی پرائس آف فارگیونیس“ پر آسکر ایوارڈ دیا گیا، اس فلم کاموضوع ”غیرت کے نام پرقتل کی جانے والی عورتیں“ تھا۔

شرمین عبید چنائے نے اکیسویں صدی کی ابتدامیں اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ 2002 میں اولین دستاویزی فلم بعنوان ’دہشت گردوں کے بچے‘ بنائی۔ اُس وقت سے لے کر اب تک 14 برس میں 20 فلمیں بنا چکی ہیں، جنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں منعقد ہونے والے فلمی میلوں میں نمائش کے لیے بھی پیش کیا گیا۔ ان فلموں کی تفصیلات کے لیے شرمین عبید چنائے کی آفیشل ویب سائٹ کو دیکھا جا سکتا ہے، البتہ مختصر طورپر بیان کیا جائے، تو ان فلموں کی کہانیوں کے مرکزی کردار، پاکستان اورافغانستان میں مقیم مفلوک الحال بچے، ستم رسیدہ عورتیں، مذہبی انتہا پسند اوراسی طرح کے دیگرموضوعات نگاہ انتخاب ٹھہرے۔ لاہور کی ہیرامنڈی اورخواجہ سراﺅں سے متعلق موضوعات کی پرچھائیاں بھی ان کے تخلیقی سفرمیں نمایاں ہیں۔

آئیے…. دیکھتے ہیں رواں برس 2016 میں شرمین عبید چنائے کی فلم کے علاوہ دیگرنامزدہ ونے والی فلموں کا تعلق کن ممالک سے تھا اوروہ فلمیں کن موضوعات پر بنائی گئیں۔ ان ممالک میں امریکا، ویت نام، کینیڈا اوربرطانیہ شامل ہیں۔ یہ وہ تمام ممالک ہیں، جن میں معاشرتی، اخلاقی اورسیاسی مسائل کے انبار ہیں، البتہ جو فلمیں پیش کی گئیں، ان کے موضوعات میں کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

آسکر ایوارڈز میں مختصر دستاویزی فلم کے شعبے میں کل پانچ فلموں کو نامزد کیا جاتا ہے، جن میں سے کوئی ایک فاتح ہوتی ہے۔ شرمین کے مقابلے میں جن چار فلموں کی نامزدگی ہوئی، ان میں پہلی فلم”باڈی ٹیم 12“ کا موضوع عالمی فلاحی تنظیم ریڈ کراس کے سماجی ورکوں کی زندگی تھا۔ دوسری فلم”چاﺅ، بی ہائنڈ ز دا لائن“کا موضوع ”ایک معذورفنکار کی زندگی کی جدوجہد“ تھا۔ تیسری فلم”کلاﺅڈی لانزمین، سپیکٹرم آف دی شوح“تھی، جس کا موضوع ”ایک فرانسیسی ہدایت کار کی زندگی اوراس کا پیشہ ورانہ کام“ تھا۔ چوتھی اورآخری فلم کا نام”لاسٹ ڈے آ ف فریڈم“ تھا، جبکہ موضوع ”ناانصافی اورنفسیاتی مسائل “ تھا، جن کومتوازن انداز میں فلمایا گیا، ملک یا معاشرے کو قصوروار نہیں دکھایا گیا۔

آئیے…. اب دیکھتے ہیں 2012 میں نامزدہونے والی فلمیں، جن کے مد مقابل شرمین عبید چنائے کی فلم فاتح رہی تھی۔ اس وقت جن ممالک سے فلمیں شامل ہوئیں، ان میں تین فلمیں امریکا جب کہ چوتھی جاپان سے شامل ہونے آئی تھی۔ پہلی تین امریکی فلموں کے موضوعات میں پہلی فلم کاموضوع معاشرتی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک نامعلوم شخص کی حیات تھی۔ دوسری فلم کا موضوع ایک اداکارہ کی زندگی تھی، جس نے کم عمری میں شہرت حاصل کی، مگرپھر وہ راہبہ بن گئی۔ تیسری فلم کا موضوع بغداد میں ایک فضائی حملے کے متعلق تھا، جس میں کئی معصوم افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل تھے۔

صرف وہ دوبرس، جن میں شرمین عبید چنائے کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈزملے، ان برسوں میں نامزد ہونے والی دیگر فلموں کے موضوعات کوصرف یہاں بیان کیا گیا، اس موازنے کومزید وسعت دی جائے اورگزشتہ دس بیس برسوں میں نامزد یا فاتح فلموں کے موضوعات کا تناسب نکالا جائے، توزیادہ تر فلموں کا موضوع وہ افراد ہیں، جن کی مثبت سرگرمیاں اورمعاشرے کے لیے جدوجہد ہے یا پھر وہ واقعات ہیں، جن کے پیچھے ان ممالک کی ترقی کا راز پنہاں ہے۔ حیرت ہے، اتنے برسوں میں مغربی ممالک میں ناسورکی طرح پھیل جانے والی معاشرتی برائیوں پر کوئی فلم نہیں بنائی گئی، اگربنائی بھی گئی تونامزدگی کے لیے نہیں بھیجی گئی اوراگرکسی ایک آدھ فلم کو ایوارڈملا بھی، تویہ تناسب آٹے میں نمک کے برابررہا۔

