صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے​


کہتے ہیں کہ ایک صاحب کسی دکاندار سے سگریٹ کا پیکٹ خریدنے گئے اور اپنا پسندیدہ سگریٹ طلب کیا۔ اتفاق ایسا کہ ان کا برانڈ دستیاب نہیں تھا او دکاندار نے معذرت کے ساتھ انہیں ایک اور برانڈ کا سگریٹ پیش کیا کہ یہ ٹرائی کیجیے۔ ریپر کھولنے سے پہلے وہ سگریٹ کی ڈبیا کا معائنہ کر رہے تھے کہ ان کی نظریں محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اس انتباہ پر رک گئیں جو سگریٹ کی ہر ڈبیا پر چھاپا جاتا ہے۔ لکھا تھا خبردار: سگریٹ نوشی آپ کو نامرد بنا سکتی ہے محکمہ صحت۔ صاحب کے ریپر کھولتے ہاتھ ایک دم رک گئے۔ انہوں نے سگریٹ کا پیکٹ دکاندار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ”ابے یہ کونسا دے دیا تو نے کینسر والا دے نا۔ “

بحث مباحثے کی دنیا میں اس قسم کے بلکہ کسی بھی قسم کے لطیفے سے کچھ ثابت نہیں ہوتا لیکن ہم جہاں رہتے ہیں وہاں کچھ ثابت کرنا بات کرنے کے مقاصد میں شمار نہیں ہوتا۔ رہے دیگر مقاصد تو ان کے لیے اس قسم کے بلکہ کسی بھی قسم کے لطیفے کو کام میں لایا جا سکتا ہے اگر آپ کے پاس نامعقول انداز میں ہنسنے والوں کی ایک معقول تعداد دستیاب ہو جس کی خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس کوئی کمی نہیں۔

سو اس لطیفے کا مقصد بھی یہ ثابت کرنا تھا کہ کینسر اور آلودگی ہی سگریٹ کے نقصانات میں سے نہیں ہیں سگریٹ کی کچھ قسمیں بے حیائی پھیلا اور مردانگی کو گہرا صدمہ پہنچا سکتی ہیں۔ ماہرہ خان نامی خاتون اسی قسم کا ایک سگریٹ پچھلے دنوں ایک تصویر میں مردانہ وار پیتی پائی گئیں جس کی وجہ سے نا صرف کافی بے حیائی پھیلی بلکہ قومی مردانگی کو بھی نقصان کا خاصہ احتمال پیدا ہو گیا۔

ماہرہ خان کے ہونٹوں میں دبے سگریٹ کو دیکھ کر ہم نے دانتوں میں انگلیاں یوں دبائیں کہ سگریٹ تو ہم میں سے کسی نے دیکھا نہیں تھا اور جس سے یہ گناہ سر زد ہو چکا تھا تو اس نے لڑکی نہیں دیکھی تھی اور جو یہ عجوبہ بھی دیکھ بیٹھا تھا تو سگریٹ پیتی حقہ گڑگڑاتی یا تمباکو چباتی عورت تو کسی نے کاہے کو دیکھی ہو گی اور اگر کسی کی بھٹکتی نگاہ ادھر کو بھی چلی گئی تھی تو برہنہ پشت اور مرد کا ساتھ اس سگریٹ اور لڑکی سے پھیلتی آلودگی اور بے حیائی ہماری حیرت کو دوچند کرنے کو دستیاب تھے۔

خود سوچیے لڑکی، سگریٹ، برہنہ کمر، مرد کا ساتھ اور مرد بھی دشمن ملک کا۔ وہ تو خدا بھلا کرے ملک کے سافٹ امیج کا جو ہم بنا رہے ہیں اگر وہ نا ہوتا تو اتنے سارے جرائم کے ایک تصویر میں رونما ہونے سے بقول یوسفی صاحب کے تعزیرات پاکستان کا کمپاؤنڈ فریکچر ہو گیا ہوتا۔

تعزیرات پاکستان کو لیکن ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو ہمارے روایتی اخلاقی ڈھانچے کا کیا ہو جس میں ڈھانچہ نما کمر دکھانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس قسم کی کمر بحالت مجبوری علم ابدان پڑھانے کے لیے تو استعمال ہو سکتی ہے لیکن اس کی یوں سرعام نمائش کی ہمارا قومی ذوق بالکل اجازت نہیں دیتا۔

اس قسم کی کمر دکھانا صرف اسی لیے قومی وقار کے خلاف نہیں کہ کمر کے اس نظارے میں دشمن ملک کا ایکٹر بھی ہمارا شریک تھا بلکہ یہ نمائش اس لیے بھی ملکی مفاد کے خلاف ہے کہ اس سے ملک میں خوراک کی کمی کا تاثر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہوتا ہے۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کمر پر دکھانے کو کچھ نا ہو اسے دکھانے کی اجازت تو ہمارے معاشرے نے فلم وغیرہ میں بھی کبھی نہیں دی۔

جو کمریں ہمارے یہاں فلموں میں دکھائی جاتی ہیں اول تو ان پر گوشت پوست کی مناسب تہیں چڑھی ہوتی ہیں اور جو کسر باقی ہوتی ہے وہ دو سائز چھوٹا ریشمی بلاؤز منڈھ کر پوری کر دی جاتی ہے۔ فلمساز ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر باقی کی ذمہ داری ناظرین کے اخلاق یا بد اخلاقی پر چھوڑ دیتا ہے۔ یوں بھی صرف بلاؤز کے سائز میں کمی سے فلم میں چوکھا اخلاقی رنگ آ سکتا ہو تو سکرپٹ کہانی کی ہینگ پھٹکری کون ڈھونڈتا پھرے۔ رہی بے حیائی اور فحاشی تو خدا کو گواہ جان کر بتائیے اتنی تہوں کے نیچے کمر ہو بھی تو کس نے دیکھی سو نہ اخلاق بگڑتا بے نہ حیائی پھیلتی اور نہ مردانگی کو 440 وولٹ کا جھٹکا لگتا ہے۔

حسیناؤں کی کمر کے معاملے میں ہماری قوم ازل سے ہی متجسس رہی ہے۔ غالباً یہ شعر بھی کسی ایسے ہی سی سچوایشن میں کہا گیا ہو گا
صنم سنتے ہیں، تیری بھی کمر ہے​
کہاں ہے، کس طرف کو، کدھر ہے؟ ​

یہ نہیں کہ ہم کمر دکھانے کے خلاف ہیں لیکن اس کام کے لیے جو میدان ہمارے یہاں مخصوص ہیں فنون لطیفہ کا میدان ان میں نہیں ہے۔ ماہرہ خان اگر کمر دکھانے پر مصر ہیں تو ضرور دکھائیں لیکن صحیح میدان میں اور اگر وہ سگریٹ بھی پینے پر مصر ہیں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ ایسے سگریٹ دستیاب ہیں جن سے صرف کینسر پھیلتا ہے سو کھل کر پئیں ہاں مردانگی کو خطرہ ہمیں برداشت نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).