مریم نواز اور روز روز کی پیشیاں بھگتنے والے


مریم نواز صاحبہ۔
آپ نے آج کہا کہ روز روز پیشی سے بہترہے کہ سزا ہی سنادی جائے۔

بی بی۔ ابھی تو آپ کی یہ ابتدائے عشق ہے۔ ورنہ اس ملک میں کسی غریب کی بیٹی کو عدالتوں کے دھکے کھانے پڑجائیں۔ تو وہ روز روز نہیں۔ بلکہ سال ہا سال پیشیاں بھگتنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اور پھر دعا کرتی ہے کہ اے رب۔ اس ذلت آمیز نظام انصاف سے بہتر ہے کہ موت ہی آجائے۔ بلکہ اکثر کئی بیٹیاں توموت کو گلے لگانا قبول بھی کرلیتی ہیں۔

مریم بی بی ۔ آپ نے کب کبھی اتنی مشکلات جھیلیں ہوں گی۔ آپ تو وہ لوگ ہیں، جہاں عدالتیں خود چل کرآپ کی دہلیز پر آتی تھیں۔ محفلیں جمتی تھیں۔ دعوتوں میں جسٹس حضرات آپ کے بڑوں کی پلیٹ میں بوٹیاں ڈالتے تھے۔

خیر۔ آپ کی بات درست ہے بی بی۔
روز روز کی یہ پیشیاں آپ کے لئے بڑی کوفت کا باعث ہیں۔ واقعی جب پیشیاں ہورہی ہوتی ہیں تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ پورا پورا مہینہ وکیلوں کے ساتھ سرجوڑ کرمشاورت ہوتی رہتی ہے۔ بندہ اورکسی کام کا ہی نہیں رہتا۔ خوشی ہو یا غم۔ یا ہوں اپنی ذاتی مصروفیات۔ پیشی کو ان سب باتوں پر ترجیح ہی دینا پڑتی ہے۔ پیشی پر ایک سیکنڈ لیٹ بھی نہیں ہوسکتے۔ چاہے آپ کے سر میں درد ہو یا کھانسی بخار، عدالت تو وقت پر پہنچنا پڑتا ہے۔

محترمہ۔ چلیں آپ کو یہ تو بتا چل ہی گیا کہ پیشی ہوتی کیا ہے۔
پاکستان میں روزانہ سینکڑوں عدالتیں لگتی ہیں۔ جہاں ہزاروں فریادی پیش ہوتے ہیں۔ دُکھی دل سے آتے ہیں، روتے ہوئے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ انہیں حق ملنا تو دور کی بات۔ بے چارے لوگوں کی جمع پونجی اور آشیانہ تک داوٓ پر لگ جاتا ہے۔ کئی فریادی تو پیشیاں پوری کرتے کرتے اپنی عمر پوری کر بیٹھتے ہیں۔ موت آجاتی ہے، فیصلہ نہیں آتا۔

مریم بی بی۔ آپ کو پتا ہے آپ کے ملک کی عدالتوں میں اس وقت عام لوگوں کے 15 لاکھ کیس التوا میں پڑے ہیں۔ وجہ ہے آپ کا یہ عدالتی نظام۔
اس نظام میں سب سے پہلے وکیل فریادی کی جیبیں خالی کراتا ہے، پھر عدالتی عملہ اپنی جیبیں گرم کرواتا ہے، بہت سے ججز کا بھی یہی حال ہے۔ کسی کیس میں اگر پولیس بھی فریق ہو تو وہ بھی الگ حصہ دار ہوتی ہے۔ یہ ہے آپ کے نظام انصاف کی اصل تصویر۔ جہاں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔ اور وہ بھی بہت ہی مہنگے بھاؤ۔

بی بی۔ آپ کو روز روز کی یہ پیشیاں واقعی مشکل لگ رہی ہوں گی۔ لیکن کیا کیجئے اس ملک کا نظام بدلنے کی آپ کے بڑوں نے بھی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ آپ جیسی کئی دوسری لیکن عام بیٹیاں بھی ان ہی عدالتوں میں ڈری ڈری اور سہمی سہمی سی آتی ہیں۔ جن کے ساتھ کوئی پولیس گارڈز بھی نہیں ہوتے۔ عدالتوں میں انھیں ایک پیشی کے لئے گھنٹوں گھنٹوں ایک کونے میں سمٹ کر طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