شرمین عبید چنائے کے ساتھ نامزد ہونے والے دیگر فلم ساز انتہائی بیوقوف ہیں، جنہوں نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا، جس میں ان کے معاشرے کا کوئی مسخ پہلو شامل نہ تھا، بالکل ٹھیک ہوا، ان کو یہ اعزازنہیں دیا گیا۔ ہم پرامید ہیں شرمین عبید چنائے آئندہ برسوں میں مزید آسکرایوارڈز جیتنے میں کامیاب ہوں گی، کیونکہ ابھی تو ہمارے بہت سارے زخم باقی ہیں، جن کو دستاویزی فلموں میں دکھا کر اعزازاور فتح کی بھیک مل سکتی ہے۔ کسی نے پروین شاکر کے شعر کو شرمین کے نام لکھا کہ۔۔۔

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے

شرمین کے لیے ہمارا مشورہ ہے، وہ ایسی باتوں پر بالکل کان نہ دھریں، یہ حاسدین کی سازش ہے، وہ آسکرحاصل کرنے کی ہیٹ ٹرک بنانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ برائے مہربانی ایسے موضوعات پر فلمیں مت بنائیے گا، جن سے ہم فاتحین کی دوڑ سے باہر ہو جائیں۔ مثال کے طورپر پاکستانی فنون لطیفہ میں شہرت یافتہ شخصیات یا وہ نامعلوم اورکم شہرت یافتہ فنکار، جن کی زندگی جدوجہد سے عبارت رہی، یا پھر وہ پاکستانی بچے، جنہوں نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر بل گیٹس کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور وہ بچے بھی، جنہوں نے اپنی غیرمعمولی ذہانت سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

اسی طرح امریکی ڈرون حملوں کے شاخسانے، جن میں انتہا پسند تومارے ہی گئے، مگر ایک برطانوی ادارے ”بیوروآف انویسٹی گیٹیو جرنلزم“کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان میں ایک ہزار سے زیادہ معصوم شہری، جن میں بچے بھی شامل ہیں، جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ اوربہت سارے ایسے موضوعات ہیں، جن پر اگر آپ نے دستاویزی فلم بنائی، توشاید ہمیں آسکرایوارڈ نہ ملے، جس طرح آپ کے مدمقابل فلم سازوں کو نہ ملا، کیونکہ اس میں نہ کوئی مسخ چہرہ تھا، نہ دامن پر پڑنے والے ہاتھ، تو بھلا وہ کیوں کسی اعزاز کے مستحق ہوتے۔

لہٰذا، ہمیں تو مزید آسکرایوارڈز چاہیں، ملک کا امیج کچھ بھی بنے، اس کی فکر نہ کریں، قوم کی ایک بیٹی نے برہنہ موضوعات کو موضوع بنایا ہے، تو ہمیں اس کی آواز میں آواز ملانی چاہیے۔ شرمین عبید چنائے تم قدم بڑھاﺅ، ہم تمہارے ساتھ ہیں، اس گونگی بہری اوراحساس کمتری کی ماری قوم کی پرواہ نہ کرو، چند دن میں کوئی دوسرا واقعہ ان کی توجہ کو تقسیم کر دے گا اور یہ تمہیں بھول جائیں گے۔

اگلے برس کوئی نیا زخم دکھا کر اعزازجیتو، تووطن واپس آ کر پریس کانفرنس کرنے کی بھی قطعاً ضرورت نہیں، اس قوم کی یادداشت کا دورانیہ اتنا زیادہ نہیں۔ ویسے بھی ان میں سے آدھے تمہاری حمایت میں بولنے لگیں گے اورآدھے تمہیں برا بھلا کہہ کرخاموش ہوجائیں گے اورکوئی یہ بھی نہیں دیکھے گا کہ دنیا کے دیگرممالک سے جوفلموں نامزدہ وتی ہیں، کیا وہ اپنے برہنہ زخم دکھاتے ہیں؟ اورکیا دنیا کو یہ زخم دکھانا ہی ان زخموں کاواحد علاج ہے؟ تو تم ان سب باتوں کی پرواہ نہ کرنا۔ یہ بے شرم لوگ ہیں شرمین، تم ان کی باتوں پر دھیان نہ دینا….

( خرم سہیل سے khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments