فرانس نے عرب سے کیا سیکھا ۔ چند اعترافات


آج کل تو مسلمان غیر قوموں کی عمدہ باتوں کا اثر ہی نہیں لیتے ورنہ کسی زمانے میں ان کی تہذیب وترقی کا یہ حال تھا کہ یورپ کی اعلیٰ سے اعلیٰ قومیں ان کی تہذیب، تمدن، معاشرت، کی تقلید کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ فرانس کی زبان اور اُس کا لٹریچر عربی کے اثر سے نہ بچ سکا۔

فرنچ زبان کس درجہ تک عربی سے متاثر ہوئی، اس بارے میں پروفیسر سیدییو اپنی کتاب تاریخ اسلام (جس سے زیادہ مفصل اور مستند کتاب مسلمانوں کے متعلق یورپ کی کسی زبان میں نہیں لکھی گئی) میںاعتراف کرتے ہیں؛

“فرانسیسی اس امر کو اکثر بھول جاتے ہیں کہ ایک زمانے میں عربی نہ صرف علوم میں بلکہ انسانی واقفیت کے ہر شعبہ میں اُن کے اُستاد تھی اور ہماری عمدہ سے عمدہ ڈکشنیریاں یہاں تک کہ ایم۔ لٹر کی ڈکشنری میں بھی ایک بڑی بھول ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے بجائے اُن فقروں کے جو براہ راست عربی زبان سے آئے ہیں، لفظوں کا اشتقاق بیان کیا ہے جس کو ہم صحیح نہیں سمجھتے۔

آٹھویں صدی کے بعد مسلمانوں کاقبضہ پورے جنوبی فرانس پر تھا۔ چارلس مارٹل(Charles Martel) نے شمالی حصہ کو 237ءسے لے کر 937ءتک حملوں سے بچایا لیکن اُس نے سپٹی مینیا(Septimance) کو عرب کے واسطے چھوڑ دیا۔ اس پر عربوں نے مستقل قبضہ کر لیا اور اسی ملک میں شاد یاں کیں اور اس ابتدائی زمانہ ہی میں بے شمار لفظ اپنی زبان کے روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کے واسطے رائج کیے۔

 پادریوں تک نے عرب کی حلقہ بگوشی کو فرانسیسی نبرد آزماؤں کی اطاعت سے بہتر سمجھا۔ وہ لوگ تو گر جا تک کی ملکیت بخش دینے میں کچھ تامل نہ کرتے تھے۔ بہت سے تعلقات پہلے سے ایسے موجود تھے جنہوں نے عیسایوں اور مسلمانوں کو باہم شیر شکر کر دیا تھا۔

 اکو ٹئین فرانس کے ایک ڈیوک کی بیٹی تھی۔ وہ ایک عرب امیر کی منکوحہ تھی۔ صوبہ لنگیدوک کے شہروں میں اُن کے گورنر بر قرار تھے، اور وہاں کا انتظام بدستور قائم تھا۔ مارسیلنرکا ڈیوک حملہ آوران فرانس کا وفادار طرفدار تھا اور پلین ڈہہرسٹل کے بیٹوں سے جی توڑ کر لڑا اور جب پیپن لی بریف نے 957ءمیں فتح سپٹی مینیا کی تکمیل کی تو عربوں کی جائیدادوں میں دست اندازی نہ کی اور ان کو اسی ملک میں آباد رہنے دیا۔ شالِین کے عہد میں دوسری قسم کے تعلقات دونوں قوموں کے درمیان قائم ہوئے۔ تدبیر ملک نے جنگ کی جگہ لی۔ خلفاءبغداد نے عرب کی شایستگی کو درجہ کمال پر پہنچایا۔ اور ہارون رشید نے فرانسیوں کے پر شوکت بادشاہ سے رشتہ دوستی قائم کیا۔ خلفائے قرطبہ نے اسپین کو مغربی ملکوں کی جان بنا دیا۔

دریاے سندھ کے کناروں سے آبنائے جبل طارق تک علم کا چرچا ہوا۔ اور اُس طوائف الملوکی کے زمانے میں جو بادشاہ شارلین کے عہد کے بعد پیش آیا، جس میں کہ دحشت اور جہالت کا اندھیرا فرانس اور جرمنی پر زیادہ سے زیادہ گھر تا جاتا تھا۔ عرب جو فرانس کے جنوب میں کوہ فینز سے کوہ الپس تک قابض تھے؛ اپنی فتوخات کو شمال سے جنوب تک پھیلانے کی غرض سے بڑھے اور اِن ملکوں میں عربی کے اثر کو ترقی دی اور ہمارے بزرگوں کو وہ علم عطا کیے جو عربوں نے ان مدارس میں حاصلکیے تھے، اور جو حضرت محمد ﷺ کے جانشینوں کی وسیع سلطنت میں قائم تھے۔
اس موقع پر عرب کالیٹن قوموں میں زیادہ پھیل جانا قابل لحاظ ہے۔ اسپین کے ساتھ ان کے معاملات زیادہ کثرت سے تھے۔ جربرٹ کے بارسلونا جانے کے متعلق خواہ کتنا ہی اختلاف رائے کیوں نہ ہو مگر اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ عربی ہندسوں کا استعمال ہمارے وہاں اُسی وقت سے جاری ہوا۔

میں بیان کر چکا ہوں کہ یہ ہندسے صرف ایک تبدیل شدہ شکل رومی ہندسوں کی ہیں۔ جن میں صفر کا اضافہ کر دیا گیا ہے، اور ان کے نام اور مسلسل تبدیلیاں بالکل عربی الا صل ہیں۔ 659ءمیں عبد الرحمن سوم کے تعلقات بہت سے عیسائی بادشاسوں سے، جیسے شاہ جرمنی شاہ فرانس اور والی ریاستہائے سیلور کے ساتھ تھے۔

کروسیڈر نے ان باہمی تعلقات کو اور زیادہ ترقی دی خصوصاً سینٹ لوئس والی جنگ نے جو کہ کئی برس تک مشرق میں رہی۔ فریڈرک دوم نے جو سینٹ لوئس کا ہمعصر تھا۔ اس نے ابن الرشد کے بچوں کو اپنے دربار میں بلوایا۔ ریاضی۔ طبیعات عربی کتابوں سے پڑھائی جانے لگیں۔

تیرہویں صدی تک میں راہو بیکن اور ریمانڈلول نے مشرقی زبانوں کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ پیرس۔ بلونا اور اوکسفوڈ میں ان زبانوں کی تعلیم ہو۔ پوپ دوم ان طالب علموں کو جو مشرقی ملکوں کے رہنے والے اور عربی۔ ایرانی۔ اور ایشیا کی دیگر زبانیں جانتے تھے،   خاص عہدے بخشتے تھے۔ انہیں میں سے ایک، ولیم پوسٹل نے جو فرانس کے کالج میں ریاضی اور مشرقی زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوا تھا، 5351ءمیں ایک مضمون عربی گرامر پر لکھا۔

ہنری سوم کو 7351ءمیں خیال دلایا کہ شاہی کالج میں ایک عربی کے پروفیسر کا عہدہ تجویز کرے اور اُس پر ارنول ڈملیلی کو مقرر کرے جو اکثر اوقات مراکو میں فرانسیسیوں کی رہائی کے بعد میں گفتگو کرنے کے واسطے گیا ہے جو وہاں غلام بنائے گئے تھے۔

اسی طرح سے فتح الجیریا نے فرانسیسی زبان کو نئے لفظوں سے بھر دیا جو اس سے پیشتر معلوم نہ تھے۔ یہ بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ ان تعلقات نے جو صدیوں تک جاری رہے ہیں ہماری زبان کو بہت سے عربی کے جملے اور طرز بیان دیے ہیں۔ اس موقع پر ہم اُن لفظوں کا ذکر نہ کرین گے جو دونوں قوموں کے مشترک طریقہ زندگی یا ڈپلومیٹک تعلقات کی وجہ سے فرانسیسی زبان میں آگئے ہیں۔

یہ بالکل نیچرل تھا کہ عرب جو اٹھویں صدی کے بعد بحر روم کے مالک تھے انہوں نے فرانس اور اٹلی کو ایک بڑا حصہ جہاز رانی کی اصطلاحات کا دیا۔ مثلا امیر الجر، دارالصنواعت، قلفة، وغیرہ وغیرہ۔ جب مستقل فوجیں قائم ہوئیں تو جو خطابات مسلمانوں کی فوجوں میں مروج تھے اختیار کر لیے گئے۔ نعرہ جنگ، توپوں کے واسطے بارود کا استعمال وغیرہ والیان بغداد سے لیا گیا تھا۔

ہر شخص واقف ہے کہ مدنیة الحکما اور اسکندریہ کی کتابیں زیادہ تر عربوں کے ذریعہ سے ہمارے پاس پہنچی ہیں۔ عربوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اُن یونانی لفظوں کو خراب کر دیا جو اُن کے استعمال میں رہے۔ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ اہل عرب نے اپنے حروف میں اُن لفظوں کو ہو بہو نقل کیا جس کے لیے انہوں نے (ب) استعمال کی۔ اورحرف کے واسطے اُس کے مقابل کا حرف استعمال ہوا۔ مگر انہوں نے اعراب کو نہ لکھا جس کی وجہ سے لیٹن میں ترجمہ کرنے والوں نے غلطی کی۔

یہی وجہ ہے کہ عربی ابارکوس ابریکس ہو گیا اور ارسٹوٹلیز ارسٹوٹل ہوگیا۔ اور اسم صفت المجشی المجسٹ ہو گیا۔ اسی طرح سسیی، سگری، سکرڈر اسلیمانی کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستاروں کے عربی نام کس قدر بگاڑے گئے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تعجب کی بات ہے کہ کیونکہ ایک ایک عربی مادہ سے پندرہ قسم کے فعل بنتے ہیں جنھیں سے ہر ایک کے جداگانہ معنی ہوتے ہیں اور خلاف قیاس جمع کے اہٹائیس اوزان ہیں جو ایک ایک اور ان صفت یا اسموں کے لیے مخصوص ہیں۔ “

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).