بی بی مریم۔ انصاف کے اس نظام کی ایک شکل اورملاحظہ کیجئے۔ ملک میں نوے فیصد جرائم پیشہ افراد پکڑے نہیں جاتے۔ دس فیصد جو پکڑے جاتے ہیں۔ ان میں سے پچانوے فیصد کی ضمانتیں ہوجاتی ہیں۔

حال ہی میں کراچی میں ایک خاتون کے قاتل ضمانت پر رہا ہوئے، پھر ان قاتلوں نے ان خاتون کی سولہ سال کی بیٹی ریما کو بھی ماردیا، وہ بچی ماں کے قتل کی واحد عینی شاہد تھی۔ حد یہ ہے کہ اگر وہ ملزمان دوبارہ پکڑے بھی گئے تو دوبارہ بچی ریما کے قتل کے الزام سے بھی ضمات پاجائیں گے۔ کیونکہ وکیلوں کو پتا ہے۔ کون سا کیس کس انداز سے ”سیدھا“ کرنا ہوتا ہے۔
مریم بی بی۔ سچ بتانا۔ کیا آپ کا کیس ریما اور اس کی ماں کے کیس سے زیادہ سنگین ہے؟

بی بی مریم۔ اب ایک اور پہلو پر نظر کیجئے۔ یہاں انصاف کا حال تو دیکھئے۔ کئی مالک مکان ایسے ہیں، کرائے دار سے بیس بیس سال اپنا ہی گھر خالی نہیں کراپائے، کیونکہ کرایہ دار عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے کر بے فکر ہو چکا ہوتا ہے۔

زمینوں پر قبضے پورے ملک میں عام ہیں۔ اپنی زمین خالی کرانے کے لئے بارہ سال کیس چلتا ہے۔ نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ مالک ہیروی کے دوران کنگال ہوکر عدالت جانا ہی چھوڑ دیتا ہے۔

یہاں ہم نے ان لوگوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا، جو اپنے حق کے لئے عدالتوں سے رجوع ہی نہیں کرتے۔ جو سمجھتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر کا عذاب سہنے سے بہتر ہے کہ جو ہوگیا، اسے برداشت کرکے صبر کا گھونٹ پی کر گھر بیٹھ جایا جائے۔

مریم صاحبہ۔ مجھے آپ سے واقعی ہمدردی ہے۔ دعا ہے کہ آپ اور آپ کی فیملی اگر واقعی کسی جرم میں ملوث نہیں ہے، تو اللہ آپ کو اس مشکل سے نکال باہر کرے۔
ہاں ایک بات اور۔ آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب کوئی اسٹریٹ کرمنل پکڑا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہ تو پہلے بھی کئی بار پکڑا جاچکا ہے۔ اور ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ دھندے میں مصروف تھا۔

مریم بی بی آپ کے والد نے کبھی ملک میں بنیادی تبدیلی لانے کے لئے کوئی کام ہی نہیں کیا۔ بڑے بڑے تعمیراتی منصوبے تو انہوں نے بہت بنائے۔ جن سے ایک حد تک لوگوں کو فوائد بھی ملے۔ لیکن انہوں نے کبھی وہ نہیں کیا۔ جو عام آدمی سوچتا ہے۔ اپنی بادشاہت کو بچانے کے لئے انہوں نے قانون و انصاف کے نظام کو جوں کا توں رہنے دیا۔ انہوں نے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کی ماضی میں ہوئی کوششوں کو بھی بڑا دھچکا لگایا۔

بی بی مریم۔ بس آپ سے ایک التجا ہے کہ جب آپ کبھی اس مشکل وقت سے نکل جائیں تو ان لوگوں کو بھی یاد رکھئے گا۔ کہ اس ملک میں جن کے کیسز کئی کئی دہائیوں سے زیر التوا ہیں۔ جو انصاف کے لئے عدالتی نظام کی طرف نہیں اب خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).