والدین اور سیکس کے مطلق آگاہی


میں سیکس کے موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں۔ شاید یہ بات کچھ لوگوں کو ہضم نہ ہو سکے اور مجھے بے دریغ سنکی یا بد تہذیب جیسے القابات سے نوازا جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس معاملے سے متعلق آگاہی دینا بے حد ضروری ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ”سیکس“ پر بات کرنا بھلا کیوں ضروری ہے؟ اس کے بارے میں تو انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اسے پتہ چل ہی جاتا ہے لیکن اگر آپ چند لمحوں کیلئے ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو امید ہے کہ کئی ایک باتیں یا تجربات آپ کو اس عمل کے حوالے سے بات کرنے کی ترغیب دیں گے۔ ہمارے ہاں ہمیشہ سے اس موضوع پر خاندان کے بڑوں کے سامنے بات کرنے کو معیوب خیال کیا جاتا ہے ہم میں سے بیشتر اس ٹاپک پر والدین یا بڑے بہن بھائیوں کے سامنے بات کرنے سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے بڑے بھی کچھ کم نہیں وہ بھی اولاد کے ساتھ اس موضوع پر بات کرنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں سمجھتے، جو کہ درست نہیں۔ ایسا رویہ اختیار کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں جن میں سر فہرست بچے ایسی معلومات باہر سے لینے لگتے ہیں اور چھپ چھپا کر ان معلومات کا عملی مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ لڑکیاں بھی اس مسئلے کا شکار ہوتی ہیں تاہم لڑکوں کو اس معاملے میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

والدین کو یہ بات سمجھنی چاہے کہ سیکس ایک قدرتی عمل ہے اور ہر انسان کو ان احساسات سے گزرنا ہوتا ہے اور اگر انھیں ان کے جواب صحیح طرح سے نہ ملیں تو وہ کسی اور ذریعے سے ان معلومات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہے جو ایک مصیبت بھی بن سکتی ہے۔ ہمارے بڑوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہے کہ وہ جس ثقافت کی وجہ سے ان باتوں کو غیر درست یا غیر اخلاقی سمجھتے ہیں وہ قدرتی عمل ہیں اور انہیں غلیظ یا بدی کہنا درست نہیں۔ یہ تمام تر باتیں انسانوں کی اپنی گھڑی ہوئی ہیں، اگر یہ عمل اتنا ہی برا ہے تو یاد رکھیے صرف حجرے میں مراقبے سے کوئی بھی انسان دنیا میں نہیں آیا۔ سبھی والدین اسی فعل کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں، تب ہی نئی زندگی دنیا میں آتی ہے۔

اب بڑوں کو یہ سیکھ لینا چاہیے کہ جس طرح انسانی جسم کی بڑھوتری کے لیے اچھی خوراک، سانس لینے کیلئے صاف اور تازہ ہوا ضروری ہے ٹھیک اسی طرح سیکس بھی انسانی جسم کیلئے ایک لازم ضرورت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کھانا پانی اور ہوا کی ضرورت انسان کو پیدا ہوتے ہی ہوتی ہے لیکن سیکس ذرا بعد کا معاملہ ہے لیکن جب اس کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے تو یہ بھی دیگر ضرویات زندگی کی طرح اہم ترین ضرورت بن جاتی ہے۔ اب یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ خود اپنے بچوں سے اس موضوع پر کھل کے بات کریں انھیں اچھے برے کی تمیز سکھائیں تاکہ کوئی باہر کا بندہ ان کا استحصال نہ کر سکے۔

ذرا سوچیئے اگر ایک بچہ یا بچی جسے گھر سے سیکس کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دی گئی اسے سکول یا کالج سے لازماً ایسا مواد ملے گا دوسری بات آج کل انٹرنیٹ کا زمانہ ہے بچہ جو بھی ٹرم سنے گا اسے فوراً سرچ کر لے گا۔ ایسے میں اس کے بعد کے نتائج کا ذمہ دار وہ نہیں بلکہ اس کے والدین اور بڑے بہن بھائی ہوں گے۔ کیونکہ بلوغت کے بعد پیدا ہونے والے احساسات کے بارے میں اسے نہ کبھی اس کے والدین نے کچھ سکھایا اور نہ ہی تعلیمی ادارے نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی۔ ایسی صورت حال میں بچے کے کچے ذہن میں جو بھی آتا ہے وہ تو کر گزرتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے کے والدین ایک ایسی تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ان کے خیال کے مطابق ماحول جتنا مرضی خراب ہو، پر سارے غلط کام صرف دوسروں کے بچے کرتے ہیں۔ ہمارے بچے تو کبھی کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔ لیکن ایسے والدین کے بچے جب کوئی گل کھلا دیتے ہیں تو پھر یہ خود ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں بجائے اس کے کہ بچے کے موجودہ مسئلے کا حل تلاش کریں خود مصیبت زدہ دکھائی دینے لگتے ہیں، اور ایسے افراد کے بچے جن لوگوں کے بچوں کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کر دیتے ہیں وہ اپنی جگہ بت بن جاتے ہیں۔  اب ہمیں ان مسائل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا تاکہ نا کوئی کسی کا نشانہ بنے اور نہ کسی دوسرے کو دکھ دے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں سے بات کریں انھیں اعتماد دیں اور انھیں بتائیں کہ سیکس کوئی غلیظ چیز نہیں بلکہ قدرت کا حسین تحفہ ہے، جس سے لذت حاصل کی جاتی ہے، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور اس لذت کو معاشرے کی حدود میں رہ کر ہی حاصل کیا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).