مریم نواز: جمہوری روایت کی بجائے حکمران اشرافیہ کی نمائندہ


مریم نواز نے خاندان میں سیاسی اختلافات کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ ملک کی قیادت کےلئے تیار ہیں۔ نیویارک ٹائمز کو اپنی 44 ویں سالگرہ پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنے چچا اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہایت باصلاحیت ہیں اور وہ انہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ یا نواز شریف مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے علیحدہ ہونے کےلئے تیار ہیں۔ عام طور سے عدالتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں درشت لب و لہجہ اختیار کرنے کی شہرت رکھنے والی مریم نواز نے اس انٹرویو میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ان کے اور ان کے والد و خاندان کے خلاف قائم کئے گئے مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور انہیں دباؤ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس انٹرویو میں مریم نواز ایک ہوشمند مگر اقتدار کےلئے پرجوش سیاستدان کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان کی باتوں سے مسلم لیگ (ن) کی کسی انقلابی یا باغیانہ حکمت عملی کا اندازہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ خود کو پاکستان کے عوام کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ خود کو ایک ’’ایک انسان اور ایک عورت‘‘ قرار دیتے ہوئے مریم نواز نے اپنی پرتعیش زندگی اور عادتوں کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس انٹرویو میں وہ ایک ایسے طبقہ کی نمائندہ کے طور پر سامنے آئی ہیں جو حکمرانی کو عوام کا تحفہ سمجھنے کی بجائے اپنا حق سمجھنے کی غلطی کرتا ہے۔

نواز شریف اور ان کے بچے اگرچہ اس وقت شدید سیاسی اور عدالتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں لیکن وہ نہ تو خاندان کا دباؤ قبول کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو خاطر میں لا رہے ہیں۔ حالانکہ اختلاف کرنے والوں میں پارٹی کے بعض سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔ چوہدری نثار علی خان جو نواز شریف کے دیرینہ ساتھی ہیں اور طویل عرصہ تک ان کی حکومت میں وزیر داخلہ رہے ہیں، اب تقریبا گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے معزولی کے بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں مریم نواز کی قیادت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے باوجود گزشتہ ماہ لاہور کے حلقہ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں مریم نواز نے ہی اپنی والدہ کلثوم نواز کی مہم چلائی تھی جو کینسر کے علاج کےلئے لندن میں مقیم ہیں۔ اس موقع پر شہباز شریف کے جانشین اور سیاسی پالیسیوں کے وارث حمزہ شہباز کو بھی نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کو نواز شریف اور مریم نواز سے سیاسی اختلاف کے علاوہ یہ گلہ بھی ہے کہ انہیں پارٹی میں سیاسی طور سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ دونوں بھائیوں کے درمیان فوج کے ساتھ تعلق کے حوالے سے اختلافات بھی ہو سکتے ہیں لیکن اصل وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ ان کی اولادیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں جس طرح نواز اور شہباز شریف نے طویل سیاسی زندگی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ اس لئے متعدد مبصر یہ اندازے قائم کر رہے ہیں کہ نواز شریف کی موجودہ مشکلات کی وجہ سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) پر قبضہ کرنے کا یہی موقع ہے۔ اگر نواز شریف اس بحران پر قابو پا لیتے ہیں اور اپنے خلاف مقدمات اور پارٹی میں سیاسی اختلافات کے باوجود پارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی دلوانے میں سرخرو ہو جاتے ہیں تو صرف نواز شریف کی قیادت کو چیلنج کرنا ہی مشکل نہیں ہوگا بلکہ مریم نواز کا راستہ بھی نہیں روکا جا سکے گا۔

اس وقت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حکمت عملی یہ ہے کہ پارٹی کے اندر نواز شریف کی مشکلات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران اور بے چینی میں اضافہ کیا جائے اور یہ انتظار کیا جائے کہ احتساب عدالت نواز شریف ہی نہیں مریم نواز کے سیاسی مستقبل کو بھی تاریک کر دیتی ہے۔ ایسی صورت میں نواز شریف کے پاس پارٹی کی قیادت شہباز شریف کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ تاہم اگر احتساب عدالت سے مقدمات کا فیصلہ موخر کروانے کی حکمت عملی کامیاب ہو جاتی ہے تو شہباز شریف کی ‘دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی بھی ناکام ہو جائے گی۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ احتساب عدالت مریم نواز اور نواز شریف کو مختلف مقدمات میں قصور وار ٹھہراتے ہوئے سزائیں سنا دے۔ اس صورت میں فوری طور پر ایوان اقتدار تک پہنچنے کی مریم نواز کی شدید خواہش کو ضرور زک پہنچے گی۔ لیکن قید ہونے کی صورت میں وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی بھرپور کوشش کریں گی۔ ممتاز امریکی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مریم اور نواز شریف جموریت کےلئے فوج سے ٹکرانے اور سول بالا دستی کےلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی موجود ہو لیکن اس کے باوجود مریم نواز اور ان کے تین مرتبہ وزیراعظم بن کر معزول ہونے والے والد مفاہمت یا سمجھوتہ کے آپشن کھلے رکھے ہوئے ہیں۔

اس لحاظ سے نواز اور شہباز کیمپ کی طرف سے فوج کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو متضاد تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ حقیقی سیاسی نظریہ کی بجائے دونوں بھائیوں کی مختلف سیاسی ضرورتوں کی بنیاد پر استوار ہے۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ نواز شریف مضبوط ہو گئے تو مریم نواز ان کے بیٹے حمزہ شہباز کی سیاست کو ختم کرنے کےلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی۔ اس لئے وہ بھائی کے ساتھ اختلاف کو فوج سے مفاہمت یا تصادم کی لڑائی کے طور پر پیش کرکے پارٹی کے شاہ پرست اور اقتدار نواز حلقوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے اور اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سیاست سے نااہل قرار دے چکی ہے اور ان کے دو بیٹوں اور سیاسی وارث مریم کے خلاف بھی مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ اب اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ شریف خاندان اب تک اپنے اوپر عائد ہونے والے الزامات کو غلط ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے دوران اور اس کے بعد جے آئی ٹی کی تحقیقات میں ایسی دستاویزات سامنے نہیں لائی جا سکیں جو انہیں بے گناہ ثابت کر سکتیں۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے نہ صرف بدعنوانی کے مقدمات چلانے کا حکم دیا بلکہ فوری طور پر نواز شریف کو نااہل بھی قرار دیا۔ نواز شریف کے پاس اس صورت میں عدالتی کارروائی کا سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لئے ان کی طرف سے فوج اور نظام سے تصادم کا تاثر دیا جاتا ہے۔ اس طرح عوام اور ملک کے جمہوریت نواز طبقوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ نظریاتی جنگ ہے۔ نیویارک ٹائمز میں مریم نواز کے انٹرویو سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ دراصل اقتدار کی جنگ ہے۔ اور اس مقصد کےلئے مریم اور ان کے والد کوئی بھی سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوں گے۔ تاہم فی الوقت وہ مظلوم بن کر سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ ہتھکنڈہ خاطر خواہ کامیابی دلوانے میں ناکام رہا تو مفاہمت و سمجھوتہ کا راستہ تو کھلا ہی ہے۔

نواز شریف کا مقدمہ یہ ہے کہ انہیں سول حکومت کو بالا دست بنانے کی پاداش میں نشان عبرت بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بطور وزیراعظم انہوں نے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جو فوج کی صوابدید اور ضرورتوں سے مختلف ہو۔ انہوں نے ہر معاملہ میں فوج کے مطالبہ کو پورا کیا۔ معزول ہونے کے بعد وہ خود یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہیں چار برس تک وزیراعظم رہنے کےلئے کئی سمجھوتے کرنا پڑے۔ تیسری بار ملک کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی اگر نواز شریف سمجھوتے کرتے ہوئے چار برس اقتدار میں رہے ہیں تو مستقبل میں ان سے کیسے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایک نیا موقع ملنے کے بعد وہ کوئی سیاسی انقلاب برپا کر دیں گے، سول حکومت اور پارلیمنٹ کو بااختیار کریں گے اور اہم ترین معاملات میں فوجی اثر و رسوخ اور ’’حق رہنمائی‘‘ کو محدود کر دیں گے۔ یہ باتیں ایک خاص سیاسی ماحول میں ایک نعرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ مریم نواز کے انٹرویو کو غور سے پڑھنے کے بعد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے اصل عزائم کو سمجھنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے۔

ملک مں جمہوریت کے حوالے سے یہ المیہ بہرحال موجود رہے گا کہ موجودہ حالات میں عوامی حکمرانی کا کوئی بھی حامی نواز شریف کی باتوں سے اصولی اختلاف نہیں کر سکتا۔ یہ قضیہ بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اگر نواز شریف کو بدعنوان سمجھ کر مسترد کر دیا جائے اور ان کے قانونی مسائل کو سیاسی پہلو سے نہ دیکھا جائے تو ان کے بعد باقی رہ جانے والی قوتیں واضح کر رہی ہیں کہ وہ جمہوریت اور ووٹ کو اقتدار تک پہچنے کا نعرہ اور ذریعہ ہی سمجھتی ہیں اور حتمی کامیابی کے لئے فوج کی طرف دیکھتی ہیں۔ گویا اس حمام میں سب ننگے ہیں اور بہتری کا کوئی راستہ سامنے نہیں ہے۔ مریم نواز کی باتوں سے طبقاتی تکبر اور حکمرانی کو استحقاق سمجھنے کی بو آتی ہے۔ ایسے لیڈروں کے ہوتے ملک میں جمہوریت کا سفر طویل اور دشوار گزار دکھائی دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali