احمد نورانی پر حملہ اور آزادی رائے کو لاحق شدید خطرات


انگریزی روزنامہ نیوز کے رپورٹر احمد نورانی پر اسلام آباد میں حملہ کی مذمت کرنے والوں میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور صحافی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان مذمتی بیانات اور مظاہروں  کے باوجود ملک میں صحافیوں کے تحفظ کی صورتحال بہتر ہونے اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کو یقینی بنانے کی ضمانت فراہم نہیں کی جا سکتی۔ احمد نورانی پر حملہ دارالحکومت کے مرکزی مقام پر ہوا اور بعض عینی شاہدوں کے مطابق پولیس بھی قریب ہی موجود تھی۔ لیکن نامعلوم حملہ آور ملک کے ایک ممتاز صحافی کو گاڑی روکنے، انہیں اور ان کے ڈرائیور کو باہر نکال کر شدید زد و کوب کرنے میں کامیاب رہے۔ حملہ آور نہایت پھرتیلے اور اپنے کام کے ماہر تھے۔ انہوں نے گاڑی یا اس میں سوار دونوں افراد سے کوئی قیمتی چیز حاصل نہیں کی۔ اس لئے اسے ڈکیتی یا مالی منفعت کے لئے کیا گیا جرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ حملہ ملک میں آزادی صحافت پر سنگین حملہ ہے۔ اس حملہ کی مذمت میں جو بیانات سامنے آ رہے ہیں، ان سے یہ اندازہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیاستدان خواہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہوں، ایسے حملوں پر خاموش نہیں رہ سکتے لیکن موجودہ صورتحال میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مذمت کے باوجود صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ کیوں جاری ہے۔

یہ صورتحال ملک کی منتخب حکومت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ کیونکہ سول ادارے نہ تو ایسے حملہ آوروں کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ اکثر لوگ جانتے ہیں یہ بے چہرہ حملہ آور کہاں سے آتے ہیں اور ان کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہو سکتی۔ وزیر داخلہ احسن اقبال دو ہفتے قبل اسلام آباد احتساب عدالت میں پولیس کو علیحدہ کرکے رینجرز کی طرف سے کنٹرول سنبھالنے پر احتجاج کرتے ہوئے اس لاقانونیت کو ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ سے تعبیر کر چکے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر رینجرز کی طرف سے سول حکومت کے اختیار کو چیلنج کرنے کے عمل کی وضاحت نہ کی گئی اور یہ صورتحال تبدیل نہ ہوئی تو وہ اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بے اختیار وزیر داخلہ کے طور پر کام نہیں کریں گے۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے وزیر داخلہ کے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر رینجرز نے کسی جگہ کنٹرول سنبھالا اور بعض مقتدر لوگوں کو اندر داخل نہیں ہونے دیا تو اس پر ان کی توصیف ہونی چاہئے کہ انہوں نے عہدہ و مرتبہ سے قطع نظر سکیورٹی کے حوالے سے اپنا فریضہ ادا کیا تھا۔ وزیر داخلہ فوج کی اس وضاحت کے بعد یہ کہہ کر خاموش ہو چکے ہیں کہ وہ جواب الجواب دینا مناسب نہیں سمجھتے۔

ایسی حکومت کا وزیر داخلہ حتیٰ کہ وزیراعظم بھی آج ایک صحافی پر ہونے والے حملہ پر محض مذمت ہی کر سکتا ہے۔ ان سے ذمہ داروں کے خلاف کسی کارروائی کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ سول حکومت کے لئے بعض نوگو ایریاز بنا دیئے گئے ہیں۔ ملک کی حکومت چاہتے ہوئے بھی ان حدود کی خلاف ورزی کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک صحافی پر حملہ کے بعد ملک کی ہر سیاسی جماعت کے رہنما بیان بازی میں تو ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے لیکن اسے تبدیل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہ سارے سیاستدان اپنے اپنے طور پر اقتدار حاصل کرنے کے لئے ان قوتوں کی مدد و سرپرستی کے خواہشمند ہیں جو صحافیوں اور آزادانہ اظہار کا حق استعمال کرنے والوں کے خلاف بھی سرگرم ہیں۔ کیونکہ یہ قوتیں سمجھتی ہیں کہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے تحفظ کے نام پر انہیں کوئی قدم اٹھانے اور کسی کو بھی گریبان سے پکڑنے، زد و کوب کرنے حتیٰ کہ جان تک لینے کا حق حاصل ہے۔

ان طاقتور عناصر کے نزدیک کسی کی زندگی، رائے رکھنے کا حق یا خبر و تبصرہ فراہم کرنے کی آزادی قومی سلامتی سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی۔ لیکن قوم کی سلامتی اور مفاد کی یہ صراحت ایک ایسی غیر واضح علامت کی حیثیت رکھتی ہے، جو صرف یہ خفیہ قوتیں ہی جانتی ہیں اور ان کی وضاحت کرنے اور اس تفہیم کے مطابق ان کا نفاذ کرنے کا حق اپنی ذات اور ادارے کے دائرہ کار تک محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ اسی لئے حملہ آور ماہر اور چاق و چوبند ہوتے ہیں اور کھلے چہروں کے ساتھ برسر عام حملہ کرنے اور مار پیٹ کرنے کے باوجود ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ کبھی سراغ نہیں ملتا۔ کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق رپورٹنگ کرنے والا صحافی اگر ان حدود کو عبور کرے گا جو ان نامعلوم اداروں اور افراد نے مقرر کی ہوئی ہیں تو اس کی آواز دبانے کے لئے کسی بھی وقت کوئی بھی انہونی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ ملک میں منتخب وزیراعظم کو بیک نوک قلم نااہل قرار دینے کی طاقت رکھنے والی عدالت بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ قانون سے بالا دست کسی قوت کو قبول نہیں کرے گی۔

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے لیکن اسے صحافیوں کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ گزشتہ 15 برس میں 117 صحافیوں کو پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے دوران ہلاک کیا گیا ہے لیکن صرف چار معاملات میں عدالتی کارروائی ممکن ہو سکی ہے۔ بلوچستان کے علاوہ دیگر چھوٹے صوبوں اور دور دراز علاقوں میں صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والی زیادتیوں اور ظلم سے قطع نظر گزشتہ پانچ ماہ کے دوران اسلام آباد میں چار ممتاز صحافیوں یا اینکر پرسن پر حملہ کرنے اور اغوا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دھمکیاں دینے، نامعلوم فون نمبر سے کال کرکے ہراساں کرنے اور مختلف ہتھکنڈوں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان سے تسلسل سے یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ناپسندیدہ پروگرام کرنے، رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے والے صحافیوں کو غیر موثر کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے جاتے رہے ہیں۔ ان میں میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے ذریعے ایسے صحافیوں یا اینکرز سے جان چھڑانے کا طریقہ بھی شامل ہے۔ آزادی رائے اور بے خوف صحافت کے بغیر جمہوریت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ ملک میں جمہوریت کے لئے بلند و بانگ دعوے کرنے والی قوتیں بھی آزادی رائے کے تحفظ کے لئے اپنا کردار ادا کرنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پس پردہ محرک عناصر حوصلہ مند اور طاقتور ہیں اور بے باکی سے اظہار رائے کا حق استعمال کرنے والوں کے لئے گھناؤنا خواب بنتے جا رہے ہیں۔

موقع ملنے پر منتخب حکومتیں بھی آزادی رائے کو محدود کرنے کیلئے اقدام کرنے سے باز نہیں آتیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ برس انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے سخت احتجاج کے باوجود ملک میں سائبر کرائمز کے قلع قمع کے لئے ایک متنازع قانون نافذ کیا تھا۔ اب اس حکومت کے سابق سربراہ اور پارٹی کے صدر نواز شریف سوشل میڈیا پر سرگرم اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں کو لاپتہ کرنے کے معاملہ پر سراپا احتجاج ہیں لیکن ان کی اپنی حکومت بے بسی سے اپنے ہی لیڈر کی باتوں کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہے۔ ایسے موقع پر بحث کو آزادی رائے پر حملہ کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اسے حکومت کی نااہلی اور غلط فیصلوں پر تنقید تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سول حکومت کی طرف سے ہونے والی زیادتی کا تدارک تو عدالتوں کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے خلاف میڈیا میں شور مچایا جا سکتا ہے یا سوشل میڈیا پر مباحث و معلومات کے ذریعے حکومت کا ہاتھ تھاما جا سکتا ہے۔ لیکن صحافیوں پر حملے کرنے، سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کو لاپتہ کرنے یا میڈیا کارکنوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہراساں کرنے والی نادیدہ قوتیں دراصل اس وقت آزادی اظہار اور جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ یہ خطرہ محض بیان دینے سے نہیں ٹل سکتا۔ اس کے لئے قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے نام پر قائم کئے گئے نو گو ایریاز کو ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ ملک کا کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا نہ ہو۔ اگر صحافی قانون شکنی کرتا ہے تو عدالت اس کے جرم کا تعین کرے لیکن اگر پیشہ ورانہ فرض ادا کرنے پر کچھ بے نام حملہ آور تشدد کا ارتکاب کرتے ہیں تو اس ملک کی حکومت، نظام اور عدالتیں ان کا نام لے سکیں۔ ان کی گرفت کر سکیں اور ملک کے قانون کے مطابق انہیں سزا دلوا سکیں۔ ورنہ جمہوریت کے نعرے محض ذاتی مفاد کے تحفظ کا ذریعہ بنے رہیں گے۔ نہ لوگوں کو بولنے کا حق ہوگا اور نہ انصاف عام ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali