مشفق خواجہ (مرحوم) کے ساتھ ایک دن…. پہلا حصہ


\"arif-e1385208053389\"کراچی فروری کے شروع میں بے حد خوشگوار موسم فراہم کرتا ہے۔ میں فروری 2000ء میں لاہور سے جب پہنچا تو ہوائی اڈّے پرکچھ اور دوستوں کے ساتھ جو مجھے ملنے آئے تھے، میرے میزبان ڈاکٹر فہیم اعظمی (مرحوم) میرے منتظر تھے۔ جب ان کے دولت کدے پر پہنچے تو کچھ دیگر ’ٹیلیفونی‘ پیغامات کے ساتھ مشفق خواجہ صاحب کے نام کی چٹ اور ان کا فون نمبر بھی تھا۔ ان کا فون ہمارے ایئر پورٹ سے گھر پہنچنے سے کوئی دس منٹ پہلے آیا تھا۔ میں نے اسی وقت فون کیا۔ پوچھنے لگے، ’پہنچ گئے؟‘ میں نے عرض کیا، ” جی ہاں، زندہ و سلامت، بنفس نفیس!“ بولے، ’ابھی آ جائیں !‘ میں نے فہیم اعظمی صاحب کی طرف دیکھا۔ ان کا اشارہ پا کر میں نے عرض کیا، ’جی نہیں، کل یا پرسوں حاضر ہوں گا۔ مجھے یہاں ایک ہفتہ ٹھہرنا ہے۔“

اسی شام جوش صدی تقریبات کے سلسلے میں آخری اختتامیہ اجلاس تھا جس میں مجھے بولنا تھا۔ وہاںسے فارغ ہوتے ہی جونہی چائے کے لیے ہال سے باہر پہنچا تو نگار صاحبہ مل گئیں۔ نگار سجاد ظہیر کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں پروفیسر تھیں (اب شاید ریٹائر ہو چکی ہیں) اور میرے اور میری بیوی کے سعودی عرب کے قیام کے دوران اپنے خاوند سجاد ظہیر صاحب کے ساتھ وہاں اس سے کئی بار ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں میاں بیوی بے حد اچھے، ملنسار اور مخلص انسان ہیں نگار صاحبہ نے خود یونیورسٹی کےمپس پر میری آمد کے سلسلے میں ”ایک شام آنندجی کے نام“ کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اسی دن دوپہر کو شعبہ اردو میں مجھے بولنا بھی تھا۔ اس لیے طے پایا کہ اپنے گھر کی تقریب کے بعد وہ مجھے اپنی کار میں پہلے محترم احمد ہمیش کے ہاں اور بعد میں مشفق خواجہ صاحب کے دولت کدے پر لے جائیں گی۔ یعنی یہ میری کراچی آمد کے چوتھے دن کا پروگرام تھا۔ اس بیچ میں جمیل الدین عالی صاحب کے ایما پرانجمن ترقی اردو کے دفتر میں ایک پر تکلف چائے اور نشست (اس میں میری خوش قسمتی سے ادا آپا بھی شریک ہوئیں) اور شام کو کلب میں ڈنر کا بھی اہتمام رہا۔

\"1-2\"

تب تک مشفق خواجہ صاحب سے ہمیشہ فون پر بات ہوتی تھی۔ انڈیا سے، سعودی عرب سے، اور امریکا سے۔ میں فون کرنے کے معاملے میں بہت تیز ہوں۔ وقفوں وقفوں کے بعد دوستوں کو پاکستان، انگلینڈ وغیرہ ان کے وقت کا خیال رکھ کر کال کرتا رہتا ہوں۔ مشفق خواجہ صاحب سے 1965  سے لے کر اس ملاقات تک، کچھ نہیں تو ایک سو بار تو فون پربات چیت ہوئی ہو گی۔ خطوط کا تبادلہ کبھی نہیں ہوا سوائے ایک دو خطوں کے۔ ایک بار 1996  میں جب میری کار کا حادثہ ہوا اور میری ایک ٹانگ کے علاوہ جسم میں بھی کئی ہڈّیاں ٹوٹ گئیں تو کراچی سے ان کے پے در پے چار پانچ فون آئے ورنہ میں ہی ہر بار انہیں فون کرتا۔ امریکا سے میں اگر دیر رات فون کرتا تو وہ ناشتے کی میز پر ہوتے اور مجھے کہتے ”میں انتظار کر ہی رہا تھا۔ ذوالفقار سے کہہ رہا تھا کہ آج ڈاکٹر آنند کا فون ضرور آئے گا، انہوں نے میرا نیا کالم پڑھ لیا ہو گا اور یا تو مجھے شاباش دیں گے یا میری خبر لیں گے۔“ (بر سبیل تذکرہ…. ذوالفقاران کے ہم زلف تھے۔ گذشتہ برس تک بقید حیات تھے اور کراچی میں ان سے ملاقات بھی ہوئی تھی)

مجھے اس شخص سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا جس کے کوئی ایک سو سے زیادہ کالم میں نے پڑھے تھے، جس کی علمیت اور، لیاقت کا لوہا سب مانتے تھے۔ تنقید، تحقیق اور تدوین کی سطح پر جس کا ثانی اردو میں شاید ہی کوئی ہو، اور جس کے پاس وہ ہنر تھا جسے انگریزی والے کچھ اس طرح کے جملے سے شناخت دیتے ہیں۔ He knows the art of talking with a tongue in his cheek. اس لیے ، جیسے کہ میں نے کہا، مجھے مشفق خواجہ صاحب المعروف بہ ’خامہ بگوش‘ سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔

\"2-1\"نگار مجھے اندر لے کر گئیں۔ وہ ہم لوگوں کا انتظار ہی کر رہے تھے۔ ملتے ہی کہنے لگے۔’ ’ایک خاتون کا فون آیا تھا، انہیں یہ خیال تھا کہ آپ شاید اب تک میرے پاس پہنچ چکے ہوں گے۔ میں نے کہا کہ وہ آنے والے ہیں، آپ دوبارہ فون کیجئے گا یا اگراپنا نمبر چھوڑنا مناسب خیال کریں تو میرے پاس چھوڑ دیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سوائے ان کے کسی اور کو نہیں دوں گا اور اپنے پاس بھی ریکارڈ نہیں رکھوں گا۔ “ نگار اور میں دونوں ہنسے۔ میں نے کہا، ”تو آپ ملتے ہی شروع ہو گئے؟“ بولے ، ”آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!“

گلے لگ کر ملے۔ میں نے انہیں اسم با مسمیٰ مشفق پایا۔ شفقت سے لبریز، پیار سے چھلکتی ہوئی اس شخصیت میں خدا جانے کیا جادو تھا، مجھے ایسے لگا جیسے میری یہ ان سے پہلی ملاقات نہ ہو، جیسے ہم سینکڑوں بار پہلے مل چکے ہوں۔خود شیلفوں پر ترتیب سے سجی ہوئی سینکڑوں کتابوں کے بیچ میں اپنی آرام کرسی پر بیٹھ گئے، ہمارے بیٹھ جانے کے بعد نگار صاحبہ سے کہا: ”آپ نے بہت احسان کیا۔ فہیم شاید انہیں خود لے کر میرے گھر نہ آتے!“ اس سے پہلے کہ میں اس چبھتے ہوئے جملے کا مطلب سمجھ سکتا، بولے، ”وہ بہت مصروف رہتے ہیں۔ انہیں وقت ہی کب ملتا ہے!“

پہلے سرسری سی باتیں ہوئیں۔ امریکا سے کب آئے؟ لاہور کتنے دن ٹھہرے؟ اپنے گاؤں گئے تھے؟“ اور پھر خود ہی فرمانے لگے، ”آپ کی نظم ’جنم بھومی کی مٹّی ‘ پڑھ چکا ہوں۔ بہت پر اثر نظم ہے۔ پڑھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔“ پھر راولپنڈی کے بارے میں پوچھا۔ وہیں لوگ کیا کیا لکھ رہے ہیں؟ جب میں نے بتایا کہ میں پشاور بھی ہو کر آ رہا ہوں، تو ان کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری مسکان کا رنگ آیا۔ ”ہم تو پشاور کے صرف ایک ہی شخص سے واقف ہیں جو پاکستان تو کیا، پاکستان سے باہر انڈیا، انگلستان اور امریکا تک اردو کی بانسری بجاتا پھرتا ہے۔ مشاعروں کا کرشن کنھیا ہے۔“ پھر مسکرائے، بولے، ”میری مراد اور کس سے ہو \"3\"سکتی ہے؟ احمد فراز سے ہے، جو کبھی جوہر سرحدی کے نام سے پہچانا جاتا تھا!“

احمد فراز اور جوہر سرحدی؟ میری استفسار میں اٹھی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر بولے، ”جی ہاں، موصوف احمد فراز بننے سے پہلے اسی نام سے پہچانے جاتے تھے۔ اس سے پہلے کوئی اور نام بھی تھا، جو مجھے یاد نہیں!“

میں نے پوچھا، ”آپ کے طنز میں جو کاٹ ہے، وہ قلم کاروں کے کسی مخصوص گروہ کے لیے ہے یا آپ انفرادی طور پر کسی ایک شخص کو ہی نشانہ مشق بناتے ہیں؟“

بولے، ”تیر اندازی کی مشق کون کم بخت کرتا ہے؟ مشق کرنے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ بعد میں شکاری ماہر فن ہو جاتا ہے۔“

میں نے کہا، ”آپ نے میرے الفاظ کو پکڑ لیا لیکن میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ لیجئے، دہراتا ہوں “

بولے، ”دہرانے کی ضرورت نہیں ہے…. جی ہاں، میں لکھنے والوں کے خاص طبقے سے ان اصحاب کا انتخاب کرتا ہوں“

میں نے گستاخی کی، بات کاٹ کر کہا، ’یعنی آپ صرف اصحاب کا انتخاب کرتے ہیں، خواتین کا نہیں؟“

مسکرائے، ”آپ تو اس سائے کی طرح ہیں جو شام کے وقت تیز دوڑتے ہوئے آدمی کے آگے آگے دوڑتا ہے جی ہاں، خواتین کا انتخاب کم ہی کرتا ہوں، لیکن یہ ضروری نہیں بھی ہے خواتین، یعنی لکھنے والیاں، خود کو کچھ کم ہی تیس مار خان سمجھتی ہیںاب آپ تیس مار خان کی تانیث نہ لے کر بیٹھ جایئے گا!“

نگار چائے بنانے کے لیے اٹھ گئیں تو بولے، ”یہ ہے خواتین اہل قلم کی شناخت! یعنی کہ ہم مردوئے بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک خاتون چائے بنانے کے لیے جا رہی ہے“ پھر ایک لحظہ توقف کے بعد بولے، ”تو میں کہہ رہا تھا کہ میں لکھنے والوں کے ایک خاص طبقے سے ان اصحاب کو چن لےتا ہوں جو بزعم خود تیس مار خان ہوتے ہیں، لیکن اصل میں چھٹ بھییوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں میرے دوست بھی ہیں، جاننے والے بھی ہیں، وہ بھی ہیں جنہیں میں ذاتی طور پر بالکل نہیں جانتا، لیکن اس کے باوجود ان کی نگارشات، فی البدیہات، یا سنی سنائی باتیں مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں اور ان سے یہ ان کی ایک شناخت سی میرے دل میں قائم ہو جاتی ہے۔ اصل میں، آنند جی، یہ چھٹ بھییوں کا دور ہے، بلند قامتی کے دن ختم ہو گئے“ مسکرائے، پھر بولے، ”در اصل نگار آپ کو آنند جی کہہ کر بلا رہی تھیں،تو میں نے بھی سوچا، میں بھی یہ جسارت کر لوں!“

میں نے پوچھا، ”چھٹ بھییوں، یعنی بونے لوگوں کی بات آپ نے کہی۔ بلند قامتی کا دور کب تھا اور کب ختم ہوا؟“

\"4\"بولے، ”میں ترقی پسند نہ تھا، نہ ہوں اور نہ کبھی ہوں گا، ان دنوں تو وہ لوگ مجھے اگر دس کوس کی دوری سے بھی دیکھ لیتے تھے تو راستہ بدل جاتے تھے کہ نہ معلوم کیا واہی تباہی بک دوں! خیر، ترقی پسند تحریک کا دور بلند قامت اور بونے قد والے، یعنی دونوں قسموں کے لوگوں کا دور تھا۔ نثر میں منٹو (جو ترقی پسند نہیں تھا، لیکن اس دور کا ایک اہم افسانہ نگار تھا!)، کرشن چندر، بیدی، خواجہ احمد عباس، احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، عصمت چغتائی، تنقید میں احتشام حسین، شاعری میں، فےض، جعفری اور دیگر کئی نام ہیں اب کوئی مرد میدان ہے جو خم ٹھونک کران کے مد مقابل کھڑا ہوسکے؟ سبھی اپنی اپنی پی آر کرتے ہیں، اےوارڈوں، انعاموں اور تمغوں کے پیچھے بھاگتے ہیں“

”آج کے چھٹ بھییوں کے دور میں کچھ نام تو ہوں گے جنہیں بلند قامت کہا جا سکےجیسے تنقید میں نارنگ صاحب، شمس الرحمن صاحب، تخلیقی نثر میں قدسیہ بانو، اشفاق احمد، انتظار حسےن اور شاعری میں “

میری بات کاٹ کر بولے، ”اور شاعری میں؟“

میں چپکا بیٹھا رہ گیا۔

میں نے پھر لقمہ دیا، بلکہ یکے بعد دیگرے تین لقمے دیے۔ پہلا تھا، ”ترقی پسند تحریک کے کچھ بلند قامت لوگ جن کے نام آپ نے لیے اس تحریک کے جان بحق ہو جانے کے بعد بھی زندہ رہے، بلکہ اب تک ہیں، کیا وہ بھی پبلک ریلیشننگ، ایوارڈوں، انعاموں کی لہر میں بہہ گئے؟\”

جواب میں خاموش بیٹھے رہے، میں جانتا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، لیکن نہیں کہتے۔ وہ جانتے تھے کہ میں ان کا جواب ”خموشی معنی دارد کہ در گفتن نمی آید“ کے بمصداق جانتا ہوں۔

میں نے اب دوسرا لقمہ دیا۔”میں اب آپ کو quote کر رہا ہوں“ میں نے اپنی ڈائری نکال لی۔”آپ نے ایک بار لکھا تھا

کہ ترقی پسند شاعروں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ’زنجیر لفظوں‘ کے استعمال سے ’آفاقی‘ شاعری کی ہےایک جگہ اور آپ نے لکھا ہے، کسی ترقی پسند سے غلط کام کی توقع نہیں کی جا سکتی، سوائے شاعری کے۔ اور شاعری بھی ایسا کوئی غلط کام نہیں ہے جس پر شرمانے کی ضرورت ہو۔ شرمانے کا کام پڑھنے والے بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔“

(جاری ہے)

(مشفق خواجہ بلند پایہ محقق، کالم نگار اور شاعر ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کے فوٹو گرافر بھی تھے۔ برصغیر پاک و ہند کے بے شمار مشاہیر ادب کی تصاویر مشفق خاوجہ کے ذاتی ذخیرے کا حصہ تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مشفق خواجہ کی بے حد کم تصاویر ملتی ہیں۔ ستیہ پال آنند کے اس مضمون کے ساتھ شائع ہونے والی تصاویر محترم عقیل عباس جعفری اور محترم راشد اشرف کے عطایا میں سے ہیں اور ہر دو حضرات کے شکریے کے ساتھ شائع کی جا رہی ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments